ٹی وی کی سکرین لہو سے رنگین ہے۔سالوں سے ایسا ہی ہے۔ایک ہی منظر کوئی کہاں تک دیکھے!کچھ با قی نہیں رہا۔ریاست ، سماج ،حکومت ،امید۔لگتا ہے کسی نے کتابِ حیات سے ان الفاظ کو کھرچ ڈالا ہے۔اب اگر کچھ باقی ہے تو وہ بے حسی ہے۔ وہ بے حسی ہے مسلسل شکستِ دل سے منیر کوئی بچھڑ کے چلا جائے‘ غم نہیں ہوتا مذاکرات؟ کیجیے لیکن کب؟جب پورا پاکستان قبرستان بن جائے گا؟اے پی سی کو فیصلہ کئے بہت دن ہوگئے۔ایک انچ کی پیش رفت نہیں ہوئی۔کوئی ایجنڈا‘ نہ رابطہ۔حکومت کی طرف سے مکمل خا مو شی لیکن فریقِ ثانی اپنے مشن میں پو ری یک سوئی کے ساتھ مصروف۔اس کے عزم میں کوئی کمی ہے نہ پاؤں میں کوئی لڑکھڑاہٹ۔اِس طرف معلوم ہو تا ہے کہ پاؤں ہی نہیں ہے۔لڑکھڑاہٹ کا توسوال ہی کیا! بجلی وجلی ہمیں نہیں چا ہیے۔ ہمیں بس جینے کا حق مل جائے۔اگر ریاست یہ کر سکتی ہے تو پھر ہم اس کے وجود کو تسلیم کریں گے۔ یہ مایوسی نہیں جھنجھلاہٹ ہے۔اس بات کی جھنجھلاہٹ کہ اہلِ پاکستان کا خون مسلسل بہہ رہا ہے اور کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ایک زخم بھرتا نہیں کہ دست قاتل پھر متحرک ہو جا تاہے۔کوئی طالبان کا دفتر کھولنا چاہتا ہے اور کوئی جانتا ہی نہیں کہ اسے کہاں سے آغاز کر نا ہے۔ ع ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق! قوم اعصاب کی جنگ ہارتی جا رہی ہے کہ ہر بات کی حد ہو تی ہے۔انسانی اعصاب لوہے کے بنے نہیں ہوتے۔پوری قوم نفسیاتی مریض بن چکی ہے۔کوئی قاتل کی محبت میں گرفتار ہے اور کوئی قاتل کے خوف میں۔ علماء، اہلِ دانش، سیاست دان اور حکومت ہر کوئی خوف میں مبتلا ہے یا پھر قاتلوں کا حامی۔دونوں رویے غیر متوازن ہیں۔ایسے میں داد رسی کون کرے گا؟کون زخموں پہ مرہم رکھے گا؟عوام کس کی طرف دیکھیں؟مکرر عرض ہے کہ بجلی نہیں چاہیے،جان کی امان چاہیے اور یہ کہیں میسر نہیں۔ایک دوسرے پر الزام دھرنے کا وقت گزر چکا۔اب اگراقدام نہیں ہو گا تو پھر کبھی نہیں ہو سکے گا۔ مذاکرات کیجیے لیکن پہلے ابہام کو تو ختم کیجیے!یہ دھماکے کون کر رہا ہے؟ اہلِ پاکستان کے خون کی ہولی کون کھیل رہا ہے؟ بھارت؟ اگر یہ بھارت ہے تو جنرل اسمبلی کے خطاب میں وزیر اعظم نے اس کا ذکر کیوں نہیں کیا؟من موہن سنگھ نے ڈنکے کی چوٹ پہ کہا کہ پاکستان اس خطے میں دہشت گردی کا مر کز ہے۔انہوں نے سفارتی آداب کو پیش نظر نہیں رکھا۔اگر پاکستان کا خیال یہ ہے کہ بھارت ایسا کر رہا ہے تویہ کیوں ہے کہ بھارت سے اس کی شکایت کی گئی نہ کسی بین الاقوامی فورم پہ اس کے لیے آواز اٹھائی گئی؟ اگر یہ بھارت ہے تو کھل کر بات کریں اور پھر اسے الٹی میٹم دیں کہ وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے گا تو اس سے کھلی جنگ ہو گی۔روز روز مر نے سے کیا ایک دن مر نا بہتر نہیں؟اگر بھارت نہیں ہے تو پھر کون ہے؟ وہ جنہیں ہم’ اپنا‘ کہتے ہیں؟’اپنوں‘ سے درخواست کیجیے۔ وہ جو کچھ کہتے ہیں، مان لیجیے اور اس سلسلے کو ختم کیجیے۔اگر مفاہمت ہو تی ہے تو اس کا آغاز کیجیے۔اگر یہ نہیں تو پھر لڑ جائیے۔اگر ریاست مو جود ہے تو اسے کچھ کر نا ہو گا۔اپنے وجود کا اثبات یا نفی۔اگر دوسروں نے بزور نفی کی تو پھر کچھ باقی نہ رہے گا‘اگر ابھی کچھ باقی ہے تو! گزشتہ عام انتخابات میں عوام نے یہ مینڈیٹ ن لیگ کو دیا تھا کہ وہ ان کے مستقبل کا فیصلہ کرے۔