ڈرون حملوں کا، کیا کوئی اخلاقی اور قانونی جواز موجود ہے؟ عالمی قوانین اس باب میں کیا کہتے ہیں؟ ڈرون حملوں نے پاکستان کو کیا دیا؟ کیا پا کستان کی کوئی حکومت یہ حق رکھتی ہے کہ ماورائے آئین، کسی دوسری حکومت سے کوئی معاہدہ کرے؟ محقق، کالم نگار اور ٹی وی اینکر آصف محمود کی کتاب ’’ڈرون حملے… عالمی قانون اور انسانی ضمیر کی عدالت میں‘‘ اس وقت میرے سامنے رکھی ہے جو ان تمام سوالات کو موضوع بناتی ہے۔ یہ کتاب خوش گوار حیرت کا باب وا کر رہی ہے۔ ہماری اردو صحافت میں فی الجملہ تحقیق اور جستجو کی روایت باقی نہیں ہے۔ ندرتِ خیال، فکرِتازہ، یہ سب مکروہات میں شامل ہیں۔ خیالات، حتیٰ کہ الفاظ بھی سالوں سے مسلسل دہرائے جا رہے ہیں۔ اس فضا میں ایسے نوجوان قلم کاروں کا وجود خوش گوار ہوا کا جھونکا ہے جن کے ہاتھ میں تیشہء تحقیق ہے اور وہ نئے خیالات اور معلومات کی نہر کھود رہے ہیں۔ وزیر اعظم کے دورہ امریکہ میں ڈرون حملے پاکستان کی خود مختاری کو درپیش ایک مسئلے کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ میرے نزدیک زیادہ بہتر ہوتا اگر اسے انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا مسئلہ بنا کر پیش کیا جاتا۔ اس حوالے سے پاکستان کا مقدمہ کہیں مضبوط ہوتا۔ سچ یہ ہے کہ پاکستان کی خودمختاری سے کسی کو زیادہ دل چسپی نہیں۔ کوئی جہاد کے نام پر اس کو پامال کر رہا ہے اور کوئی عالمی قوت ہونے کے نشے میں۔ یہ معاملہ بھی صرف ہمارے ساتھ خاص ہے کہ ان دونوں گروہوں کو اہلِ پاکستان کی حمایت حاصل ہے۔ کوئی بین الاقوامی جنگجوئوں کے ساتھ کھڑا ہے اور کوئی امریکہ کے ساتھ۔ جنہیں ڈرون حملوں میں پاکستان کی خود مختاری مجروح ہوتی نظر آتی ہے، اُنہیں وہ بندوق بردار دکھائی نہیں دیتے جنہوں نے پاکستانی سرحد کو پرِ کاہ کے برابر حیثیت دی ہے‘ نہ قانون کو۔ جنہیں یہ جنگجو دکھائی دیتے ہیں، وہ دانستہ امریکی ڈرونز سے نظریں چراتے ہیں اور انہیں حق بجانب سمجھتے ہیں۔ جس ملک کی خود مختاری کے بارے میں اس کے اپنے شہری یکسو نہ ہوں، اس کی خود مختاری سے دنیا کو کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟ انسانی حقوق کی خلاف ورزی، البتہ ایک ایسا مسئلہ ہے جسے دنیا سنجیدگی سے لے سکتی ہے۔ آصف محمود نے مغربی ذرائع ابلاغ اور ذمہ داران کے اعترافات پر مشتمل ایسے شواہد جمع کر دیے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان حملوں میں عام اور بے گناہ مرنے والوں کی تعداد مطلوب افراد کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ 3 مئی 2009ء کو لاس اینجلس ٹائمز میں چھپنے والے ایک مضمون کے مطابق، امریکی فوج کے مشیر برائے انسدادِ دہشت گردی و انتہا پسندی ڈیوڈ کلکلن David killcullen کی شہادت ہے کہ ایک مرحلے پر القاعدہ کے چودہ اہل کار مارے گئے لیکن اس کے ساتھ سات سو پاکستانی بھی قتل کیے گئے۔ سی این این کے تجزیہ کار پیٹر برجن اور افپاک چینل برائے امور خارجہ کی نائب مدیر کیتھرین ٹاڈمن کی تحقیق کا حاصل یہ ہے کہ ڈرون حملوں میں مرنے والے ساٹھ فی صد عام شہری ہوتے ہیں۔ بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کے سینئر فیلو ڈینیل بے مین نے جو لائی 2009ء میں ایک تحقیق کی جو بتاتی ہے کہ ان حملوں میں نوے فی صد عام شہری مارے جاتے ہیں۔ آصف صاحب نے ایسے بہت سے شواہد جمع کر دیے ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ ڈرون حملے انسانی حقوق کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ اہلِ مغرب کی یہی شہادتیں ہیں جن کی وجہ سے آج اقوامِ متحدہ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل بھی مجبور ہیں کہ ان حملوں کے خلاف آواز اٹھائیں۔ اسی سبب سے میرا یہ کہنا ہے کہ ڈرون حملوں کو اگر انسانی حقوق کا مقدمہ بنا کر پیش کیا جاتا تو یہ زیادہ اثر انگیز ہوتا۔ یہ حملے بین الاقوامی قانون کے بھی خلاف ہیں۔ ایسے قوانین کے تین ماخد ہوتے ہیں۔ بین الممالک معاہدے، رواج اور عمومی ضوابط۔ آج جسے بین الاقوامی انسانی قانون (International Humanitarian law) کہا جا تا ہے، اسلامی فقہ میں اسے آداب القتال کے عنوان سے بیان کیا جاتا رہا ہے۔ یہ قوانین ناطق ہیں کہ ڈرون حملے ان قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ مثال کے طور پر ’قوانین و رواج برائے جنگ برسر زمین‘ سے متعلق ’ہیگ قرارداد‘ میں کہا گیا ہے: ’’کسی آبادی پر کسی فردِ واحد کے کسی اقدام کی پاداش میں، جس میں اس آ بادی کو اجتماعی طور پر یا انفرادی طور پر ذمہ دار قرار نہ دیا جا سکتا ہو، کوئی اجتماعی تعزیر، چاہے مالی ہرجانے کی صورت میں ہو یا کسی اور شکل میں، عائد نہیں کی جائے گی‘‘ آصف محمود نے اپنی کتاب میں اس طرح کے بے شمار حوالے جمع کر دیے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ کتاب میں یہ بھی بتایا گیا کہ ڈرون حملوں کے بعد عالمی قوانین کا ابطال کرتے ہوئے، زخمی شہری طبی امداد سے محروم کر دیے جاتے ہیں، یہ بھی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ آصف قانون دان بھی ہیں۔ انہوں نے ایک باب اس سوال پر بھی باندھا ہے کہ پاکستان کی کوئی حکومت کیا یہ حق رکھتی ہے کہ وہ آئینِ پاکستان سے ماورا، کسی دوسرے ملک سے کوئی معاہدہ کر سکے؟ اس سوال کا جواب مکمل نفی میں ہے۔ اس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ موجودہ حکومت امریکہ سے، گزشتہ دور میں کیا گیا کوئی ایسا معاہدہ ختم کر سکتی ہے جو آئین کے خلاف ہے۔ ’واشنگٹن پوسٹ‘ کا انکشاف تو یہ ہے کہ یہ حملے پاکستان اور امریکہ کے مابین ایک مفاہمت کا نتیجہ ہیں اور پاکستانی ذمہ داران کو ان حملوں پر کلاسیفائیڈ بریفنگ دی جا تی تھی۔ یہ بات ظاہر ہے کہ وزیر اعظم کے علم میں ہو گی اور اس باب میں دفتر خارجہ نے انہیں معلومات فراہم کی ہوں گی۔ وزیر اعظم کے دورہ امریکہ کی جو تفصیلات میڈیا کی معرفت معلوم ہو سکی ہیں، ان کے مطابق ڈرون کا معاملہ اس حوالے سے زیرِ بحث نہیں آیا۔ اگر فی الواقعہ ایسا ہے تو میرے لیے باعثِ حیرت ہے۔ وزیر اعظم کو واضح کرنا چاہیے تھا کہ سابق حکومتوں نے اگر کوئی ایسا معاہدہ کیا بھی تو انہیں یہ قبول نہیں۔ نئے انکشافات کی روشنی میں اندازہ ہوتا ہے کہ ڈرون کا معاملہ اتنا سادہ نہیں‘ جتنا سمجھا جاتا ہے۔ حکومت اور میڈیا میں اسے مختلف حوالوں سے زیرِ بحث آنا چاہیے۔ آصف محمود کی کتاب بھی اس ضرورت کو نمایاں کر رہی ہے اور کسی صورت میں اس کا ازالہ بھی۔ اگر یہ خود مختاری کا مسئلہ ہے تو پھر یک طرفہ نہیں ہے۔ اگر پاکستان اپنی سرزمین کو ان غیرملکی جنگجوئوں سے خالی نہیںکرا سکتا جنہوں نے یہاں رہتے ہوئے امریکہ کے خلاف اعلانِ جنگ کر رکھا تو امریکہ سے ڈرون حملوں کو روکنے کا مطالبہ منوانا مشکل ہے؛ تاہم اسے انسانی حقوق کا مقدمہ بنایا جائے تو اس کے خلاف عالمی تائید حاصل کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح اسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے حوالے سے بھی دنیا کے سامنے رکھا جا سکتا ہے۔ امریکہ کو اس سے زیادہ دل چسپی نہیں کہ ان حملوں کے نتیجے میں دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس بڑھتی دہشت گردی کا ہدف امریکہ نہیں، پاکستان ہے۔ اگر پاکستانی مرتے ہیں تو اس کی روک تھام پاکستان نے کرنی ہے، امریکہ نے نہیں۔ میرا خیال ہے امریکہ نے بین السطور یہ بات ہمیں سمجھا دی ہے؛ تاہم اس طرح کے مسائل کی تفہیم کے لیے ہمیں مزید تحقیق اور جستجو کی ضرورت ہے۔ آصف محمود صاحب کی یہ کتاب اللہ کرے کہ اس جستجو کے لیے مہمیز کا کام کر ے۔