مولانا فضل الرحمٰن کا ایک بڑا جلسہ ’ٹاک آف دی ٹاؤن‘ نہ بن سکا۔ ہم عالمِ اسباب میں زندہ ہیں، اس لیے اس صرفِ نظر کے کچھ اسباب تو ہوں گے۔ مولاناکو ان کا کھوج لگانا چاہیے۔ میرا مسئلہ البتہ دوسرا ہے‘ میں اِسے جلسہ ہائے عام کے سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر دیکھ رہا ہوں۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں جلسہ خود فریبی کی ایک علامت بن چکا۔کیا مولانا جیسا زیرک سیاست دان بھی اس کا شکار ہو گا؟ 31مارچ کو وفاق المدارس کے زیرِ اہتمام دینی مدارس میں ’’قومی تعطیل‘‘تھی۔ ’وفاق‘ دیوبندی مدارس کا منتظم ادارہ ہے۔ یہی مدارس جمعیت علمائے اسلام کی سیاسی قوت کا سرچشمہ ہیں۔ دینی و سیاسی جماعتیں نوجوان طلبہ کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ دوسری جماعتوں نے جدید تعلیمی اداروں میںاپنے اپنے ’’انقلاب‘‘ کے ہراول دستے تیار کیے۔ سبز انقلاب والے یہیں سے قوت کشید کرتے رہے اور سرخ انقلاب والے بھی۔ ان نوجوانوں کے مستقبل سے کسی کو کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ان جماعتوں کے جلسے آباد ہو گئے، یہ الگ بات کہ نوجوانوں کا مستقبل ویران ہو گیا۔ جمعیت طلبائے اسلام اگرچہ ان اداروں میں بھی متحرک ہے لیکن مولانا کی اصل قوت دینی مدارس ہیں۔ مدارس کے طلبہ و اساتذہ نیز مساجد کے آ ئمہ جمع ہوئے اور جلسہ سج گیا۔ کیا اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام پنجاب میں ایک سیاسی قوت بن چکی ہے؟ مجھے حیرت ہوگی اگر مولانا جیسا سنجیدہ آدمی اس خود فریبی کا شکار ہو۔ دیو بند با لعموم مذہب کے باب میں ایک مسلک کا عنوان سمجھا جاتا ہے۔مولانا فضل الرحمن کو اس سے اتفاق نہیں۔وہ اسے ایک سیاسی تحریک سمجھتے ہیں۔جب دیوبند میں دارالعلوم قائم ہوا تو روایتی دینی علم کی حفاظت اس کے پیش نظر تھی۔ابتدا میں کچھ لوگ مسلمانوں کے سیاسی احیا کے بھی متمنی تھے۔شیخ الہند مولانا محمود الحسن ان میں نمایاں تر ہیں جنہوں نے ریشمی رومال کی تحریک اٹھائی اور اسیر مالٹا کی شہرت پائی۔یوں مذہب اورسیاست ابتدا ہی سے ہم سفر بن گئے۔مولانا محمود الحسن دارا لعلوم کے صدر مدرس بنے لیکن اس سے پہلے وہ اس کے متعلم بھی رہ چکے تھے۔مولاناعبید اﷲ سندھی انہی کے ایما پر متحرک ہوئے اور یہ چاہا کہ ترکی کی مدد سے انگریزوں کے خلاف ایک عالمی اتحاد بنے،برِ صغیر کے مسلمان جس کا حصہ ہوں۔آزادی کی سب مسلح تحریکیں ناکام ہوئیںاور شیخ الہند کی تحریک کا بھی یہی انجام ہوا۔ اس ناکامی کے بعد ان کے متاثرین نے سیاسی جد و جہد کا رخ کیا اور یہ خیال کیا کہ ہندوؤں کے ساتھ مل کر انگریزوں کو نکالا جائے۔جمعیت علمائے ہند کی یہی سیاست تھی۔ اس دوران میں مولانا محمد الیاس نے میوات میں بسنے والے مسلمانوں کی مذہبی تربیت کو ضروری خیال کیا تو تبلیغی جماعت کی بنا رکھ دی گئی۔اب اہل دیو بند تین عنوانات سے متحرک تھے۔ایک مذہبی فکر جس کی آبیاری دارا لعلوم اور اس کی تتبع میں قائم دینی مدارس کر رہے تھے۔ایک سیاسی تحریک جس کی قیادت جمعیت علمائے ہند کے پاس تھی۔ایک اصلاح عام کی تحریک جسے ہم تبلیغی جماعت کے نام سے جانتے ہیں۔یہ تینوں ایک دوسرے کے دست و بازو تھے،اگر چہ تنظیمی طور پر ایک دوسرے سے لا تعلق۔ تقسیم ِہند کے بعد یہ تینوں کام پاکستان میں بھی جاری رہے۔ صرف یہ فرق واقع ہوا کہ جمعیت علمائے ہند کی جگہ جمعیت علمائے اسلام نے لے لی۔ یہ ہم جانتے ہیں کہ جمعیت علمائے ہند تقسیم کے مسئلہ پر دو حصوں میں تقسیم ہو چکی تھی۔ مولانا شبیر احمد عثمانی مسلم لیگ کے ہم نوا تھے اگر چہ اہلِ دیوبند کا سوادِ اعظم تقسیم کے حق میں نہیں تھا۔ مولانا شبیر احمد عثمانی نے جمعیت علمائے اسلام کے عنوان سے خود کو منظم کیا۔ اب جمعیت علمائے اسلام ، دیوبند کی ساری سیاسی روایت کی نمائندگی کرتی ہے۔مولانا احتشام الحق تھانوی وغیرہ نے یہ کوشش کی کہ وہ تقسیمِ ہند کے حامی گروہ کی عصبیت کو الگ سے نمایاں رکھیں لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ مولانا مفتی محمود اور مولانا غوث ہزاروی کو یہاں کے دیوبندی حلقے کا عمومی اعتماد حاصل ہوا۔