وزیرِ اعظم کا نتیجہ فکر یہ ہے کہ دہشت گردی پاکستان کے مسائل میں سرِ فہرست ہے۔فوجی قیادت اس سے پہلے اعلان کرچکی کہ پاکستان کی سلامتی کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ داخلی ہے خارجی نہیں۔طویل عرصے بعد ایک قومی مسئلے پر سیاسی اور فوجی قیادت ہم آہنگ ہے اور یہ بات قوم کے لیے نیک شگون ہے۔ اب یہ امید کی جا سکتی ہے کہ قومی سلامتی کی ایک متفقہ پالیسی تشکیل پا سکے۔وزیرِ اعظم نے اس حوالے سے مشاورت کا آغاز کیا ہے۔ وہ آئی ایس آئی کے مرکز گئے اور وزارتِ داخلہ بھی۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے ’’ دانش وروں‘‘ سے بھی مشاورت کی۔ دانش، ایک موضوعی (subjective) تصور ہے۔ کسی کا خیال ہے کہ دانش ور وہی ہیں جن کے رشحاتِ قلم ہم اخباری کالموں میں دیکھتے ہیں۔ایک رائے یہ ہے کہ جو سرِ شام ٹیلی ویژن سکرین پر مجلسِ مکالمہ برپاکرتے ہیں، وہ دانش ور ہیں۔کوئی یہ گمان رکھتا ہے کہ دانش تو جامعات اور اعلیٰ تعلیم کے اداروںمیں پائی جاتی ہے۔ کسی کے نزدیک دانش علمی اور تحقیقی اداروں (Think tanks) میں تلاش کرنی چاہیے جہاں محققین برسوں پتہ ماری کرتے اور اپنے نتائجِ فکر مرتب کرتے ہیں۔ وزیرِ اعظم کا خیال یہ معلوم ہوتا ہے کہ دانش پہلے دو طبقات اور وہ بھی اُن کے بعض مخصوص افراد ہی تک محدود ہے، اس لیے انہوںنے جب مشاورت کا فیصلہ کیا تو اسے چند شخصیات تک محدود رکھا۔ وزیرِ اعظم کے منصب پر فائز ایک شخصیت کی شایانِ شان یہی ہے کہ وہ دانش کو موضوعی نہیں، معروضی (objective) حوالے سے دیکھے۔ قومی سلامتی کا مسئلہ یک جہتی نہیں ہمہ جہتی ہے۔ اس ملک کی سلامتی کو آج جو مسائل لاحق ہیں وہ متنوع ہیں اور انہیں گرفت میں لاناآسان نہیں۔پالیسی کی تشکیل ایک تجزیہ کی مرہونِ منت ہے۔ اگر ہم نے معروضی تجزیہ نہ کیا تو اس بات کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا کہ ہم ایک ناقص حکمتِ عملی تشکیل دیں اور ہمارا مسئلہ وسائل اور انسانی جانوںکے ضیاع کے باوجود باقی رہے۔ یہ نتیجہ اجتماعی دانش کا متقاضی ہے اور اس کے لیے نا گزیر ہے کہ مشاورت کے دائرے کو وسیع سے وسیع تر کیا جائے۔ اگر سیاسی و فوجی قیادت متفق ہے کہ قومی سلامتی کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے اور یہ داخلی ہے تو اس مقدمے کے کچھ مضمرات ہیں۔ انہیں سمجھے بغیر کوئی تجزیہ مکمل نہیں ہو سکتا۔ مجھے خدشہ ہے کہ پالیسی ساز اداروں کو ان مضمرات کی مکمل تفہیم نہیں ہے۔ وہ ایک اندازِ نظر رکھتے ہیں جس میں کسی جوہری تبدیلی پر آمادہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک جو حل پیش کیے جاتے رہے ہیں، وہ نتیجہ خیز نہیں رہے۔ دہشت گردی کو داخلی اورسب سے بڑا خطرہ قرار دینے کے بعد قومی اداروں کے رویے میں جو فرق آنا چاہیے تھا، وہ کہیں نظر نہیں آرہا۔ ریاستی اداروں کی سرپرستی میں قائم اداروں سے وابستہ خواتین و حضرات کی گفتگو سنیے یا ان کے تبصرے پڑھیے تو اس کمی کااحساس گہرا ہوتا جاتا ہے۔میرے نزدیک چند متعین سوالات ہیں جن کا جواب تلاش کیے بغیر قومی سلامتی کو یقینی نہیں بنا یا جا سکتا۔ ۱۔دہشت گردی ایک سماجی و سیاسی مسئلہ ہے یا فکری؟