جماعت اسلامی اور تحریکِ انصاف میں تعاون کا نیا باب کھلا ہے۔ بظاہر تو یہ خیبر پختون خوا میں حکومت سازی کے لیے ہے لیکن اپنے اندر امکانات کی ایک وسیع دنیا لیے ہوئے ہے۔اگر دونوں جماعتوں میں قیادت کے منصب پر فائز لوگ اس کا ادراک کرسکیں تو یہ اس تبدیلی کا سب سے بڑا مظہر بن سکتی ہے جس کی صدائے بازگشت بار بار کانوں میں پڑتی ہے لیکن کہیں مجسم ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ جماعت اسلامی نے تحریک سے سیاسی جماعت بننا چاہا لیکن بن نہیں سکی۔2013ء کے انتخابی نتائج کے با وصف اگر کوئی مزید شہادت طلب کرے تو اسے سیاسیات کے باب میں معذور سمجھنا چاہیے۔ تاہم اس کا یہ مفہوم قطعی نہیں کہ جماعت نے سیاست، سماج یا افکار کو متأثر نہیں کیا۔اس کے اثرات بچشمِ سر دیکھے جا سکتے ہیں۔ بایں ہمہ سیاسی ناکامیوں نے اس پر جو اثرات مرتب کیے، وہ بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ میرے نزدیک تو مسلسل ہزیمت نے اس کے خدوخال کو بدل ڈالاہے۔اس ضمن میں دو اثرات ایسے ہیں جو جماعت ہی کے لیے نہیں ، اس سماج کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہوئے۔ایک تو یہ کہ انتخابی اور جمہوری عمل میں قابلِ ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرنے کے سبب جماعت کی نئی نسل جمہوریت سے زیادہ جہاد کی طرف مائل ہو گئی۔اس نے یہ خیال کیا کہ پاکستان میں جمہوری راستے سے وہ اسلامی انقلاب کبھی نہیں آسکتا، وہ جس کا خواب دیکھتی ہے۔افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جماعت اسلامی فکری اور عملی طور پر جس طرح متحرک رہی،اس نے جماعت کا نظری ڈھانچہ غیر محسوس طریقے سے تبدیل کر دیا۔ اب فکر اور لائحہ عمل کے ایک پہلو سے، وہ انتہا پسند مذہبی گروہوں سے زیادہ فاصلے پر نہیں کھڑی۔ جمہوری عمل پر اعتماد کرتے ہوئے اُس نے جو حکمتِ عملی اپنائی،اس نے جماعت کو تجدیدو احیائے دین کی تحریک سے روایتی مذہبی جماعت کے مقام پر لا کھڑا کیا۔محترم قاضی حسین احمد مر حوم کے دورِ امارت میں،میں نے جب لکھا کہ جماعت اسلامی دراصل جمعیت علمائے اسلام کا قاضی گروپ ہے تو یہ کوئی مبالغہ نہیں، محض امرِ واقعہ کا بیان تھا۔مو لاناسید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی قیادت میں جب یہ تحریک برپا ہوئی تو یہ روایتی مذہبی فکر پر عدم اطمینان کا اظہار تھا۔ ابتدا میں اس کی حیثیت وہی تھی جو مسیحیت کی تاریخ میں پروٹسٹنٹ تحریک کی ہے۔ اس کا ناگزیر نتیجہ تھا کہ مولانا مودودیؒ کے خلاف منبر و محراب کا ردِ عمل وہی ہوتا جو مارٹن لوتھر کے خلاف روایتی کلیسا کا تھا۔ سیاسی کامیابی کے لیے ایک مرحلے پرجماعت کی قیادت کو یہ خیال سوجھا کہ ہمیں روایتی اہلِ مذہب کے ساتھ مل جانا چاہیے اور اس باب میں اگر مولانا مودودیؒ کے منفرد مذہبی افکار سے اعلانِ لاتعلقی کرنا پڑے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔اس حوالے سے محترم قاضی حسین احمد کی مساعی کی داستان مولانا زاہدالراشدی بیان کر چکے۔ متحدہ مجلسِ عمل اس اندازِ فکر کاایک مظہر تھی۔ گویا جماعت اسلامی نے جمہوریت پر اعتماد کیا تو تجدیدو احیائے دین کی تحریک ختم ہوگئی۔جمہوریت سے مایوسی کا رویہ غالب آیا تو انتہا پسندی نے جماعت میں راستے بنا لیے۔یہ دونوں صورتیں جماعت کے لیے تباہ کن ثابت ہوئیں لیکن اس کے ساتھ پاکستان بھی خیر کی ایک قوت سے محروم ہو گیا۔ جمہوریت اور فکرِاسلامی کی تشکیلِ جدید ۔۔دورِ حاضر میں ایک مسلمان سماج کی کامیابی کے یہی دو ستون ہیں۔مصر، تونس اور ترکی میںانہی ستونوں پر عظیم الشان عمارتیں کھڑی ہوگئی ہیں۔ پاکستان اس کا کہیں زیادہ مستحق تھا کہ سب سے پہلے جدید مسلم ریاست کا قصرِ عالی شان یہاں تعمیر ہوتا۔ تحریک ِ انصاف کا معا ملہ یہ رہا کہ عمران خان کی کرشماتی شخصیت،غیر معمولی محنت اور اہلِ سیاست کی مسلسل ناکامیوں نے اسے ایک مقبول جماعت تو بنادیالیکن اسے یہ معلوم نہیں ہو سکاکہ مقبولیت کی اس توانائی کامصرف کیا ہے۔آج وہ ایک مسلمہ سیاسی جماعت ہے۔ایک صوبے میں وہ اقتدار کی دہلیز پر قدم رکھ چکی اور دوسرے میں حزبِ اختلاف ہے۔اس کے باوصف اُس کا وژن واضح ہے نہ لائحۂ عمل۔متضاد رجحانات کے لوگ جمع ہیں جن میں دو باتیں مشترک ہیں:عمران خان کی محبت اور حاضرو مو جود سے بے زاری۔میرا خیال ہے کہ ایک سیاسی سفر کے لیے یہ زادِ راہ کافی نہیں۔میں گزشتہ کالم میں اِس پر تفصیلی اظہارِ خیال کر چکا۔یہاں مجھے صرف یہ کہنا ہے کہ تحریکِ انصاف کے پاس توانائی اور مقبولیت مو جود ہے لیکن کوئی فکر، پروگرام اور لائحۂ عمل نہیں۔ جماعت اسلامی اور تحریکِ انصاف کی خو بیوں اور خامیوں کو اگر جمع کیا جا ئے تو مجھے خیال ہوتا ہے کہ ایک کی خوبیاں دوسرے کی خامیوں کا مداوا بن سکتی ہیں۔ان دونوں کے اشتراک سے پاکستان میں ایک ایسی سیاسی قوت کے منظم ہو نے کا امکان ہے جو مصر اور ترکی میں ابھرنے والی جدید اسلامی تحریکوں کی مثل ہو۔جماعت اسلامی اگرروایتی مذہبیت سے کنارہ کش ہو کر ایک بار پھر تجدیدو احیائے دین کی ایک فکری تحریک بن سکے تو اس کا فکری و تربیتی نظام تحریک ِ انصاف کے اُن وابستگان کے لیے تربیت گاہ بن سکتا ہے جو ایک ایسی تبدیلی کے خواہاں ہیں جو یہاں کی مذہبی و تہذیبی روایات سے ہم آہنگ ہو۔جماعت کی یہ خوبی تحریکِ انصاف کی فکری و تربیتی کمزوری کا مداوا بن سکتی ہے۔ جماعت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ برسوں کی محنت کے باوصف عوامی تائید کا دائرہ وسیع نہیں کر سکی اور بظاہر اس کا کوئی امکان بھی نہیں۔ اگر جماعت سیاسی تبدیلی کا کام تحریکِ انصاف کو سونپ دے تو وہ اس کی کمزوری کا علاج ہوگی۔میں اگر اس تجویز کو سمیٹوں تو جماعت اسلامی ایک فکری و تنظیمی تربیت گاہ بن جائے اور تحریکِ انصاف ایک سیاسی فورم۔ جماعت اسلامی میں جو لوگ سیاسی رجحانات رکھتے ہیں وہ تحریکِ انصاف میں شامل ہو جائیں۔ تحریکِ انصاف کی تنظیمی اور سیاسی قیادت کے لیے لازم ہو کہ وہ جماعت کے تربیتی پروگرام سے گزرے۔عملاً یہ کیسے ہوگا،میں تفصیل بتا سکتا ہوں لیکن یہ اس کا محل نہیں۔مجھے یہاں صرف یہ تصور پیش کر نا ہے کہ جماعت اسلامی اور تحریکِ انصاف میں ایک مستقل تعلق کیسے قائم ہو۔ میں جانتا ہوں یہ ایک مشکل کام ہے۔اس کے لیے دونوںکواپنی ہیئت کذائی کو بدلنا ہوگا اور یہ جماعتوں کے لیے آسان نہیں ہو تا۔ تاہم کسی بڑی تبدیلی کے لیے یہ ناگزیر ہے۔ جماعت اسلامی 1970ء سے 2013ء تک کے سیاسی سفرمیں جس ترقیِٔ معکوس سے گزری ہے،اُس کے بعد حکمت ِ عملی پر نظر ثانی لازم ہے۔اُس کا فکری و سیاسی تشخص تحلیل ہو چکا۔دل کے بہلانے کو بہت سے خیال پیش کیے جا سکتے ہیں۔امرِ واقعہ یہ ہے کہ اسلام سے محبت اس خطے کے مسلمانوں میں پہلے سے موجود تھی۔اقبالؒ اور قائد اعظمؒ نے جماعت اسلامی کا لٹریچر پڑھ کر جدیدمسلم ریاست کے لیے جدو جہد کا آغاز نہیں کیا تھا۔اگر مسلمانانِ ہند نے ان کا ساتھ دیا تو یہ آرزو ان کے نہاں خانۂ دل میں پہلے سے مو جود تھی۔آج بھی اگر ستانوے فی صد مسلمانوں کے ملک میں لوگ اپنے دین سے محبت کرتے ہیں تو یہ فطری ہے۔جماعت اسلامی نے البتہ اسلام کا جو سیاسی و اجتماعی شعور اجاگر کیا،اس کے اثرات پھیلے ہیں اور یہ اسی کا حصہ ہے۔ تاہم اس کے ساتھ یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اب مذہب کسی سیاسی جدو جہد کا عنوان نہیں بن سکتا۔غیر معمولی مسلم اکثریتی ملک میںیہ کوئی مسئلہ نہیں۔ اگر ماضی میں یہ کسی حد تک تھا بھی تو 1973ء کے آئین کے بعد ختم ہو چکا۔اس لیے مستقبل کے سیاسی منظر نامے میں جماعت اسلامی کے لیے بطور سیاسی جماعت کوئی جگہ نہیں۔تحریکِ انصاف کو بھی یہ بات پیش ِ نظر رکھنا ہوگی کہ ن لیگ اب وہ نہیں ہوگی جو انتخابی مہم میں اس کا ہدف تھی۔میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ مسلم لیگ میں ترکی کی جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی(AKP)بننے کی بنیادی صلاحیت مو جود ہے۔اس لیے مضبوط فکری و تنظیمی اساسات کے بغیر اپنا وجود قائم رکھناتحریکِ انصاف کے لیے بھی مشکل ہوگا۔ہجوم کوبالآخر منتشر ہو نا ہے۔ آج ضرورت ہے کہ جماعت اسلامی اور تحریکِ انصاف محض ایک صوبے میں حکومت سازی تک اپنے تعاون کو محدود نہ رکھیں۔دونوں کی خوبیاں اگر مل جائیں تو پانچ سال بعد ہماری سیاست کے خدو خال یکسربدل سکتے ہیں۔جماعت اسلامی مو لانا فضل الرحمٰن کے سائے سے کسی حد تک باہرآئی ہے۔اللہ کرے یہ فاصلہ اتنا بڑھے کہ اس کا نظری تشخص نمایاں ہو جائے اور جماعت ’مذہبی جماعتوں کے اتحاد ‘ کے سراب سے نکل آئے۔ ؎ تری دعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری مری دعا ہے تری آرزو بدل جائے