اسلامی حکومت کی ایک ذمہ داری امربالمعروف اور نہی عن المنکر بھی ہے۔میں اگر عصری لغت میں اسے بیان کروں تو یہ سماج کی اخلاقی تعمیر ہے۔فرد ہو یا سماج،مضبوط اخلاقی بنیادیں ہی ان کے وجود کو ثبات دیتی ہیں۔ اسلامی حکومت تو خیر ایک آئیڈیل ہے، یہ امت صدیوں سے جس کی تلاش میں ہے۔ہمیں تو حقائق کا سامنا ہے۔ہمارے لیے یہی غنیمت ہو گا اگر ہمیںایک اچھی حکومت میسر آجائے۔ یہ ’’مالِ غنیمت‘‘ بھی شاید ہاتھ نہ آ سکے اگر سماج کی اخلاقی تعمیر کو امورِ حکومت میں شامل نہ کیا گیا۔ سماج کی معاشرتی تعمیر ،اگرچہ ریاست سے ماورا ایک تربیتی نظام کی متقاضی ہے، جس کی جڑیں سماجی روایت اوربُنت میں ہوتی ہیں۔تاہم، حکومت چونکہ سماج کا ایک حصہ ہے، اس لیے حکومت کو بھی اس کارِ خیر میں حصہ ڈالنا ہے۔ان دنوںکابینہ کی تشکیل کا تذکرہ ہے ، اس لیے میرا دھیان اس موضوع کی طرف گیا ہے۔ہر وزارت کی بات ہورہی ہے لیکن سماجی تعمیر کی نہیں۔جدید ریاست نے’’سوشل ڈیویلپمنٹ‘‘ کی اصطلاح متعارف کرائی ہے اور ا س کاذکربھی ہوتا ہے لیکن میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی بات کر رہاہوں جو اس سے مختلف ایک تصورہے۔ وہ معروف جو سماج سے پھوٹتا ہے اور وہ نہی ، جس سے انسانی فطرت اِبا کرتی ہے۔ آج ہمارے بہت سے مسائل کا تعلق سماج سے ہے، حکومت و ریاست سے نہیں۔تھانہ کچہری میں عوام کا ہجوم کم ہو سکتا ہے۔ مساجد آباد ہو سکتی ہیں۔ گلیاں بازار صاف ہو سکتے ہیں اگر ہم اپنے اخلاقی وجود کی تعمیر کرلیں۔قتل جیسے سنگین جرم کے بنیادی محرکات سماجی ہیں۔جب سماج صبر، رواداری، ایثار ، حکمت اور سب سے بڑھ کر خوفِ خداسے خالی ہو جاتا ہے تو پھر انسانی جان، مال اور آبرو کی حرمت قائم نہیں رہتی۔بچوں کے کھیل پر معرکہ برپا ہوتا اورپھر انسانی جان بچوں کا کھیل بن جاتی ہے۔میاں بیوی میں جھگڑا ہوتا اور نوبت قتل تک جا پہنچتی ہے۔ اگر سماج کی اخلاقی بنیادیں مستحکم ہوں تو ان واقعات کی روک تھام ہو سکتی ہے۔ تھانہ کچہری کا ہجوم کم ہو سکتا ہے۔ صفائی مثال کے طور پر مسلمان سماج کی ایک قدر ہے۔ اﷲ کے رسولﷺ نے اسے دین کا حصہ بنا دیا۔نظافت پر اس سے زیادہ اصرار ممکن نہیں تھا۔ صفائی کا تعلق محض بلدیہ کے نظام سے نہیں ہے۔ یہ لوگوں کے مزاج میں ہوتی ہے۔ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں لیکن عوامی مزاج میں ثبات ہوتا ہے۔جناب ہارون الرشید ابھی ایران سے ہوکر آئے ہیں۔ اوریا مقبول جان صاحب نے وہاں کی گرمی سردی دیکھی ہے۔ ان سے پوچھیے اور اگر مقدور ہو تو مختار مسعود سے۔ ایران میں صفائی کا معیارایک شہنشاہ کے دور میں بھی وہی تھا جو ایک درویش کے عہد میں ہے۔ایران میں فی الواقع انقلاب آیا جس نے زمین و آسمان کو بدل دیا لیکن سماجی روایات؟ شہنشاہیت ہو یا پاپائیت، اہلِ ایران کے مزاج میں صفائی ایک جیسی ہے۔ وہاں کے گلی بازار ناطق ہیں کہ یہاں ایرانی بستے ہیں۔ ہماری مساجدکیوں ویران ہوئیں؟ یہاں کیوں پہرے لگے ہیں؟ وہ مائیں جو بچوں کو ڈانٹ کر مسجد بھیجتی تھیں،آج کیوں گھر نماز پڑھنے کی ترغیب دینے لگی ہیں؟ ہم جانتے ہیں یہ اس تعلیم کی دَین ہے جسے ہم دینی کہتے ہیں اور جس کے مراکز مدارس ہیں۔ اگر یہ تعلیمی نظام سلامتی کے اس پیغام پر مبنی ہو جائے جس کے لیے انسان کو دِین کی ضرورت ہے تو اﷲ کے گھروں کوکسی پہرے کی حاجت نہ رہے۔ پھر کسی کو جان کا خوف نہ ہو۔ یہ کام تب ہی ممکن ہے جب دینی تعلیم کی روایت کو بدلا جائے۔اس کے لیے ترغیب اور دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ کام حکومتی احکام سے نہیں ہو گا۔