فرقہ واریت کیا ہے؟ تنوع کا انکار اور اپنے مؤقف پر غیر معمولی اصرار، یہاں تک کہ دوسرے نقطہ ہائے نظر رکھنے والوں کا وجود خطرے میں ڈال دیاجائے۔ جمہوریت کیا ہے؟ تنوع کا احترام اور اپنے مؤقف کو متانت وا ستدلال کے ساتھ پیش کرنا‘ یہاں تک کہ قبول کرلیا جائے یا مستردکردیا جائے۔مزید یہ کہ دوسروں کوبھی یہ حق دیا جائے۔ میرے جلیل القدر امام، امام شافعیؒ نے صدیوں پہلے بہت خوبی کے ساتھ اپنا طرزِ عمل بیان کر دیا: میں اپنی بات کو درست کہتا ہوں مگر اس میں غلطی کا امکان تسلیم کرتا ہوں۔ میں دوسروں کی بات کو غلط کہتا ہوں مگر اس میں صحت کا امکان تسلیم کرتا ہوں۔عصری لغت میں اسے جمہوریت کہتے ہیں۔میرے اکابر نے ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جس کی روح جمہوری تھی ۔ لیکن اس کا کیا علاج کہ آج جمہوریت کو فرقہ واریت کا سبب قرار دیا جا رہا ہے۔ کچھ لوگوں کے نزدیک ہر خرابی کا سبب جمہویت ہے جیسے بعض لوگ ہر برائی کی جڑ ضیاء ا لحق کو سمجھتے ہیں، قطع نظراس سے کہ برائی نے 5جولائی 1977ء سے پہلے جنم لیا ہویا بعد میں۔ میں بتکرار دو باتیں لکھتا رہا ہوں۔فرقہ واریت مذہبی نہیں، سماجی مسئلہ ہے۔ دوسرا یہ کہ اس ملک میں فرقہ واریت کو کم کرنے میں قومی سیاسی جماعتوں کا کردار سب سے مؤثر رہا ہے۔ میں دونوں باتوں کی وضاحت کیے دیتا ہوں۔ اختلاف انسان کی فطرت میں ہے۔ انسانوں کی کسی مجلس میں اگر اختلاف نہ ہو تو مفتی محمد شفیع مرحوم کے بقول اس کے دو ہی اسباب ہو سکتے ہیں۔شرکا اتنے غبی ہیں کہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں یا پھر اتنے مفاد پرست ہیں کہ دانستہ اختلاف سے گریز کرتے ہیں۔ انہوں نے لکھا: ’’جہاں عقل بھی ہو اور دیانت بھی، یہ ممکن نہیں کہ اُن (لوگوں) میں اختلافِ رائے نہ ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ اختلافِ رائے دیانت سے پیدا ہوتا ہے۔‘‘(وحدتِ امت) قرآنِ مجید نے ایک سے زیادہ مقامات پر بیان کیا ہے کہ یہ اﷲ تعالیٰ کی سکیم کے خلاف تھا کہ وہ سب کو ایک امت بنا دیتا۔ اس لیے اختلاف معیوب بات ہے نہ غیر فطری۔اختلاف اس وقت فرقہ واریت میں ڈھل جاتا ہے جب لوگ اﷲ تعالیٰ کی اس سکیم کے بر خلاف کھڑے ہو کر اپنے برحق ہونے کا اعلان کرتے اور دوسروں کو گمراہ شمار کرتے ہیں۔ سورۃ نحل کی جس آیت میںاﷲ تعالیٰ نے اپنی اس مشیت کو بیان کیاہے، اُس کی تفسیر میں مولانا مودودی نے لکھا: ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی اپنے آپ کو اﷲ کا طرف دار سمجھ کر بھلے اور برے ہر طریقے سے اپنے مذہب کو( جسے وہ خدائی مذہب سمجھ رہا ہے) فروغ دینے اور دوسرے مذاہب کو مٹا دینے کی کوشش کرتا ہے، تو اس کی یہ حرکت سراسر اﷲ تعالیٰ کے منشا کے خلاف ہے۔ کیونکہ اگر اﷲ کا منشا واقعی یہ ہوتا کہ انسان سے مذہبی اختلاف کااختیار چھین لیا جائے اور چار و ناچار سارے انسانوں کو ایک ہی مذہب کا پیرو بنا کر چھوڑا جائے تو اس کے لیے اﷲ کو اپنے نام نہاد’’طرف داروں‘‘ کی اور ان کے ذلیل ہتھکنڈوں سے مدد لینے کی کوئی حاجت نہ تھی۔یہ کام تو وہ خود اپنی تخلیقی طاقت سے کر سکتا تھا۔ وہ سب کو مومن و فرماںبردار پیدا کر دیتا اور کفر و معصیت کی طاقت چھین لیتا۔ پھر کس کی مجال تھی کہ ایمان و طاعت کی راہ سے بال برابر بھی جنبش کر سکتا؟‘‘(تفہیم ا لقرآن جلد دوم:صفحہ:568) ’’اللہ کے نام نہاد طرف داروں ‘‘کارویہ ہی فرقہ واریت کو جنم دیتا ہے۔ اس کا سدِباب ایک ایسا سماجی ماحول ہے جس میں کوئی اپنی بات کو بالجبر لوگوں پر نافذ نہ کرے۔ وہ اپنی بات کہے اور اس کے رَد و قبولیت کا فیصلہ لوگوں پر چھوڑ دے۔ وہ دوسروں کے لیے بھی یہی حق تسلیم کرے۔یہ صرف ایک جمہوری معاشرے ہی میں ممکن ہے۔اگر سماج میں اس رویے کو تقویت ملے تو اس بات کا امکان ختم ہو جاتا ہے کہ کوئی اپنی رائے کوطاقت کے ذریعے دوسروں پر مسلّط کرے۔ اختلافِ رائے اگر فرقہ واریت میں ڈھلتا ہے تو اس کا سبب مذہب یا اس کی تعبیر کا اختلاف نہیں، انسانی رویہ ہے۔اختلاف سے ہماری تاریخ کا کوئی حصہ خالی نہیں۔ اس کا آغاز تو رسالت مآبﷺ کے دنیا سے رخصت فرماتے ہی ہو گیا تھا۔تاہم اُس وقت لوگ فرقے نہیں بناتے تھے۔ ہمارے ماضیِ بعید اور حال میں اگر فرق ہے تو اس کا سبب رویہ ہے۔ماضی میں لوگ اختلاف کو برداشت کرتے اور دوسروں کا احترام کرتے تھے۔آج لوگ مختلف رائے رکھنے والوں کو نہ صرف یہ کہ اختلاف کا حق نہیں دیتے بلکہ اس ’’جرم‘‘ میں مار دینا چاہتے ہیں۔اس کا علاج یہ نہیں کہ اختلاف ختم ہو جائے۔ اس سے نجات کی صرف ایک صورت ہے اوروہ ہے جمہوری رویے کا فروغ۔ یہی ہمارے اسلاف کی تعلیم ہے۔امام شافعیؒ کا ذکر میں کرچکا۔ امام مالکؒ کا معاملہ بھی یہی تھا۔ منصور نے جب چاہا کہ ان کی کتاب ’’موطا‘‘ کو ریاست کا دستور بنا دیا جائے تو انہوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ لوگوں کو ان کی مرضی پر چھوڑ دیا جائے۔ اب آئیے سیاسی جماعتوں کی طرف۔ ان جماعتوں کی یہ قومی خدمت ہے کہ انہوں نے پاکستان کے تمام شہریوں کو فرقہ و مسلک سے بے نیاز کرکے ایک فورم پر جمع کیا۔ پیپلز پارٹی1970 ء کے بعد پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تھی۔آج کتنے لوگوں کو یہ معلوم ہے کہ بھٹو صاحب کا مسلک کیا تھا؟ آج نون لیگ ملک کی سب سے بڑی جماعتوں میں سے ہے۔اسی طرح عمران خان کا شمار بھی مقبول ترین سیاسی رہنماؤں میں ہوتا ہے۔کتنے لوگوں کو اس سے دلچسپی ہے کہ نواز شریف یا عمران خان کا مسلک کیا ہے۔ان جماعتوں میں شیعہ سنی، دیوبندی بریلوی سب جمع ہیں۔ مذہبی سیاسی جماعتوں کا معاملہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے اپنے مفادات کے لیے مسلکی بنیادوں پر عوام کو جمع کیا۔ لیکن وہ جب ان سے بلند تر ہوئے تو انہوں نے مجلسِ عمل بنا لی اور ملی یک جہتی کونسل بھی۔ اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہے کہ جمہوریت کی وجہ سے وہ اختلافات سے بالا تر ہوئے۔ مجلسِ عمل کی سیاسی حکمتِ عملی متنازع رہی ہے لیکن اس میں شبہ نہیں کہ اُس نے قوم کو شیعہ سنی اختلاف سے اوپر اُٹھا دیا تھا۔ آج مذہبی جماعتیں اگر اپنے ہی مفادات کے لیے ایک دوسرے پر تنقید کر رہی ہیںتو اس میں جمہوریت کا کوئی قصور نہیں۔یہ اختلاف عدم برداشت کے سبب سے ہے، جمہوریت کی وجہ سے نہیں۔ڈاکٹر فضل الرحمٰن کو اگر ملک چھوڑنا پڑا تو کیااس کی وجہ جمہوریت تھی؟ مولانا مودودی کے خلاف ایک دور میں محاذ گرم تھا تو کیااس کا سبب جمہوریت تھی؟ مکرر عرض ہے کہ یہ سماجی رویہ ہے۔اس کا سبب عدم برداشت ہے۔ اس کا علاج برداشت اور تنوع کا احترام ہے اور یہ صرف ایک جمہوری سماج میں ممکن ہے۔ہم اگر پاکستان میں فرقہ واریت سے نجات چاہتے ہیں تو اس کی واحد صورت جمہوری سماج کا فروغ ہے۔اس سے لوگ تنوع کے حُسن کو پہچان سکیں گے۔اسی طرح جب قومی سیاسی جماعتیں مضبوط ہوں گی تو فرقہ واریت خود بخود غیر مؤثر ہو جائے گی ۔اس کے بعد شاید لوگوں کو یقین آجائے کہ فرقہ واریت جمہوریت کی نہیں، غیر جمہوری رویے کی دین ہے۔