میرا کہنا یہ ہے کہ اصلاً یہ ایک فکری مسئلہ ہے جس نے سیاست اور سماج میں ظہور کیاہے۔یہ ایک دینی تعبیر ہے جس کے تحت دنیا دو حصوں میں منقسم ہے۔ایک طرف اہلِ حق ہیں اور دوسری طرف اہلِ طاغوت۔اہلِ حق وہ ہیں جو مسلمانوں کے مفادات کے لیے اپنے وقت کے طاغوت امریکا سے بر سر پیکار ہیں۔جو لوگ اس معرکے میں اہلِِ حق کے ساتھ نہیں ہیں، وہ امریکا کے ساتھی ہیں یا منافق۔دونوں صورتوں میں وہ واجب القتل ہیں۔اس تصور کے تحت پاکستان سمیت تمام مسلمان حکمران طاغوت کے ایجنٹ ہیں جو امریکا کے ساتھ دوستی یا تعلقات رکھتے ہیں۔اس نقطہ نظر کے ماننے والے صرف وہ نہیں جو تحریکِ طالبان کا حصہ ہیں۔پاکستان کی غالب مذہبی سوچ یہی ہے۔اس سوچ کوباقی رکھتے ہوئے کیامحض طاقت کے استعمال سے دہشت گردی کو ختم کیا جا سکتا ہے؟ ۲۔ اس سوچ کے مطابق جمہوریت اور ملکوں کے درمیان سرحدوں کی تقسیم کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔یہ اسلام دشمن طاغوتی قوتوں کی دین ہے جس کی کوئی شر عی حیثیت نہیں، لہذا ہم انہیں ماننے کے پابند نہیں ہیں۔ کیا اس رائے کو بدلے بغیر نتیجہ خیز مذاکرات ممکن ہیں؟ ۳۔ قومی سلامتی کے ادارے اس پالیسی کے بارے میں اب کیا رائے رکھتے ہیں جو سٹریٹیجک ڈیپتھ کے عنوان سے معروف ہے ۔کیا وہ اس باب میں یکسو ہیں کہ اس سے نجات کے بغیر اصلاحِ احوال کا کوئی امکان نہیں؟ ۴۔ہمارے سلامتی کے ادارے اس نقطہ نظر کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں جس کے تحت بھارت اور امریکا کے نمٹنے کا واحد راستہ مسلح جدو جہد ہے جسے وہ جہاد کا عنوان دیتے ہیں؟کیا وہ اب بھی یہ خیال کرتے ہیں کہ مذہبی جذبات کے استحصال سے آزادی کشمیر کی تحریک کو زندہ رکھا جا سکتا ہے؟ ۵۔ دہشت گردی اور انتہا پسندانہ سوچ کا باہمی تعلق کیا ہے اور کیا سوچ کو معتدل بنائے بغیر دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہے؟ ۶۔ افغانستان میں جاری معرکے میں پاکستان کس کے ساتھ ہے، امریکا کے یا طالبان کے؟ میرے نزدیک پاکستانی قیادت ان سب سوالات کا کو ئی واضح جواب نہیں رکھتی۔ تضادات ہیں یا پھر ابہام۔اس ابہام نے پاکستان کو فساد کا گھر بنا دیا۔یہی فساد اس وقت قومی سلامتی کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ہونا یہ چاہیے کہ 1989ء میں ہم اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرتے جو ہم نے 1979ء میں اپنائی لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔اب پانی سر سے اونچا ہو چکا لیکن ہم بدستور گو مگو کی حالت میں ہیں۔ابہام در ابہام۔ اگر یہ تجزیہ درست ہے تو پھر قومی سلامتی کے لیے ایک نئے وژن کی ضرورت ہے دہشت گردی جس وژن کا مظہر ہے وہ ایک مخصوص فہم دین، اس کی علم بردار تنظیموں اور اداروں، ریاستی سر پرستی اور عالمی قوتوں کے مفادات سے عبارت ہے۔ اگر ہم نیا وژن چاہتے ہیں تو ہمیں سابقہ وژن کے تمام اجزائے ترکیبی پر غور کرنا ہو گا۔ایک اخباری کالم اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتاکہ میں اس کی تفصیلات بیان کر سکوں۔وزیر اعظم کا تصورِ دانش اگر موضوعی کے بجائے معروضی ہو تو اس حکایت کو طویل کیا جا سکتا ہے۔