شاہ زیب کا مقدمہ ہماری پامال سماجی روایات کا المناک بیان ہے۔وہ سماج جو تنکا تنکا بکھر رہا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ اس کو سمیٹنے والا کوئی نہیں۔ارتداد تو ہے مگر کوئی ابوبکر صدیق ؓ نہیں۔ قانون و شریعت کی ساری بحثیں میرے نزدیک اضافی ہیں۔ قانون تو موجود سماجی اقدار کا محافظ ہوتا ہے۔ جہاں اقدارموجودہی نہ ہوں وہاں حفاظت کیسی؟ جس معاشرے میں حرمتِ جان بطور سماجی قدرمستحکم نہیں ، وہاں کوئی قانون جان کے تحفظ کی ضمانت نہیں بن سکتا۔ یہی معاملہ شریعت کا بھی ہے۔ لوگ سوال اٹھاتے ہیں :تین عشرے گزر گئے، حدود قوانین کو نافذ ہوئے۔ کیوں آج تک کسی ایک مجرم کو بھی ان قوانین کے تحت سزا نہیں ہوسکی؟ یہ بات ان قوانین کے نفاذ کا مطالبہ کرنے والوںکی سمجھ میں آ سکی اور نہ ان کے ناقدین کے فہم میں سما سکی کہ قانون سماج کی اخلاقی حالت کے سیاق میں بروئے کار آتا ہے۔ اس کی نتیجہ خیزی منحصر ہے عامۃالناس کے اخلاق پر۔ جس سماج کی زمین نفاذِشریعت کے لیے ہموار نہ کی گئی ہو وہاں احکامِ ِشریعت کے شجر ثمر بار نہیں ہوتے۔ پست اخلاق کے سماج میں تو دیت جیسا قانون بھی اہلِ ثروت ہی کے نخلِ تمنا پر برگ و بار لاتا ہے۔ شاہ زیب کا قصہ یہی سمجھا جا رہا ہے۔ حرمتِ جاں کو ہم نے ہر طرح سے پامال کیا۔مذہب کے نام پر۔ روایت اور سماج کے سہارے۔سیاسی مفاد کے لیے۔ جھوٹی انا کے لیے۔ سماجی مقام کے لیے۔ المیہ یہ ہے کہ ہم نے حرمتِ جاں کی ہر پامالی پر دلائل تراشے۔ لوگ ایک طرف سزائے موت کے خاتمے کے خلاف مہم چلاتے ہیں، اسے خلافِ دین کہتے ہیں اور پھر اُسی سانس میں ،اُسی کالم میں ،اُسی قلم کے ساتھ قاتلوں کی معافی کے لیے دلائل دیتے ہیں ۔ ہم میں سے ہر کوئی کسی نہ کسی قاتل کا وکیل ہے،ہم درد ہے اور اسے بچانا چاہتا ہے۔ ایسے سماج میں لوگ جب سنجیدگی کے ساتھ اسلام کی بات کرتے یا قانون کا حوالہ دیتے ہیں تو مجھے حیرت ہوتی ہے۔ شاہ زیب کا مقدمہ دراصل ہے کیا؟ ایک با اثر اور اہلِ ثروت گھرانے کے چشم و چراغ نے ایک نوجوان کی جان لے لی۔ واقعات اور قاتل کے اطوار بتاتے ہیں کہ اسے اپنے وسائل پر ناز تھا۔اسے زعم تھا کہ وہ صاحبِ وسیلہ ہے اور کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ عدالت میں بھی وہ زبان حال سے یہ اعلان کرتا رہا کہ کس میں ہمت ہے جو اس کو سزا دے! دولت، اقتدار، اثرو رسوخ‘ ہر کوئی اس کی حفاظت کو نکل آیا، یہاں تک کہ قانون کو بھی اس قطار میں لا کھڑا کیا گیا۔ وہ قانون جسے شریعتِ مطاہرہ سے نسبت تھی۔ سنا تھا کہ صوبائی حکومت پہلے بھی اس کو بچانے کے لیے متحرک تھی اور اب اخبارات بتا رہے ہیں کہ ایک بار پھر متحرک ہے۔ میڈیا کو داد دیجیے کہ وہ اس خون کے رزقِ خاک بننے میں حائل ہوگیا، ورنہ معاملہ کب کا ختم ہو چکا ہوتا۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہر روز کیسے قانون کو صاحبانِ رسوخ کی خدمت کے لیے استعمال کیا جاتا ہو گا۔ مکرر عرض ہے کہ قانون سے سماج نہیں بنتے۔ سماج بگڑ جائیں تو کوئی قانون ان کی تعمیرِ نونہیں کر سکتا۔میں دیکھ رہا ہوں کہ سماج کی طرف آج بھی کسی کا دھیان نہیں۔ حکومت کراچی کو شہرِ امن بنانا چاہتی ہے۔ طالبان سے مذاکرات کرنا چاہتی ہے۔ صرف حکومت نہیں، تمام سیاسی قیادت لیکن کسی کو یہ خیال نہیں کہ سماج کی تطہیر کے بغیر دونوں کام نہیں ہو سکتے۔ کراچی میں سماجی حقائق کو نظر انداز کرنے کا پہلا ردِ عمل سامنے آ چکا۔ یہ سلسلہ شاید یہاں رک نہ سکے۔ حکومت کراچی میں مخصوص اہداف پر وار کرنا چاہتی ہے، لیکن ایک ہدف سے صرفِ نظر ہے کیونکہ اس سے مذاکرات کرنے ہیں۔ اس حکمتِ عملی کے ساتھ اگر حکومت کامیاب آپریشن کی توقع رکھتی ہے تو اس پر صرف دعا کی جا سکتی ہے۔ سماج کے معاملے کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھیے۔دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کا معاملہ خوفناک صورت اختیار کر چکا۔ایک طرف کھرب پتیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور دوسری طرف خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے شمار میں نہیں آ رہے۔غیر ملکی جریدے خبریں دے رہے ہیں کہ پامال معیشت کے اس ملک میں امرا کی گنتی بڑھ رہی ہے۔کبھی بائیس خاندان تھے، آج سیکڑوں کھرب پتی ہیں۔شاہ زیب کے قصے میں بھی کروڑوں کی بات ہو رہی ہے۔یہ صرف ایک تجوری کا منہ کھلا ہے۔ایسی کتنی تجوریاں ہیں جن میں یہ سکت ہے کہ وہ اقتدار سے لے کر قانون تک ہر شے کو خرید سکتی ہیں۔اس عمل کو قانون اس وقت روک سکے گا جب سماج اس بارے میں حساس ہو گا۔ سماجی تبدیلی کا شعور پہلے اہل فکر و نظر میں پیدا ہوتا ہے۔دانش گاہوںمیں احساس کی آبیاری ہوتی ہیں۔اہل دانش اپنے اپنے نتائج فکر مرتب کرتے اور پھر عامۃالناس کے دل و دماغ پر دستک دیتے ہیں۔کبھی شاعری کی زبان میں،کبھی نثر کے ساتھ۔کبھی مضمون کی صورت میں ،کبھی کالم کے لہجے میں۔کبھی تقریر سے، کبھی تحریر سے۔کبھی محراب و منبر سے، کبھی خانقاہ سے۔کبھی میدان سیاست میں کھڑے ہوکر ،کبھی صحافت کی وادیوں میں۔کبھی مصوری کے رنگوں سے اور کبھی موسیقی کی تانوں میں۔ہر طرف سے ایک ہی آواز اٹھتی ہے جو صورِ اسرافیل بن کے قوم کو بیدار کر دیتی ہے۔یوں سماج زندہ ہو جاتا ہے،با شعور ہو جاتا ہے۔اپنے اقدار کے لیے حساس ہو جاتا ہے۔اس کے بعد قانون کے قلم سے سماجی تعمیر کا تکملہ لکھا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اس سماجی تبدیلی کے لیے کوئی منظم عمل شروع نہیں ہو سکا۔چند منفرد آوازیں ہیں جو اپنا فرض ادا کر رہی ہیںلیکن غلبہ سطحی جذباتیت کا ہے۔مذہب،ادب،سیاست، صحافت… ہر چیز اس کی زد میں ہے۔خواب ہیں،غیر مصدقہ پیش گوئیاں ہیں،اغیارکی ملامت ہے،یا پھر بے مغز تجزیے۔اس فضا میں شاہ زیب کا مقدمہ کوئی عجوبہ نہیں۔میرے علم کی حد تک،کسی سماج میں آج تک کوئی پائیدار تبدیلی نہیں آئی جب تک سماج کی شعوری تربیت کا مرحلہ طے نہیں ہوا۔ترکی کا بہت ذکر ہوتا ہے۔طیب اردوعان دراصل حاصل ہے اس جد و جہد کا جو سعید نورسی سے فتح اﷲ گوگن تک پھیلی ہوئی ہے۔جو اربکان کی عوامی خدمات کا ثمر ہے۔جو محمود آفندی جیسے صوفیا کی ریاضتوں کا نتیجہ ہے۔ترکی میں روایتی سماجی ادارے زندہ ہوئے،پھر سیاسی بیداری کے اسباب پیدا ہوئے۔پاکستان میں کوئی ایسی منظم جد و جہد موجود نہیں۔ایسی فضا میں تبدیلی کی خواہش کیسے ثمر بار ہو گی؟ شاہ زیب جیسے مقدمات دراصل ہمیں متوجہ کرتے ہیں کہ سماج کانظام اقدار برباد ہو چکا۔یہ قصہ بتا رہا ہے کہ حرمت جان کا تصور ہمارے ہاں باقی نہیں رہا۔آج بھی ہماری ہمدردی قاتل کے ساتھ ہے۔قاتل مختلف ہو سکتے ہیں۔تاویل الگ الگ ہو سکتی ہے،لیکن انسانی جان کی حرمت کے بارے میں ہم اتنے حساس نہیں ہیں جتنا کسی مہذب معاشرے کو ہونا چاہیے۔اﷲ کی آخری کتاب تو ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دے اور اﷲ کے آخری رسول ﷺانسانی جان کو بیت اﷲ سے زیادہ محترم ٹھہرائیں اور ہم دونوں پر ایمان لانے کا دعویٰ رکھتے ہوئے بھی قاتلوں کے وکیل بن جائیں۔طالبان کی حمایت سے لے کرسزائے موت کی مخالفت تک،مذہبی اور سیکولر لوگوں کے رویے نے بتا دیا ہے کہ دونوں طبقات کے نزدیک انسانی جان کی قدر وقیمت کیا ہے۔اس کے بعد اگر شاہ زیب کا قاتل بچ جائے تو اس پر حیرت کیسی؟