خیال تو یہ تھا کہ یہاں ہر کوئی حرصِ اقتدار میں مبتلا ہے۔حسنِ طلب کا یہ عالم ہے کہ لوگ احتیاطاً شیروانی سلوا کر رکھتے ہیں۔کیا معلوم کب بلاوا آ جائے۔یہ خواہش اتنی شدید ہو تی ہے کہ آ خری بلاوے پر بھی گمان ہو تا ہے کہ شاید یہ بلاواکہیں اور سے ہے۔ لیکن اب معلوم ہو اایسا نہیںہے ۔ہم یوں ہی قحط الرجال کا رونا روتے ہیں۔یہاں ایسے خواتین و حضرات کی بھی کمی نہیں جو حکومت کو پرِ کاہ کے برابر حیثیت دینے کو تیار نہیں۔ لوگ پیش کش لیے دروازے پر کھڑے رہتے ہیں لیکن اُن کی بے نیازی کا یہ عالم ہے کہ نگاہِ غلط اٹھاکر بھی نہیں دیکھتے۔اب معلوم ہوا کہ جنیدو شبلی تاریخ ہی کا سر مایہ نہیں، دورِ حاضر میں بھی ایسے ’صوفیا‘مو جود ہیں۔یہ لوگوں پر اپنی اصل حیثیت کبھی نمایاں نہیں ہونے دیتے۔ بظاہر ہم انہیں عالم ِ دین یا صحافی سمجھتے ہیں۔ انہیں وعظ کرتے یاٹی وی پر سیاسی تبصرے کر تا دیکھتے ہیں لیکن اصلاً یہ کوئی اور ہیں۔ دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں اس حسنِ ظن کے ساتھ لیکن ایک خلش لپٹی ہے۔ دو دن سے ایک خاتون واعظہ کی طرف سے ایک ایس ایم ایس گردش میں ہے۔تین بار تو میں مو صول کر چکا۔ایک ٹی وی چینل کے رپورٹر دوست نے بتایا کہ اس ایس ایم ایس کی بطور خبرتشہیرپر اصرار ہے۔یہ ایس ایم ایس کہتاہے’’اللہ کے فضل و کرم سے محترمہ فلاں کو نگران حکومت میں بطور وزیر شمولیت کی پیش کش ہوئی ہے۔لیکن انہوں نے فی الوقت اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔‘‘ خلش یہ ہے کہ تقویٰ اور دنیا سے بے نیازی کے اس اعلیٰ معیار پر پہنچ کربھی ہم شہرت کی خواہش سے بے نیاز کیوں نہیں ہو سکتے؟ایسا کیوں ہے کہ ہم نیکی کی تشہیر چاہتے ہیں؟ کیا اس لیے کہ نیکی ہمارے لیے جنسِ بازار ہے؟‘‘ اقتدار کی خواہش نہیں کر نی چاہیے لیکن اگر یہ کبھی دروازے پر دستک دے تو کیاانکار کر دینا چاہیے؟ میرا خیال ہے کہ ہمیشہ انکار ہی عزیمت نہیں ہے۔ کبھی عزیمت یہ بھی ہو تی ہے کہ آگے بڑھ کر اسے ایک چیلنج کے طور پر قبول کر لیا جائے۔تین باتیں البتہ ہر صورت میں پیشِ نظر رہنی چاہئیں۔ سب سے پہلے تو اپناجائزہ کہ کیا میں اس منصب کو نبھانے کی اہلیت رکھتا ہوں۔دوسرا یہ کہ کیا میں اپنے دائرے میںاتنا بااختیار ہوں گا کہ حسبِ خواہش کام کر سکوں؟تیسرا یہ کہ اس بات کا کتنا امکان ہے کہ میرے انکار کی صورت میں منصب کسی نا اہل یا بد دیانت کے حوا لے کر دیا جا ئے۔ یہ جائزہ لیا جا سکتا ہے اور اس کے بعد اگر کوئی یہ خیال کر تا ہے کہ وہ ملک و قوم کو کچھ دے سکتا ہے تو منصب قبول کر نے میں کوئی حرج نہیں۔سید نا عمر فاروق ؓ کو جب خلافت کی ذمہ داری اٹھا نا پڑی توانہوں نے ایک اہم بات ارشاد فرمائی۔کہا اگر مجھے یہ معلوم ہو تا کہ مجھ سے بہتر کوئی شخص یہ عہدہ سنبھال سکتا ہے تو میں اسے کبھی قبول نہ کرتا۔گویا خود شناسی کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اپنی خوبیوں کا ادراک کیا جائے۔کسرِ نفسی اس سے مختلف طرزِ عمل ہے۔ ہماری تاریخ میں دونوں طرح کے رویّے مو جود رہے ہیں۔امام ابو حنیفہؒ نے چیف جسٹس کا منصب قبول نہیں کیا، ان کے شاگردِ رشید امام ابو یو سف نے قبول کر لیا۔شاگرد کا تقویٰ اور خد اخو فی اپنے استاد کی طرح غیر مشتبہ ہے۔لوگ درباروں سے گریزاں رہے اور وہ بھی تھے جنہوں نے خیر خواہی کا مفہوم یہ جانا کہ اہلِ اقتدار سے قرب رکھا جائے تاکہ نصیحت کا باب کھلا رہے۔ہمارے ہاں عزیمت یہی سمجھی جا تی ہے کہ سرکار دربار سے ہمیشہ دور رہا جائے اور کبھی اہلِ اقتدارسے نہ ملا جائے۔بھٹو صاحب نے ملنے کی خواہش کی تو مو لا نا مو دودی نے اسے قبول کیا اور یہ کہا کہ وہ خود اُن سے ملنے گورنر ہاؤس جائیں گے۔