جب اہلِ مدرسہ قائل ہو جائیں گے تو اصلاح ہو جائے گی۔تبدیلی کے لیے طاقت کے دو متبادل ہیں۔ایک دلیل جس سے خیالات بدلتے ہیں اور پھر لائحہ عمل۔دوسرا سماجی جبر۔اگر کوئی نقطۂ نظر شعوری تحریک کے نتیجے میں سماجی طورپر متروک ہو جائے تو پھر زندہ نہیں رہ سکتا۔دینی تعلیم کی اصلاح کے لیے ان ہی ذرائع کوبروئے کار آناچاہیے۔ سماجی اصلاح کے لیے ترغیب و دعوت اور ریاستی قوت کے استعمال میں بھی فرق کر نا چاہیے۔سماج خود اصلاح کی طرف مائل نہ ہو توریاستی جبر نتیجہ خیز نہیں ہوتا۔جنرل ضیاء الحق صاحب یہ تجربہ کر چکے۔ایک بازارِ حسن کو بند کیا تو ان گنت بازار ہائے حسن آباد ہوگئے۔نمازکی پابندی قانون سے کرانا چاہی اور احترامِ رمضان کا آرڈیننس جاری ہوگیا۔میں اس باب میں حکومت کے کردار کی نفی نہیں کر رہا، صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ روایات کو محض قانون سے مضبوط نہیں کیا جا سکتا۔اس کے لیے سماج کی آ مادگی ضروری ہے اور یہ کام دعوت و تبلیغ اوردلیل و ترغیب سے ہی ہو سکتا ہے۔آج حکو مت کاایک کام یہ ہونا چاہیے کہ سماجی تبدیلی کے اس عمل کو ایک مربوط صورت دے دے۔ سماجی رویوں کی اصلاح کیسے ممکن ہے؟انتھروپالوجی کے ماہرین نے اس پر بہت کچھ لکھا ہے۔اس سے استفادہ کرنے میں البتہ ایک مانع ہے۔سماجی علوم مغرب میں پروان چڑھے ہیں۔ وہ جب سماج یا انسان کی بات کرتے ہیں تو اُن کے پیش نظر مغرب کا سماج اور مغربی فکر کے تحت جنم لینے والا تصورِ انسان ہوتا ہے۔ جب ہم اس علم کا اطلاق اپنے سماج پر کرنا چاہتے ہیں تو ایک تضاد واقع ہوتا ہے کیونکہ ہمارا معاشرہ اپنی ساخت میں مغرب سے مختلف ہے اور ہمارا تصورِ انسان بھی۔اس باب میں ہمیں ایک حد تک ابنِ خلدون سے راہنمائی مل سکتی ہے۔علمِ بشریات سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ سماج کیسے قائم ہوتے اور پھر تبدیل ہوتے ہیں۔ اپنے سماج کے ایک سائنسی مطالعے کے بعدہی اصلاح کا ایک لائحہ عمل تجویز کیا جا سکتا ہے۔ دنیا بھر میں سول سوسائٹی اور حکومت کے مابین ایک اشتراکِ عمل ہو تا ہے۔ووٹ دینے کے بعد عوام کا کردار ختم نہیں ہو جا تا بلکہ وہ مسلسل مشاورتی عمل کا حصہ ہوتے ہیں۔میں جب امریکا گیا تو ایک صبح اخبار میں ایک اشتہار دیکھا۔سالٹ لیک سٹی میںایک مذبح (ذبح خانہ)تعمیر ہو نا تھا۔شہر کی انتظامیہ نے عوام سے مشورہ مانگا تھا کہ اسے کس علاقے میں جگہ دی جائے۔اس کے لیے مواصلات کے سب ذرائع استعمال میں لائے جارہے تھے۔اس کا طریقہ کار یہ تھا کہ اکثریت کی رائے کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے،اس کا فیصلہ ہونا تھا۔جب عوام اس طرح مشاورتی عمل کا حصہ بنتے ہیں تو ایک طرف حکومت پر ان کا عتماد قائم ہوتا ہے اور دوسری طرف وہ حکومتی فیصلوں میں حصہ دار ہوتے ہیں۔اب اس کا امکان ختم ہو جاتا ہے کہ حکومت ایک جگہ مذبح تعمیر کرے اوراس پر عوامی احتجاج کی کوئی لہر اٹھے۔ہمارے ہاں عوام کو ان کاموں میں صرف ایک بار شریک کیا جا تا ہے جب ان سے ووٹ مانگا جاتا ہے۔میرا خیال ہے اب اس شرکت کو ایک مستقل نظام میں بدل دینا چاہیے۔سماجی تعمیر کے لیے یہ اہتمام لازم ہے۔ میرا احساس یہ ہے کہ جہاں سماج کا نظامِ اقدار مضبوط ہوتاہے وہاںحکومت کا کام آسان ہو جا تا ہے۔سوسائٹی کی اونرشپ بڑھتی ہے۔یوں سیاسی و سماجی استحکام پیدا ہوتا ہے۔حکومت سازی کے اولین مر حلے میں اگرسماجی تعمیر کو کارِجہاں بانی میں شمار کر لیا جائے تو میرا خیال ہے پاکستان سماجی طور پر بھی تبدیل ہو سکتا ہے۔نیا پاکستان دراصل وہی ہو گا جو پرانے نظامِ اقدار پر کھڑا ہوگا۔