ہمارے ہاں دہشت گردی کے تین سرچشمے ہیں۔ وزیرستان، بلوچستان اور کراچی۔ نتائج و عواقب میں یکسانیت کے با وصف، ان کے اسباب مختلف ہیں۔ اس لیے میرا خیال ہے کسی ایک حل سے تینوں کا خاتمہ ممکن نہیں۔ وزیرستان میں جس دہشت گردی نے جنم لیا، اس کی وجہ ایک خاص مذہبی تعبیر اورعالمی سیاست ہے۔ تحریکِ طالبان کو پاکستان کی ریاست سے برا ہ ِراست کوئی شکایت نہیں۔ وہ اپنے تئیں اسلام اور امتِ مسلمہ کا مقدمہ لڑ رہے ہیں۔ پاکستان کی ریاست چونکہ اُن کے راستے میں حائل اور ان کے خیال میں اسلام دشمنوں کی حلیف ہے، اس لیے وہ اسے ہدف بنائے ہوئے ہیں۔ بصورتِ دیگر انہیں ریاست سے کوئی شکایت نہیں۔ بلوچستان میں جنم لینے والی دہشت گردی کا تعلق براہِ راست ریاستِ پاکستان سے ہے۔مقدمہ یہ ہے کہ ریاست بلوچوں کے حقوق کی غاصب ہے، اس لیے یہ آزادی اور حقوق کی جنگ ہے۔ اِس کا براہ راست ہدف ریاست ہے۔ کراچی کا معاملہ ان دونوںسے یکسر مختلف ہے ۔ مجھے کراچی پر چونکہ قدرے تفصیل سے بات کرنی ہے، اس لیے میں اسے چند سطور مؤخر کرتے ہوئے، وزیرستان اور بلوچستان کی بات پہلے کرنا چاہتاہوں۔ وزیرستان میں جس دہشت گردی نے جنم لیا،اس کے پسِ منظر میںکارفرما عوامل میں القاعدہ کا تصورِ جہاد اور عالمِ اسلام میں امریکی مداخلت شامل ہیں۔ اس نے اب ایک عصبیت کی صورت اختیار کر لی ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو براہِ راست دہشت گردی میں ملوث ہیں اور دوسری طرف وہ ہیں جو ان کے فکری اور نظری ہم سفر ہیں۔ اگر اس دہشت گردی کو ہدف بنانا ہے تو پھر ان امور کو پیشِ نظر رکھنا ہوگا۔ بلوچستان میں جن لوگوں نے دہشت گردی کو بطور حکمت عملی اختیار کیا ہے، وہ ریاستی اداروں کو ظالم قرار دیتے ہیں۔ ان کا مقدمہ یہ ہے کہ اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کی پاداش میں ریاستی ادارے ان کو اغوا اور قتل کرتے ہیں۔ اس لیے ان کا ریاست کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ وہ پاکستان کی ریاست کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ اس لیے بلوچ لبریشن آرمی جیسے مسلح گروہوں کے خلاف ایک دوسری حکمتِ عملی کی ضرورت ہے۔ تحریکِ طالبان اور بی ایل اے کو ایک لاٹھی سے نہیں ہانکا جا سکتا۔ اب آئیے کراچی کی طرف! کراچی میں ہونے والے دہشت گردی کے دو اسباب ہیں۔ ایک یہ کہ وہاں سیاسی عصبیت اور جرم جمع ہوگئے ہیں۔ دوسرا یہ کہ غیر معمولی آبادی کے باوصف عمومی جرم کی شرح بہت بڑھ گئی ہے جسے جرم کی لغت میں دہشت گردی نہیں کہا جاتا۔ جب جرم اور سیاسی عصبیت جمع ہو جائیں تو پھر مجرموں سے عام قانون کے تحت معاملہ کرنا ممکن نہیں رہتا۔ جرم کے خلاف اقدام کسی خاص عصبیت کے خلاف اقدام سمجھا جاتاہے اور پھر اس کے سیاسی نتائج ہوتے ہیں، جن کا بوجھ اٹھانا، بعض اوقات ریاست کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔ مشرقی پاکستان میں ہم اس کا تجربہ کر چکے۔ عوامی لیگ کے بنگالی نیشنلزم کے تحت جرم نے پنپنا شروع کر دیا تھا۔ مکتی باہنی جیسی مسلح تنظیمیں ایک منصوبے کے تحت امن و امان کی صورتِ حال کو اتنا خراب کر دینا چاہتی تھیں کہ بھارتی مداخلت کے لیے جواز پیدا ہو جائے اور ریاستِ پاکستان کے خلاف مقدمہ مضبوط ہو جائے۔ اگر معاملہ محض مکتی باہنی کا ہوتا تو ریاست اس پر قابو پا سکتی تھی۔ لیکن چونکہ اس کے پسِ منظر میں سیاسی عصبیت تھی، اس لیے طاقت کا استعمال، جس کا حق ریاست کو حاصل ہوتا ہے، ریاست کے وجود کے لیے خطرناک ثابت ہوا۔آ ج بلوچستان میں اگر بی ایل اے کی کامیابی کے بظاہر امکانات نہیں ہیں تو اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ اس کے پیچھے بلوچ نیشنلزم کی عصبیت نہیں ہے۔ اگر اس مسلح گروہ کو یہ میسر آجائے تو خاکم بدہن، بلوچستان میں مشرقی پاکستان کی تاریخ دھرائی جا سکتی ہے۔ کراچی میں بھی جرم اور سیاسی عصبیت جمع ہیں۔ کسی فیصلہ کن اقدام سے پہلے، ان کو الگ الگ کرنا لازم ہے۔ اس وقت پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی کے مسلح گروہوں کا ذکر ہو رہا ہے۔ یہ تینوں سیاسی عصبیت رکھتی ہیں۔ سندھی قومیت، مہاجر قومیت، پختون قومیت۔ مشرقی پاکستان کے برخلاف کراچی میں ریاست کو یہ آسانی ہے کہ یہاں ایک عصبیت نہیں ہے۔اگر ریاست کراچی میں غیر جانبداری کو یقینی بناتے ہوئے،کوئی اقدام کرتی ہے تو اس سے سیاسی عصبیت کو اس طرح نہیں ابھارا جا سکتا جیسے مشرقی پاکستان میں ہوا۔اس وقت صوبائی اسمبلی موجود ہے اور قومی بھی۔ان جماعتوں کے نمائندہ افراد بھی ہر جگہ موجود ہیں۔اگر یہ جماعتیں کسی حل میں شریک ہوں اور ان کو اعتماد میں لے کر اقدام کیا جائے تو جرم اور عصبیت الگ ہو سکتے ہیں۔وزیر داخلہ نے اس ضمن میں جو حل تجویز کیا ہے،وہ موجودہ صورت حال میں سب سے بہتر ہے۔فوج ریاست کی نمائندہ ہے۔اگر وہ کوئی اقدام کرتی ہے تو متاثر ہونے والا فریق اسے ریاست کے خلاف مقدمہ بنا سکتا ہے۔پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم ،دونوں کو فوج سے شکایات رہی ہیں،اس لیے وہ اس صورت حال کو استعمال کر سکتی ہیں۔یہ حسن اتفاق ہے کہ اس وقت مرکز میں جو جماعت برسر اقتدار ہے، کراچی میں جرم کے خلاف اقدام سے اس کے مفادات براہ راست متاثر نہیں ہو رہے۔اس لیے وہ زیادہ یکسوئی کے ساتھ اقدام کر سکتی ہے۔ کراچی کا دوسرا مسئلہ اس کی غیر معمولی آبادی اور وسعت ہے۔دنیا کے ہر بڑے شہر میں جہاں آبادی ایک خاص حد سے آگے بڑھتی ہے،اس کو کسی قانون او ر نظم کے تابع رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔جرم کی ایک زیرِ زمین دنیا(under world) وجود میں آ جاتی ہے اور اس کی حیثیت ایک متوازی حکومت کی ہوتی ہے۔کراچی میں بھی یہی ہوا ہے۔وہاں ایک انڈر ورلڈ وجود میں آ چکی ہے اور اس کا معاملہ ممبئی یا نیو یارک سے مشابہ ہو گیا ہے۔ یہ عمومی اور منظم جرم ہے جو دہشت گردی سے مختلف ہے۔ ایسے جرم کے لیے ریاستی حکمت عملی دہشت گردی کے خلاف اقدام سے مختلف ہوتی ہے۔بعض معاملات میں ریاست ان مجرموں کے ساتھ پُرامن بقا کی باہمی پالیسی اختیار کرتی ہے۔ بعض معاملات میں طاقت کا استعمال ہوتا ہے۔یہ جرم چونکہ ریاست کے وجود کو چیلنج نہیں کرتا ،اس لیے اسے محض جرم کی عمومی نفسیات کو پیش نظر رکھ کر ختم کیا جاتا ہے۔ کراچی کوان اسباب کی بنا پر وزیرستان اور بلوچستان سے الگ کر کے دیکھنا ہوگا۔اس لیے جو حکمت عملی وزیرستان میں جنم لینے والی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اختیار کی جا سکتی ہے، وہ کراچی میں نتیجہ خیز نہیں ہو گی۔اس وقت پاکستان کراچی کی ابتر صورت حال کو نظر انداز کر سکتا ہے نہ وزیرستان میں جنم لینے والی دہشت گردی کو۔حکومت کو یہ دیکھنا ہے کہ کیا وہ دونوں محاذ بیک وقت کھول سکتی ہے؟ابھی نیشنل سکیورٹی پالیسی کا معاملہ حل نہیں ہوا کہ کراچی کا مسئلہ سرفہرست ہو گیا ہے۔میرا خیال ہے کہ حکومت کو اقدام کرتے وقت ترجیحات کو پہلے طے کرنا ہو گا۔دہشت گردوں کو مذاکرات کی جو پیشکش ہے،ظاہر ہے اس کا اطلاق کراچی پر نہیں ہو گا۔بھتہ خوروں سے آخر کیا مذاکرات ہوں گے؟ انہیں تو زیادہ سے زیادہ مہلت دی جا سکتی ہے،ان سے گفتگو نہیں کی جاسکتی۔ میرا کہنا یہ ہے کہ کراچی کو انتظامی مسئلے کے طور پر دیکھنا چاہیے جس کا حل پولیس اور سلامتی کے سول اداروںکے پاس ہے۔وزیرستان میں جنم لینے والی دہشت گردی کا تعلق ریاستی رٹ کے ساتھ ہے اور اسے فوج ہی کی مدد سے حل کیا جاسکتا ہے۔