تحریک انصاف پاکستان کے لیے اثاثہ ثابت ہو سکتی ہے۔یہ توقع لیکن چند اصلاحات کے ساتھ مشروط ہے۔ 1:-تحریک کے وابستگان میں بے پناہ تحرک ہے ۔یہ غیر معمولی توانائی آج کسی متعین منزل کا شعور نہیں رکھتی ۔اُسے معلوم نہیں کہ انتخابی نتائج کے بعد اس کا رخ کس جانب ہونا چاہیے۔اہلِ تحریک کو کسی نے نہیں بتایا کہ نالے کو پر سوز بنانے کے لیے اُسے ایک خاص وقت تک جگر میں تھامنا پڑتا ہے۔ایک ہنگامے کا مزاج ہے۔ انتخابی فضامیں تو اسے گوارا کیا جا سکتا ہے لیکن بعد از انتخابات ،سماج کو ٹھہراؤ کی ضرورت ہوتی ہے۔تحریکِ انصاف کی توانائی اب پاکستان کے استحکام کے لیے خرچ ہونی چاہیے۔چونکہ ان نوجوانوں کو یہ سمجھانے والا کوئی نہیں ،اس لیے ان کے جوش نے اب دھرنوں کا روپ دھار لیا ہے۔مجھے خدشہ ہے کہ بے وقت کی یہ راگنی قوم کے لیے سمع خراشی کا باعث بنے گی۔یہ پاکستان اور تحریک دونوں کے لیے نیک شگون نہیں۔اس لیے، آج تحریک انصاف کی پہلی ضرورت یہ ہے کہ اس کی قیادت اپنی جماعت کو ایک تفصیلی پروگرام دے اور نوجوانوں کے لیے ایک لائحہ عمل متعین کرے۔ 2:-تحریک انصاف کے طرز عمل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں سماجی شعور کی بہت کمی ہے۔انہوں نے خود کو ایک ثقافتی یا مذہبی اقلیت کے اصول پر منظم کر لیا ہے۔اس کے کارکنان میں دوسری جماعت کے کارکنوں اور اس کے حامیوں سے گھلنے ملنے کی صلاحیت کا فقدان ہے۔سوشل میڈیا سے لے کر عام سماجی سطح تک، وہ معاشرے کے دوسرے طبقات سے الگ تھلگ معلوم ہوتے ہیں۔انہیں یہ اندازہ ہونا چاہیے کہ انتخابی امیدواروں کے چناؤ میں عمران خان نے اس نفسیات سے نکل کے فیصلے کیے جس کے نتیجے میں تحریک انصاف بہت سی نشستیں لینے میں کامیاب رہی۔ورنہ تحریک کے لوگ جانتے ہیں کہ عائلہ ملک اور غلام سرور خان کا ’’تحریکی مزاج‘‘ سے کتنا تعلق ہے۔اس لیے تحریک انصاف کے نوجوانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود اچھوت بنیں نہ دوسروں کو ایسا سمجھیں۔انہیں سماجی اختلاط کے آداب سیکھنا ہوں گے۔ 3:-تحریک انصاف کو تبدیلی کے ایک مثبت پروگرام کی اشد ضرورت ہے۔یہ کام کسی وژن کے بغیر ممکن نہیں۔انتخابی منشور اور سیاسی پروگرام دو مختلف عنوانات ہیں۔انتخابات سے پہلے تحریک انصاف نے اپنی کئی پالیسیوں کا اعلان کیا تھا۔یہ قابلِ قدر کام ہے اور اس کی اہمیت مسلمہ ہے۔تاہم جماعت کا پروگرام چیزے دیگر ہے۔اس کا انحصارنظریاتی شناخت پر ہے۔عمران خان کی کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود بھی اس باب میں واضح نہیں ہیں۔ایک صوفی کی صحبت سے وہ جس طرح زندگی کے حقائق کشید کرتے ہیں، وہ اگر ان کا شخصی معاملہ رہے تو کسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا،لیکن اجتماعی تبدیلی کی خواہش ایک مختلف استدلال یا یوں کہیے ایک جدید علم کلام کا تقاضا کرتی ہے۔عمران خان ،علامہ اقبال سے تعلقِ خاطر کا اظہار کرتے ہیں اور ان سے استفادہ بھی کرتے ہیں۔ انہیں شاید اندازہ ہو کہ صوفیانہ مزاج رکھنے کے باوجود علامہ اقبال نے مسلمانانِ ہند اور امت مسلمہ کو درپیش مسائل کا خالصتاًعقلی اور فکری جائزہ لیا ہے۔یہ خطبہ الہ آباد سے واضح ہے اوران کے دوسرے خطبات سے بھی جو ’تشکیل جدید الہیات اسلامیہ‘ (Reconstruction of Religious Thought in Islam)کے عنوان سے مدون ہیں۔یہ بات صرف علامہ اقبال ہی کے ساتھ خاص نہیں ،جس نے بھی اجتماعی اصلاح کا کوئی سنجیدہ کام کیا، وہ غور و فکر کے ایک مرحلے سے گزرا اور اس نے ایک نظری پیرہن اختیار کیا۔ اشتراکی تحریک نے یہ کام کیا۔ بر صغیر میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے تحریک اُٹھائی تو وہ اس مرحلے سے گزرے۔ میں جانتا ہوں کہ تحریکِ انصاف ہمہ گیراصلاح کی کوئی تحریک نہیں، محض ایک سیاسی جماعت ہے، لیکن ایک سطح پر سیاسی جماعت کو بھی اس مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔نظری پیرہن سے مرادوژن ہے۔اِس باب میں تحریکِ انصاف کا موازنہ پیپلز پارٹی سے کیا جا سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی نے بھی بعض بنیادی فکری کام کیا۔ جماعت کی بنیادی دستاویزات آج بھی موجود ہیں۔ اس پر مستزاد بھٹو صاحب کی کتابیں، جن میں ’’ آزادی کا واہمہ‘‘(Myth of Independence) اہم تر ہے۔ حنیف رامے جیسے لوگوں نے’’اسلامی سوشلزم‘‘ کا مقدمہ فکری سطح پر لڑا۔اس کے لیے ماہنامہ ’’نصرت‘‘ کی فائلیں دیکھی جائیں تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ایک سیاسی تحریک کو بھی بعض ناگزیر فکری مراحل سے گذرنا پڑتا ہے۔تحریکِ انصاف اس مرحلے سے نہیں گزری۔ قدرت نے اسے تیاری کے لیے چند سال مزید دیے ہیں۔ اسے ان سے فائدہ اُٹھانا چاہیے۔ 4:- تحریکِ انصاف کی مقبولیت کے اسباب ایجابی سے زیادہ سلبی ہیں۔۔ اہلِ سیاست کی مسلسل ناکامیاں اور ان سے مایوسی نے تحریکِ انصاف کے لیے جگہ پیدا کی۔ ایسی مقبولیت دیر پا نہیں ہوتی اگر اسے مضبوط فکری اور تنظیمی بنیادیں میسر نہ ہوں۔ اس مقبولیت کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ فکری اساسات کی تعمیر کے ساتھ تنظیمی اور تربیتی پروگرام بھی ترتیب دیا جائے۔ بصورتِ دیگر یہ ہجوم کسی وقت بھی چھٹ سکتا ہے۔دوسروں کی خامیاں آپ کے وجود کے لیے جواز تو پیدا کر سکتی ہیں، ثبات نہیں۔ 5:- عمران خان کو شخصی حوالے سے بھی کچھ ارتقائی مراحل طے کرنا ہوں گے۔ جمہوریت ون مین شو نہیںہوتا۔ جمہوریت یہ سکھاتی ہے کہ آرا کے تنوع میںکس طرح خوب سے خوب تر کو تلاش کیا جاتا ہے۔ انہیں پارلیمنٹ میں جانا ہے تو کبھی نواز شریف صاحب سے اتفاق ہو سکتا ہے اور کبھی مولانا فضل الرحمٰن سے۔ سیاسی اختلاف دشمنی نہیں ہوتا۔ جو بات مذموم ہے وہ دنیاوی مفادات کے تعاقب میں سیاسی حدود کو پامال کرنا ہے۔ انسانوں کے معاشرے میں فرشتوں کی طرح زندگی نہیں گزاری جا سکتی۔ سیاسی افق پر تحریکِ انصاف کا ایک حقیقت کے طور پر اُبھرنا پاکستان کے لیے ایک نیک شگون ہے۔ یہ ملک و قوم کے لیے ایک اثاثہ ثابت ہو سکتی ہے۔ انتخابات نے اس کے سیاسی وجود کو ثابت کر دیا ہے۔ یہ ایک اہم پیش قدمی ہے۔اگلے انتخابات تک اسے جو وقت میسر ہے ، اس میں امید کا پہلو غالب رہے گا۔ اب وہ زیادہ اعتماد کے ساتھ آگے بڑھے گی۔ تاہم اس کے لیے صبر ناگزیر ہے۔ اُس کا نالہ ابھی خام ہے۔ اسے جگر میں مزید تھامنے کی ضرورت ہے۔ میں نہیں جانتا تحریکِ انصاف کی قیادت کو اس کا کس حد تک شعور ہے۔یہ شعور پیدا کرنے کے لیے اسے ایک دانش سرا کی ضرورت ہے۔ مانگے تانگے کی دانش سے تحریکِ انصاف کا گھر روشن نہیں ہو سکتا۔اسے دانش کے معاملے میں بھی خود کفیل ہونا ہوگا۔ علامہ اقبال کے فلسفۂ خودی پر عمل کایہیں سے آغاز کرنا ہوگا ۔ عمران خان کو اقبال سے دلچسپی ہے۔ انہیں فرصت ملے تو ’’بالِ جبریل‘‘ میں پروانے اور جگنو کا مکالمہ ضرور پڑھ لیں۔ ہو سکے تو تحریکِ انصاف کی قیادت بھی اس کا مطالعہ کرے۔ ان کی آسانی کے لیے میں اسے یہاں نقل کر رہا ہوں۔ پروانہ: پروانے کی منزل سے بہت دور ہے جگنو کیوں آتشِ بے سوز پہ مغرور ہے جگنو جگنو: اللہ کا سو شکر کہ پروانہ نہیں میں دریوزہ گرِ آتشِ بیگانہ نہیں میں