اپنے ایک اعزاز پہ میں نازاں ہوں اور اہلِ فساد اسے چھین لینا چاہتے ہیں۔ رحمت کی ایک چادر ہے جس نے اس زمین پر سایہ کر رکھا ہے۔ یہ عجب سایہ ہے جو اس زمین پہ چمکتے آفتاب کی حدّت ہی سے نہیں بچاتا، میدانِِ حشر میں بھی مجھے محفوظ رکھے گا جب عرشِ الٰہی کے سوا کوئی سایہ نہیں ہو گا۔ میں نے اگر اس دنیا میں خود کو اس چادر کی پناہ میں دے دیا تو پھر قیامت کے دن میں سایہ عرش الٰہی کا مستحق ٹھہروں گا۔ یہ سایہ کالی کملی کا ہے۔ یہ ردائے نبوت کا سایہ ہے جس کے بارے میں عالم کے پروردگارکا فیصلہ ہے کہ عالمین کے لیے رحمت ہے۔ آج کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ میرے سر سے یہ چادر اتر جائے۔ میرا یہ اعزاز چھن جائے۔ میں اہلِ ظلم میں شمار کیا جاؤں۔ رحمۃاللعالمین ﷺ سے میری نسبت لوگوں میں خوف پھیلا دے۔ میں دھشت کی علامت بن جاؤں۔ لوگ مجھے دیکھتے ہی راستہ بدل لیں۔ انسان مجھ سے پناہ مانگیں۔ اقبال ساری عمر پریشان رہے کہ اللہ نے روزِ قیامت رسول اللہﷺ کی مو جودگی میں حساب مانگ لیا تو میں اپنے آقا کا سامنا کیسے کروں گا۔ میں سوچتا ہوں پروردگار نے آپﷺ کی موجودگی میں اگر لاہور کی جلتی بستیوں کا حساب مجھ سے مانگ لیا تو میں کہاں جاؤںگا۔ ایک قہاروجبار کی عدالت اور پھر سرورِ عالمﷺ کی مو جودگی؟ اُس وقت تو موت بھی میری مدد کو نہیں آئے گی۔ وہ خود موت کی گھاٹ اتر چکی ہو گی۔ علما متفق ہیں کہ ظلم ہوا۔ مقدمہ درج ہو چکا اور ملزم کا معاملہ اب عدالت میں ہے۔ جوزف کالونی کے مکینوں کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ ظلم کے سوا کچھ نہیں۔ پنجاب حکومت کی ناکامی نوشتہء دیوار ہے۔ پولیس تماشائی بنی رہی اور انسانوں کی بستی خاک ہو گئی۔ گھروں کی راکھ پر کھڑے ہو کر جب حکمران کہتے ہیں کہ حکومت تلافی کرے گی اور کسی کو ظلم کی اجازت نہیں دے گی تو اس سے سنگین مذاق نہیں ہو سکتا۔ ظلم تو ہو چکا۔ اب اجازت کا کیا سوال؟ اللہ کا شکر ہے کہ انسانی جانیں محفوظ رہیں ورنہ حملہ آوروں سے تو کچھ بھی بعید نہیں تھا۔ مذہبی قیادت نے بلااستثنا اس واقعے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ سید منور حسن، حافظ سعیدصاحب اور دوسرے دینی رہنما سراپا احتجاج ہیں۔ یہ خوش آئند ہے لیکن کافی نہیں۔ وہ اگر سماج میں مذہب کے نمائندہ ہیں تو انہیں بہت کچھ سوچنا ہو گا۔ بطور اُمتی اگر آج میرا تشخص مجروح ہوا ہے تو اس کو بحال کرنا بھی ان کی ذمہ داری ہے۔ یہی نہیں، پاکستان کی ساکھ پر بھی اب بہت سے سوالیہ نشان ہیں۔ اُنہیں مخاطب بنانا بھی اب ان کا کام ہے۔ اگر ایسے واقعات کا اعادہ ہو رہا ہے تو لازم ہے کہ وہ اس پر تشویش میں مبتلا ہوں اور سوچیں۔ اس باب میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کیسے ممکن ہے؟ دہشت گردی کو ہم غیرملکی سازش کہہ کر خود فریبی کا شکار رہے اور ابھی تک ہیں۔ ہماری مذہبی قیادت آج عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کی مویّد ہے۔ اُن سے پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر ان کا وجود ہی ثابت نہیں یا یہ غیرملکی سازش ہے تو پھر مذاکرات کس کے ساتھ ہوں گے؟ یہ کون ہیں جن کے مطالبے کا احترام کرتے ہوئے ’ دہشت گردی‘ کو بدامنی کہا گیا ہے؟ جب ہم خود فریبی کا شکار ہوتے ہیں تو ایسے تضادات کا پیدا ہونا یقینی ہوتا ہے۔ توہینِ رسالت کے واقعات کو بھی اگر ہم نے اسی طرح دیکھا تو مجھے خدشہ ہے کہ ہم ان واقعات کو روک نہیں سکیں گے۔ جوزف کالونی میں جو کچھ ہوا، اگرظلم ہے تو پھر لازم ہے کہ اسے منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے۔ یہ فساد فی الارض کا جرم ہے اور علما جانتے ہیں کہ فساد ان چند جرائم میں سے ہے جن کی سزا اللہ تعالیٰ نے خود متعین کی ہے اور یہ سب سزاؤں سے شدیدتر ہے۔ میرے نزدیک لازم ہے کہ اس وقت چند امور اہلِ مذہب کی توجہ کا موضوع بنیں اور ان میں عوام کی تعلیم کی جائے: ٭ آج ملک میں توہینِ رسالت یا توہینِ مذہب کا ایک قانون موجود ہے۔ علم کی دنیا میں اس حوالے سے بہت قیل و قال ہے لیکن عملاً یہ قانون نافذالعمل ہے۔ اگر کو ئی شخص اس جرم کا ارتکاب کرتا ہے یا اس پر اس کا کوئی ایسا الزام ہے تو اس کے بارے میں فیصلہ کرنے کی مجاز صرف عدالت ہے۔ ٭ اسلامی تعلیمات اور ریاستی اخلاقیات، دونوں متفق ہیں کہ کسی جرم میں عام شہری کو یہ اختیار نہیں کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے۔ خود مدعی ہو۔ خود ہی عدالت ہو اور خود ہی ریاست بن کر فیصلے پر عمل بھی کرے۔ مدعی کے لیے لازم ہے کہ وہ عدالت میں جائے اور اپنا مقدمہ ثابت کرے۔ اس کے بعد عدالت جو فیصلہ کرے، عملاً اسے تسلیم کرے۔ ٭ مذہب جذبات کا معاملہ تو ہے لیکن اصلاً یہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کا عملی اظہار ہے۔ ہم اللہ، رسول، سماج اور انسانوں کے ساتھ تعلق میں ان تعلیمات کے پابند ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے آخری رسولﷺ کی توسط سے دیں۔ نماز کی ایک رکعت میں اگر دو سجدوں کا حکم ہے تو ہم بندگی میں غلو کرتے ہوئے تین سجدے نہیں کر سکتے۔ اگر وراثت میں اللہ تعالیٰ نے سب رشتوں کا حصہ متعین کر دیا تو کسی کے ساتھ زیادہ محبت ہوتے ہوئے بھی ہم اسے اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے حصے سے زیادہ نہیں دے سکتے۔ مسیحیوں نے حضرت عیسیٰ ؑ سے محبت میں غلو کیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے پسند نہیں کیا۔ مسلمان ہر معاملے میں، یہ محبت ہو یا نفرت، ان احکام اور ہدایات کے پابند ہیںجو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئے۔ ٭ غیر مسلموں کے ساتھ حسنِ سلوک اللہ تعالیٰ کے آخری رسول محمدﷺ کی سیرت کا ایک تابناک باب ہے۔ خلافتِ راشدہ میں اس اسوہ پر عمل ہوا۔ ان معاملات میں ہمیں سیرتِ رسول اور سیرتِِ اصحابِ رسول ہی کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ آج بطور اُمتی میرا اعزاز بچ سکتا ہے اگر اہلِ مذہب ان نکات کے نمائندہ بن کر کھڑے ہو جائیں۔ میں اللہ تعالیٰ کے حضور میں، رسالت مآب ﷺ کے سامنے ندامت سے بچ سکتا ہوں۔ آج ہونا یہ چاہیے کہ سید منور حسن اور حافظ سعید صاحب جیسے زعما کی قیادت میں مسلمانوں کا ایک جلوس جوزف کالونی پہنچے اور ان حملہ آوروں کے اس اقدام پر معذرت کرے جنہوں نے اپنا تعارف اسلام کے حوالے سے کرایا ہے۔ وہ اپنے ہاتھوں سے اجڑی بستیوں کی تعمیر ِنو کا آ غاز کریں۔ وہ متاثرین کے وکیل بن کر عدالت میں پہنچ جائیں۔ اگر ایسا ہو جائے تو میرا اعزاز بچ سکتا ہے۔ میں دُنیا میں سر اُٹھا کر چل سکوں گا کہ میں ایسے رسول ﷺکا اُمتی ہوں جو اس زمین پر اللہ کی آخری حجت ہیں۔ جن کی چادرِ رحمت نے ساری دُنیا کو اپنے سائے میں لے رکھا ہے اور لوگ آپﷺ کے ایک امتی سے صرف خیر کی امید رکھ سکتے ہیں۔