دلیل کا علاقہ ختم ہوتا ہے تو خلطِ مبحث کی سرحد شروع ہو جاتی ہے۔جمہوریت کی بحث بھی اسی سرحد میں داخل ہو چکی۔اب گفتگو کی نتیجہ خیزی کے لیے یہ لازم ہو چکا کہ بعض باتوں کی تنقیح ہو جائے ۔ سماج اور ریاست انسانی اجتماعیت کی دو مختلف صورتیں ہیں۔دونوں کا نظم مختلف ہے اور ارتقاء و اصلاح کے اسالیب بھی مختلف ۔ریاست ایک جغرافیے کی پابند ہے،سماج نہیں ۔اس لیے ریاست کی بحث لازم ہے کہ خاص جغرافی حد میں ہو۔ریاست کے لیے ایک سیاسی نظم بھی ناگزیر ہے۔سماج اقدار اور روایات سے بنتا ہے۔اقدار کا تعلق جغرافیے سے نہیں ہوتا۔مسلمان سماج پاکستان میں ہے اور بھارت میں بھی۔بنگلہ دیش میں ہے اور نیپال میں بھی۔جمہوریت کی حالیہ بحث ریاست کے دائرے میں ہو رہی ہے۔اِس باب میں چندبنیادی سوال ہیں: ایک ریاست میں جب نظمِ اجتماعی قائم ہو گا توکسی فرد یا گروہ کا حقِ اقتدار کیسے ثابت ہو گا؟قانون ساز کون ہو گااورقانون سازی کیسے ہوگی؟کسی کاحقِ اقتدار مستقل ہو گا یا محدود مدت کے لیے؟ اس مدت کا تعین کون کرے گا؟ یہ سب سوالات ریاست کے متعلق ہیں۔میرا کہنا یہ ہے کہ اِن سوالات کے وہی جواب زیادہ عقلی ، منطقی اور شرفِ انسانیت کے مطابق ہیں جو جمہوریت دیتی ہے۔الہامی ہدایت اس کی تائید کرتی ہے اور انسانی تجربہ بھی۔جمہوریت کی یہ بحث اُسی وقت نتیجہ خیز ہوگی جب یہ ریاست کے دائرے میں ہوگی۔ جب ہم سماج اور ریاست کے فرق کو پیشِ نظر رکھے بغیر ، اصلاحِ معاشرہ اور اصلاحِ ریاست کے موضوعات کو ملا دیتے ہیں تو اس سے خلطِ مبحث وجود میں آتا ہے۔ زیبِ داستاں کے لیے ہم اس میں مذہب کو بھی شامل کر لیتے ہیں کہ بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر۔ واقعہ یہ ہے کہ نظمِ اجتماعی انسان کا فطری مطالبہ ہے۔ مذہب کی مداخلت بس اتنی ہے کہ انسان کا اخلاقی وجود پامال نہ ہو۔ اس لیے وہ قانون دیتاہے لیکن کسی نظام پر اصرار نہیں کرتا۔ جب ہم جمہوریت کی اس بحث کو مذہب کے دائرے میں لاتے ہیں تو یہ تأثر دیتے ہیں کہ جیسے خلافت کوئی دینی اصطلاح ہے جو جمہوریت کے بالمقابل ہے۔خلافت کوئی دینی اصطلاح نہیں۔ نصوص میں اس کو دینی تصور کے طور پر بیان نہیں کیا گیا۔ رسالت مآبﷺ نے نظمِ اجتماعی کے لیے ’’الجماعۃ‘‘ کی ترکیب استعمال کی ہے اور ’’السلطان‘‘ کی بھی؟ یہ بھی محض تفہیمِ مدعا کے لیے۔ قرآنِ مجید نے سورہ نورمیںاہلِ ایمان (صحابہ کرام) سے اﷲ کے اس وعدے کا ذکر کیا ہے کہ وہ انہیں زمین میں خلافت دے گا۔ ظاہر ہے یہ بھی لغوی مفہوم میں ہے، اس سے مراد کسی خاص اصطلاح کا بیان نہیں۔ مولانا مودودی نے سورۂ نور کی اسی آیہ ء استخلاف کے حوالے سے لکھا ہے : ’’کسی شخص یا طبقے کو عام مومنین کے اختیارات ِ خلافت سلب کرکے انہیں اپنے اندر مرکوز کر لینے کا حق نہیں ہے ،نہ کوئی شخص یا طبقہ اپنے حق میں خدا کی خصوصی خلافت کا دعوٰی کر سکتا ہے۔یہی چیز اسلامی خلافت کو ملوکیت،طبقاتی حکومت اور مذہبی پیشواؤں کی حکومت سے الگ کر کے اُسے جمہوریت کے رخ پر موڑتی ہے‘‘۔(خلافت و ملوکیت ،صفحہ ۳۶)۔ انہوں نے مغربی جمہوریت کے ساتھ یہ فرق واضح کیا ہے کہ وہ عوامی حاکمیت کو تسلیم کرتی ہے جب کہ اسلام اﷲ کی حاکمیت کو۔ میں اس میں یہ اضافہ کرتا ہوں کہ جب پاکستانی ریاست نے 1973ء کے آئین میں قرآن و سنت کی بالا دستی کو قبول کر لیا تو یہ فرق بھی باقی نہیں رہا۔ اب جمہوریت وہی ہے جسے ہمارے بزرگ خلافت کہتے رہے ہیں۔بطور جملہ معترضہ مجھے یہاں یہ بھی کہنا ہے کہ مولانا مودودی کی کتاب’’خلافت و ملوکیت‘‘اس باب میںایک لاجواب تصنیف ہے۔افسوس کہ یہ کتاب ہمارے ہاں ایک افسوس ناک بحث کا عنوان بنی جو اس کا اصل مو ضوع نہیں تھا۔ یہ بھی محض ایک غلط فہمی ہے کہ اسلام میں سیاسی جماعتوں کی گنجائش نہیں ۔یہ تصور ہمارے ہاں ضیاء الحق مرحوم کے زیر ِاثر آیا جب انہوں نے غیر جماعتی انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے ایک انصاری کمیشن بنایاجس کی رپورٹ میں یہ تصور پیش کیا گیا۔ یہ بھی ایک بے بنیادبات ہے ۔سیاسی جماعتیں کیا ہیں؟ سیاسی امورمیں مختلف نقطہ ہائے نظر کی تنظیم۔یہ اختلاف رائے عہدِ صحابہؓ میں موجود تھا اور اس دور کے تمدنی تقاضوں کے مطابق منظم بھی ہوا۔صفین اور جمل کی جنگیں کیا تھیں ،اس اختلافِ رائے کا ظہور تھا۔سیدنا علیؓ کے عہدِ خلافت میں ایک نقطہ نظر یہ تھا کہ قاتلین عثمانؓ کو فی الفورسزا دی جائے۔ دوسری رائے یہ تھی کہ اس معاملے کو موخر کیا جائے۔ یہ اختلاف بڑھا تو گروہ منظم ہو گئے۔دونوں گروہوں کے دلائل اور موقف تاریخ کی کتابوں میں موجود ہیں۔ کسی نے دوسرے کو یہ نہیں کہا کہ وہ مختلف سیاسی موقف رکھنے کا حق نہیں رکھتا یا یہ کوئی غیر اسلامی فعل ہے۔سیاسی نقطہ ہائے نظر کی نئی تنظیم کا نام سیاسی جماعت ہے۔اس تصور میں کوئی بات غیر اسلامی نہیں۔یہ بات بھی بے بنیاد ہے کہ اسلام تبدیلی کا کوئی مختلف نظام پیش کرتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اسلام ایک صالح معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس کا ناگزیر نتیجہ ہے ایک صالح سیاسی نظام۔