اب ان کے جانشین مولانا فضل الرحمٰن ہیں۔ اس نام سے اگرچہ دو تین جماعتیںاور بھی ہیں لیکن سیاسی اعتبار سے وہ کچھ زیادہ قابلِ ذکر نہیں۔ دینی مدارس، دیوبند کی علمی روایت کے وارث ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن بہت حکمت کے تحت انہیںسیاسی مقاصد کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔وفاق المدارس کی اپنی سیاست ہے جس میں مولانا کے مخالفین بھی موجود ہیں لیکن وہ اپنی بصیرت سے اس محاذ کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہیں۔ دینی مدارس سے جو جہادی تحریکیں اُٹھیں وہ مولانا کی ایما کے خلاف تھیں۔ مولانا سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں؛ تاہم وہ حسبِ ضرورت ان تحریکوں کو بھی اپنے کھاتے میں ڈالنے اور ان سے فائدہ اُٹھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ بارہا اس کا مظاہرہ کر چکے۔ مولانا فضل الرحمٰن کو یہ بات معلوم ہے کہ ایک خاص دینی عصبیت کے ساتھ قومی سیاسی جماعت قائم نہیں ہو سکتی؛ تاہم وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ایک مضبوط حلقۂ اثر کے بغیر سیاست میں قدم نہیں جمائے جا سکتے ۔ان دو متضاد رجحانات میں توازن قائم رکھنا آسان نہیں ہوتا۔ سینیٹر طلحہ محمود جب جمعیت علمائے اسلام کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر بنتے ہیں تو آدمی حیرت سے سوال کرتا ہے کہ ان میں علما والی بات کون سی ہے؛ تاہم عصبیت کا کمال یہی ہوتا ہے کہ وہ اس طرح کی کمزوریوں پر غالب آ جاتی ہے۔ مولانا کے ہاں بعض دوسرے انحرافات بھی ہیں۔ مثال کے طور پر اس جلسے کی تمام تر تشہیری مہم با تصویر تھی۔ اہل دیوبند کی مذہبی تفہیم میں تصویر حرام ہے۔ مولاناچاہتے ہیںکہ علما ایسے معاملات میں اجتہاد فرمائیں۔ شاید ایسے اعتراضات سے بچنے کے لیے وہ یہ کہتے ہیں کہ دیو بند اصلاً ایک سیا سی تحریک ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن سر تا پا سیاست دان ہیں۔حلیہ انہیں دینی حلقوں میں اجنبی نہیں رہنے دیتا اور اسلوبِ سیاست کے سبب، سیاست دان انہیں اجنبی نہیں سمجھتے۔ اس طرح وہ دونوں دھاروں کو ملانے میں کامیاب رہتے ہیں۔ وہ دینی حلقوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ وہ نہ ہوتے تو یہ ملک سیکولر بن گیا ہوتا۔ اہل سیاست سے مخاطب ہوتے وقت وہ زبانِ حال سے یہ اعلان کرتے ہیں کہ میں نہ ہوتا تو جہادی رجحانات دینی مدارس کو بہا لے جاتے۔پہلی بات کے بارے میں مجھے شبہ ہے،البتہ دوسری بات سو فی صد درست ہے۔مولانا کا شاید یہ واحد کام ہے جسے قومی خدمت کہا جا سکتا ہے۔ تجزیہ اگر پیشِ نظررہے تو ہم اس سوال کا جواب تلاش کر سکتے ہیں جو میں نے ابتدا میں اٹھا یا ہے۔ مو لا نا فضل الرحمٰن کو معلوم ہے کہ ایک خاص اور محدود حلقۂِ اثر رکھنے والی جماعت کبھی قومی جماعت نہیں بن سکتی۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ دینی مدارس کے طلبا جمع کرنے سے ایک بھر پور جلسہ تو کیا جا سکتا ہے، اسے سیاسی مقبولیت کی دلیل نہیں بنا یا جا سکتا۔ مولانا اپنے جلسوں سے قومی سیاسی جماعتوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ان کو شریک کیے بغیر وہ اقتدار تک نہیں پہنچ سکتیں۔سیٹ ایڈ جسٹمنٹ کی بدعت نے چھوٹی جماعتوں کے لیے یہ راہ کھول دی ہے کہ وہ مستقل سیاسی نکاح کے بجائے محدود وقت اور علاقے کے لیے عارضی نکاح بھی کر سکتی ہیں۔ بعد میںجو اقتدار تک پہنچ جائے، وہ اس کے ساتھ مستقل رفاقت کا فیصلہ بھی کر سکتی ہیں۔ پنجاب میں یہ جلسہ بطورِ خاص میاں نواز شریف کے لیے پیغام ہے کہ اگر آصف زرداری اُن کے بغیر حکومت نہیں چلا سکتے تو وہ بھی حکومت نہیں بنا پائیں گے۔ میرا خیال ہے مولانا اِس پیغام کے ابلاغ میں کامیاب رہے ہیں۔ معلوم نہیں سید منور حسن اب کیا سوچ رہے ہوں گے۔ ممکن ہے زیرِ لب منیر نیازی کی نظم دھرارہے ہوں : ’’ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں‘‘۔