خیبر پختون خوا کی حکومت نے دواہم فیصلے کیے ہیں۔ان کا اعلان خود عمران خان نے کیا۔ ایک تو یہ کہ صوبے میں یکساں نظامِ تعلیم رائج کیا جا ئے گا۔دوسرا فیصلہ یہ کہ صوبے کی سرزمین سے نیٹو کے جو کنٹینرز گزریں گے،اُن پر ٹیکس عائد کیا جائے گا اور یوں خیبر پختون خوا کے لیے وسائل جمع کیے جا ئیں گے۔آج مجھے ان دونوں فیصلوں کے بارے میں کچھ کہنا ہے۔ اگر تحریک انصاف صوبے میں یکساں نظامِ تعلیم رائج کر سکے تو یہ اُس کا بڑا کارنامہ ہوگا۔ یہ ملک آج کئی طبقات میں منقسم ہے تویہ تقسیم پیدا کر نے کا سب سے بڑا سبب نظام ہائے تعلیم کا تنوع ہے۔یہ تنوع فکری بھی ہے اور طبقاتی بھی۔فکری حوالے سے دیکھیے تو ایک طرف عمومی تعلیم کے ادارے ہیں جو نظام ریاست کو دست وبازو فراہم کرتے ہیں۔دوسری طرف دینی تعلیم کے ادارے ہیں جو سماج کی مذہبی ضروریات پورا کرتے ہیں۔طبقات کے حوالے سے دیکھیے تو عمومی تعلیم کے اداروں میں ایک طرف سرکاری سکول ہیں جہاںسے ریاست کو معمولی درجے کے اہل کار میسر آتے ہیں۔دوسری طرف وہ ادارے ہیں جو غیر سرکاری ہیں اور جہاں تعلیم بہت مہنگی ہے۔ یہاں سے وہ لوگ نکلتے ہیں جو پالیسی سازی کا کام کرتے ہیں اور یہیں سے زیاد ہ تر لوگ بیرون ِ ملک تعلیم کے لیے بھی جاتے ہیں۔ان میں زیر تعلیم طلبا و طالبات میں سے زیادہ تر کا تعلق باثروت اور بارسوخ خاندانوں سے ہوتا ہے۔ان ہی لوگوں کی واشنگٹن اور طاقت کے عالمی مراکز تک رسائی ہوتی ہے جہاں سے یہ اپنے لیے پروانۂ اقتدارحاصل کرتے ہیں۔ یوں اس نظام ِتعلیم کی برکت سے اقتدارایک خاص طبقے ہی میں گردش کر تا رہتا ہے۔ مذہبی تعلیم کے ادارے مسلکی تقسیم کی بنیاد پر قائم ہیں۔یہ تین طرح کے افراد پیدا کررہے ہیں۔ایک وہ جوسماج کی مذہبی ضروریات کو پورا کر رہے ہیں۔ جیسے آئمہ وخطباکی فراہمی،بچوں کی بنیادی دینی تعلیم یانماز ِ جنازہ کی امامت اور نو مولودبچوں کے کان میں اذان دینا۔دوسرے وہ جو مسلکی مبلغین ہیں۔ان کا کام کسی خاص مسلک اور طبقے کو دلائل فراہم کر نا اوراس سے وابستہ افراد کو اپنے مسلک پر پختہ کر نا ہے۔یہ کام تحریر اورتقریر دونوں سطحوں پہ ہو تا ہے۔ان میں ایک طبقہ مسلکی وابستگی میں انتہا پسند ہے۔وہ دوسرے مسلک کو بدعتی ، مشرک یا پھر کافر تک قرار دیتا ہے۔ان ہی میں ایک طبقہ وہ ہے جو اُس گروہ کو دلائل فراہم کر تا ہے جو القاعدہ اور طالبان کے نام سے منظم ہے۔ان مدارس سے تیار ہونے والے افراد کی تیسری قسم وہ ہے جو سیاست کو اپنا میدان بناتی ہے اور اپنی مسلکی عصبیت کو استعمال میں لاکراقتدار میں سے اپنا حصہ بقدرِ جثہ وصول کرتی ہے۔ یکساں نظامِ تعلیم سے تویہی ہو نا چاہیے کہ خیبر پختون خوا میں یہ نظری اور طبقاتی تفاوت ختم ہو جائے۔وہاں دین اور دنیا کی تعلیم کے لیے الگ سے تعلیمی ادارے نہ بنیں ۔تمام بچوں کو ایک جیسی بنیادی تعلیم دی جا ئے اور پھر دوسرے مر حلۂ تعلیم پر اختصاص کا آغاز ہو۔جو ڈاکٹر بننا چاہے وہ ڈاکٹر بنے اور جوعالمِ دین بننا چاہے، وہ عالم بنے۔گلی گلی دینی مدرسہ قائم ہوسکے نہ سکول۔اگر تحریکِ انصاف کی حکومت یہ کارنامہ سر انجام دے دیتی ہے تو میرے نزدیک تنہا یہی کام کفایت کرتا ہے کہ اسے پورے ملک کا اقتدار سونپ دیا جائے تا کہ وہ اس تجربے کودوسرے صوبوں میں دہرا سکے۔تاہم شواہد یہی ہیںکہ یکساں نظامِ تعلیم سے عمران خان کی مراد عمومی تعلیم کے اداروں میں مو جود تفاوت کو دور کرنا ہے۔میرے خیال میں یہ بھی کم اہم نہیں ہے۔ اگر وہ ایسا کر سکیں تو یقیناً یہ کام بھی داد کا مستحق ہے۔اگر ملک میں عمومی تعلیم کا ایک ہی نظام ہو جس میں امرا اور غربا کے بچے ایک سا تھ اور ایک جیسی تعلیم حاصل کریں تو یہ بھی ایک کارنا مہ ہو گا اور اس پر بھی تحریک انصاف داد کی مستحق ہوگی۔