یہ ایک ارتقائی عمل ہے جسے ہمیں جاری رکھنا ہے جیسے یہ فرد کے باب میں تا دمِ مرگ جاری رہتا ہے۔اسلام فرد کی اصلاح چاہتا ہے یہاں تک کہ اس کا تزکیہ ہو جائے اور وہ اُخروی زندگی میں جنت کا مستحق ٹھہرے۔ معاشرتی اصلاح کا عمل مسلسل جاری رہتا ہے اور اس میں کوئی ٹھہراؤ نہیں ہوتا۔ بلا شبہ اسلام یہ چاہتا ہے کہ چور اور لٹیرے اقتدار تک نہ پہنچیںلیکن اگر سماج میں مطلوب لوگ موجود نہیں ہیں تو کیا اس وقت تک نظمِ اجتماعی کے قیام کو مؤخر رکھا جائے گا؟فقہ کی کتابوں میں درج ہے کہ امامِ مسجد کے اوصاف کیا ہونے چاہئیں۔ اگر ایسا امام مو جود نہ ہو تو کیا باجماعت نماز کوموخر کر دیا جائے گا؟ کون ذی ہوش اس کا جواب اثبات میں دے سکتا ہے؟ ہماری دینی روایت تو یہ ہے کہ نظمِ اجتماعی کا اہتمام ہر صورت میں کیا جائے گا۔ صحابہؓ کے لیے اس کی اتنی اہمیت تھی کہ جب رسالت مآبﷺ دنیا سے تشریف لے جا رہے تھے تو صدمے کی اس شدید کیفیت میں بھی انہوں نے یہ پسند نہیں کیا کہ مسلمان کسی نظمِ اجتماعی کے بغیر رہیں۔جب یہ کام مؤخر نہیں ہو سکتا تو پھر ہم اسے کیسے قائم رکھیںگے؟ ظاہر ہے سماج میں موجود افراد کی مدد سے۔ میں یہ بات بارہا عرض کر چکا کہ جو لوگ ریاست کی اصلاح کو سماجی اصلاح کی بنیاد سمجھتے ہیں، انہوں نے ترتیب کو الٹ دیا ہے۔سیاسی جدو جہد سے تبدیلی کا نظریہ ناکام ہو چکا۔ اصلاح کے لیے سماج مقدم ہے۔ اﷲ کا شکر ہے کہ میں برسوں سے صحرا میں جواذان دے رہا تھا ، اس کا جواب اب آنے لگا ہے اور اہلِ دانش اس کے قائل ہو رہے ہیں۔ آج ہم جو سیاسی نظام قائم کریں گے وہ سماجی حقائق ہی کا پرتو ہوگا۔ نظم اسلامی ہو یا سیکولر اس کا بنیادی مقصد یہی ہے۔ دیگر فرائض ثانوی ہیں۔ اس کے قیام کا کوئی طریقہ جمہوریت سے بہتر دریافت نہیں ہوسکا۔ اس وقت ملک میں انتخاب ہونے والے ہیں۔آج ہم اصلاحِ معاشرہ کاکوئی پروگرام نہیں دے رہے ہیں۔ ہمیں صرف یہ طے کرنا ہے کہ انتقالِ اقتدار کیسے ہو۔ اس کی کوئی صورت جمہوریت سے بہتر نہیں ہے۔ یہ لوگ انتخاب کریں گے کہ یہاں کون برسرِ اقتدار آئے گا اور کیسے؟ ہمارے جمہوری نظام میں نقائص ہیں۔ ہمارا انتخابی نظام بھی اصلاح طلب ہے۔سیاسی جماعتیں بھی مثالی نہیں ہیں۔ہمیں یہ سب کام کرنے ہیں لیکن اُس وقت تک ہم ریاست اور سیاسی نظام کی بساط نہیںلپیٹ سکتے۔ ہمیں آج فیصلہ کرنا ہے۔ اس موقعہ پر قوم اگر ابہام کا شکا ر ہو گی تو اس سے زیادہ کوئی بات نقصان دہ نہیں ہو سکتی۔