ن لیگ نے عوامی حمایت کا گیند تمام جماعتوں کے کورٹ میں پھینک دیا۔ان میں وہ بھی شامل تھے جن پر عوام کو اعتبار نہ تھا۔ان جماعتوں نے گیند دوبارہ حکومت کے کورٹ میں یہ کہہ کر پھینک دیا کہ وہ حکمت عملی بنا ئے۔اب تک کوئی حکمت سامنے آ سکی نہ عمل۔اگر مذاکرات کرنے تھے تو پہلے ہی دن سب کام چھوڑ کر اسے پہلی ترجیح بنا لینا چاہیے تھا۔اس کا ایجنڈا بننا چاہیے تھا۔ اُن لوگوں کی نشان دہی ہونی چاہیے تھی جن سے بات کر نی ہے۔انہیں کہنا چاہیے تھا کہ جب تک کوئی فیصلہ نہیں ہو جاتا وہ اپنے ہتھیاروں کو خاموش رکھیں۔مذاکرات کے فیصلے کا کم از کم یہ نتیجہ تو اب تک سا منے آ جا نا چاہیے تھا کہ مزید پاکستانی دہشت گردی کی آگ کا ایندھن نہ بنتے۔اس باب میں جس تن آسانی کا مظاہرہ ہوا‘ وہ حیران کن ہے۔وزیر اعظم دنیا سے یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں امداد نہیں چاہیے،ہم سے تجارت کی جائے۔تجارت؟ وزیر اعظم خود تاجر خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ کیا انہیں اندازہ نہیں کہ سر مایہ اندھا نہیں ہوتا؟ وہ کسی ایسے بازار کا رخ نہیں کرتا جہاں اپنا وجود ہی کھو دے۔ سرمایہ دارانہ معیشت کے علم بردار آخر کیوں پاکستان سے تجارت کریں گے جہاں سرمایہ تو دور کی بات انسان تک محفوظ نہیں۔وہ اگر ہمیں امداد دے دیں تو یہ بھی ان کی مہربانی ہے۔ یہ بات اگر چہ تلخ ہے لیکن کیا کیجیے کہ یہی حقیقت ہے۔کون سا سرمایہ ہوگا جو کراچی کے لیاری یاپشاور کے قصہ خوانی بازارکارخ کرے گا؟سوال سادہ ہے جو ریاست اپنے شہریوں کے جان و مال کا تحفظ نہیں کر سکتی وہ غیر ملکیوں کو کیا ضمانت دے سکتی ہے؟ اس ابہام کے ساتھ پاکستان کا سنبھلنا مشکل ہے۔فضل اللہ کی وڈیو سامنے آ چکی۔اس کا کہنا ہے کہ ریاستی اداروں میں ان کے حامی مو جود ہیں۔ان کی وجہ سے بنوں جیل پہ کامیاب حملہ ممکن ہوا۔اس وڈیو میں دکھایا گیاہے کہ کس طرح میجر جنرل کی گاڑی کو ہدف بنا یا گیا۔یہ احساس پہلے سے مو جود ہے کہ جس طرح سماج یک سو نہیں ہے اسی طرح ریاستی ادارے بھی یکسو نہیں ہیں۔ابہام اسی کا نام ہے۔ اس کو دور کیے بغیر کوئی اقدام نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا۔حکومت کے پاس اب دوراستے ہیں۔ ایک یہ کہ فیصلے کی باگ اپنے ہاتھ میں لے اور یکسو ہو جائے۔وہ چاہے تواس کا آغاز مذاکرات ہی سے کرے۔اس کا حق حکومت کو اے پی سی نے دے رکھا ہے۔ دوسرا یہ کہ معاملے کی باگ عمران خان اور سراج الحق صاحب کو تھما دے۔وہ جوچاہیں کریں۔ پشاور میں ایک ہفتے میں تین دھماکے ہو چکے۔ہر دوسرے دن دھماکہ۔یہ آواز اب مزید بلند ہو گی کہ حکومت اسی وقت متحرک ہو گی جب خاکم بدہن کوئی دوسرا صوبہ مقتل بنے گا۔جس دن یہ آواز پورے آہنگ سے اٹھے گی تو ممکن ہے ہم مشرقی پاکستان کو بھول جائیں۔اگر حکومت نے اب بھی کوئی فیصلہ کن اقدام نہ کیا تو جمہوریت کا مستقبل بھی خطرات میں گھر جائے گا۔جہاں جان و مال کا تحفظ نہ ہو وہاں جمہوریت محض عیاشی تصور ہوتی ہے۔ عیاشی کے حق میں پھر کوئی آواز نہیں ابھرتی۔ اس سے پہلے کہ لوگ مارشل لا کا مطالبہ کریں حکومت کو فیصلہ کرنا ہوگا۔غلط فیصلہ ابہام سے بہتر ہو تا ہے۔