اس ملاقات کی روداد’ محرمِ رازِ درونِ خانہ‘ مصطفیٰ صادق مرحوم بیان کر چکے۔ناجائز حکومت کا معاملہ البتہ مختلف ہے۔ایسی حکومتوں میں منصب قبول کر نے کا مطلب انہیں سندِ جواز فراہم کر نا ہے۔تاہم یہ بات شخصی اجتہاد کی ہے۔بعض اوقات نیک لوگوں نے اس کے بر عکس طرزِ عمل کا مظاہرہ کیا۔جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے ناجائز ہو نے میں کوئی شبہ نہیں تھا لیکن ہمارے عہد کے ایک نامور عالم ڈاکٹر محمود احمد غازی مرحوم نے ابتدا ہی میں ان کی کا بینہ میںمنصب قبول کیا۔اس سے بہت پہلے مو لانا ابو الکلام آزاد نہرو کی کا بینہ میں وزیر تعلیم ہوئے۔یہ ماضی کا ایک باب ہے لیکن سب جانتے ہیں ،اس منصب پر ان کا فائز ہو نا مسلمانانِ ہند کے لیے کتنا مفید ثابت ہوا۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ مو لا نا آزاد ایک بے نیاز آ دمی تھے۔وہ ان لوگوں میں سے تھے،جو منصب کے محتاج نہیں ہوتے۔یہ کسی منصب کی عزت ہو تی ہے کہ وہ اُن سے منسوب ہو۔ اس بنیاد پر میں یہ عرض کر تا ہوں کہ اگر کسی صحافی یا عالم نے نگران حکومت میں شامل ہو نے کا فیصلہ کیا ہے تو اس سے ان کی قدر و منزلت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اسی طرح اگر کسی نے انکار کیا تو اس سے بھی اُس کے وقار میں کوئی گراوٹ نہیں آئی۔ یہ شخصی اجتہاد ہے۔اگر کوئی آ دمی کسی منصب پر فائز رہتا اور پھر بھی اس کا دامن خشک رہتا ہے تویہ زیادہ عزیمت کی بات ہے۔دینی اخلاقیات میں خود کو کسی منصب کے لیے پیش کر نا جائز نہیں۔انتخابی سیاست میں قدم رکھتے وقت دینی جماعتوں کواس مشکل کا سامنا ہوا۔اس کی روشنی میں جماعت اسلامی نے پنجاب کے 1951ء کے انتخابات میں ایک بہت پیچیدہ طریقہ اپنا یا۔بعد میںمعلوم ہوا کہ یہ انتخابی سیاست سے ہم آہنگ نہیں ہے۔اب سب مذہبی جماعتیں اپنا امیدوار کھڑا کرتیں اور ہر امیدوار اپنے حق میں مہم منظم کرتا ہے۔یہ ہمارے علم میں ہے کہ اس طرح اسمبلیوں تک پہنچنے والے لوگ ایسے بھی ہیںجو دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں۔ نگران حکومت کا معا ملہ تو عام حکومت سے بالکل مختلف ہے۔ یہ محدود وقت کے لیے ہے اور اس کی ذمہ داری بھی محدود ہے۔یہ ہمارے آئین کے مطابق ہے اورآئین کی طرح کے عمرانی معاہدے شرعی اور اخلاقی دونوں پیمانوں سے واجب الاطاعت ہوتے ہیں۔اس لیے نگران حکومت میں شرکت سے کوئی اخلاقی خلل واقع نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر کوئی منتخب حکومت ہے تو اس کا حصہ بننے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ رہی مشرف جیسی غیر آئینی حکومت تو میرا خیال یہ ہے کہ اس سے گریز ہی بہتر ہے،ا گرچہ بعض صاحبانِ علم کا طرزِ عمل اس سے مختلف بھی رہا جیسا کہ میں لکھا چکا۔ مجھے توشرکت کے مقابلے میں وہ انکار بھی متاثر نہیں کرتا جس میں مصنوعی پن اور ریا ہو اور مقصد اپنے تقویٰ کی شہرت ہو‘ یہ مرض بزعم خویش مقدس لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ پاکستان کو آج بہتر لوگوں کی ضرورت ہے،اخلاقی اعتبار سے اور صلاحیت کے اعتبار سے بھی۔یہ رویہ شاید پوری طرح مناسب نہ ہو کہ ہماری صفوں میں مو جود اچھے لوگ حجرہ نشین ہو جا ئیں۔اس کے ساتھ ایک اضافی درخواست بھی۔ جس بے نیازی کا مظاہرہ لوگوں نے اقتدار کے معا ملے میں کیا ہے، اللہ کرے اس کا پرتو ان کی پیشہ ورانہ زندگی میں بھی ہو۔وہ اپنے پیشے کے ساتھ مخلص ہوں اور اخلاقی اصولوں کا خیال رکھیں۔ کسی سماج کے لیے یہ بات کسی المیے سے کم نہیں کہ وہاں اخلاقیات کو بھی جنس ِبازار بنا دیا جائے۔مسئلہ حکومت میں شمولیت یا عدمِ شمولیت کا نہیں، اخلاقی معیارکا ہے اور اس کا لحاظ ہر دو صورتوں میں واجب ہے۔