یہ بات بہر حال طے ہے کہ اگر دینی اور دنیاوی تعلیم کا تفاوت بر قرار رہتا ہے تو سماج اسی طرح فکری ابہام کا شکار رہے گاجس طرح آج ہے۔میرے خیال میں اس وقت ملک کا سب سے اہم مسئلہ یہی ہے۔اگر اسے مخاطب نہ بنا یا گیا تو اصلاحِ احوال کا کوئی امکان نہیں۔ خیبر پختون خوا سے یہ آواز بھی اٹھی تھی کہ وہاں نصاب سے جہاد سے متعلقہ آیات نکال دی گئی تھیں اور اب انہیں پھر نصاب کا حصہ بنا یا جا رہا ہے۔میں اس معا ملے کی حقیقت سے پوری طرح واقف نہیں۔جہاد بلاشبہ تعلیماتِ دین میں شامل ہے لیکن نصاب ترتیب دیتے وقت طالب علم کی عمر اور صلاحیت کو پیشِ نظر رکھا جاتاہے۔حیض و نفاس کے مسائل بھی دین کا حصہ ہیں لیکن ان کی تعلیم کے لیے طالب علم کی ذہنی و جسمانی بلوغت کو معیارمانا جاتا ہے۔یہی معا ملہ دوسری دینی تعلیمات کا بھی ہے۔جہادقرآن مجید کی اصطلاح میں محض قتال کانام نہیں ہے۔لیکن یہاں جس سیاق میں اس کا تذکرہ کیا جا رہا ہے اس میں جہادسے مرادقتال ہے۔ حدود اورجہاد(قتال)دین کے ان احکام میں شامل ہیں جو ریاست سے متعلق ہیں۔پرائمری جماعت کے بچوں کو وہ تعلیم دی جا تی ہے جس کا تعلق بنیادی اخلاقیات سے ہے۔اسی طرح میٹرک یا ایف اے، ایف ایس کی سطح پرجب ریاست اور اجتماعیت کے بارے میں ایک طالب علم کو دینی تعلیمات سے آگاہ کیا جا تا ہے تو اس مر حلے پر جہاد کی تعلیم بھی دی جا سکتی ہے۔میرا خیال ہے کہ اگر اس معا ملے کو اس زاویے سے دیکھا جا ئے توکسی بڑے اختلاف کا امکان با قی نہیں رہتا۔ اب آئیے دوسرے فیصلے کی طرف۔تحریکِ انصاف کا یہ نقطہ نظر رہا ہے کہ نیٹو کو یہ اجازت نہیں ہو نی چاہیے کہ وہ افغانستان تک اپنا اسلحہ پہنچانے کے لیے پاکستان کی سرزمین استعمال کرے۔ پاکستان اگر یہ اجازت دیتا ہے تو یہ دراصل طالبان کے خلاف افغانستان میں نیٹو اور امریکا کا ساتھ دینا ہے۔ اس معا ملے میں محترمہ شیریں مزاری کی تلخ نوائی بہت معروف ہے۔ عمران خان کے اس بیان سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ اس باب میں ان کا موقف اب تبدیل ہو گیا ہے۔ان کے نزدیک نیٹو سپلائی کوئی بری چیز نہیں ہے اگر اس کی مناسب قیمت مل جائے۔ اگر نیٹو ٹیکس دینے پر آمادہ ہو تو اس کارِ خیر میں شریک ہواجا سکتا ہے۔یہ طے ہے کہ جس کام کی کمائی جائز ہے وہ کام بھی جائز ہے۔ ناجائز کام کی کما ئی بھی نا جائز ہے۔کوئی چاہے تو اس سے یہ اخذکرسکتا ہے کہ مر کزی حکومت پر ان کا اصل اعتراض یہ نہیں تھا کہ اس نے اس سپلائی کو کیوں روا رکھا۔ ان کو اگر اعتراض تھا تو اس پر کہ اس کی قیمت صحیح طرح نہیں چکائی گئی‘ اگر یہ بات درست ہے تو اس کا دائرہ پوری جنگ پر محیط ہو سکتا ہے جو اس وقت جاری ہے۔ میں نہیں جا نتا تحریکِ انصاف میں ان مسائل پرکس حد تک غور کیا گیا ہے یا وہاں غور وفکرکے لیے کوئی ادارہ یا نظام مو جود ہے۔ بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ تحریکِ انصاف کی سیاسی فقہ میںاسے فرض کفایہ سمجھا جاتا ہے۔پوری جماعت کی طرف سے چند افراد یہ کا م سرانجام دیتے ہیں۔یکساں نظامِ تعلیم کے بارے میں عمران خان کا بیان ان کا اپنا نتیجۂ فکر ہے یا خیبر پختون خوا حکومت کا، یہ بھی واضح نہیں۔یہ بھی معلوم نہیں کہ جماعت اسلامی صرف اقتدار میں شریک ہے یا پالیسی کی تشکیل اور مشاورت میں؛ تاہم یہ ایک اچھا کام ہے اگر ہو جائے۔اگر خیبر پختون خوا میں نظامِ تعلیم بنیادی اصلاحات سے گزرتا ہے تویہ دوسرے صوبوں کے لیے ایک قابلِ تقلید مثال ہو گی۔اگر وہ اس سے گریز کریں گے تو یہ واقعہ تحریکِ انصاف کے دائرہ اقتدار کی وسعت کا باعث بنے گا۔نیٹو کنٹینرزپر ٹیکس کا نفاذ البتہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو رجوع کی کوئی اچھی مثال نہیں۔