حکیم اللہ محسود کا مقدمہ اب سب سے بڑے منصف کی عدالت میں ہے۔اُن سب کا مقد مہ بھی وہیں ہے جو ان کے حکم یاپھر ان کے ہاتھ سے مارے گئے۔اس عدالت میں لاریب انصاف ہوتا ہے۔کوئی سفارش کام آتی ہے نہ رشوت۔سفارش تو دور کی بات، اُس کے حضور میں تو اذن کے بغیر کوئی کلام کرنے کی جسارت نہیں کر سکتا۔واقعہ یہ ہے کہ ہم سب کا معا ملہ بھی بالآخر اسی عدالت کے سامنے پیش ہو نا ہے۔زندگی کا یہ نظام مگر قائم ہے۔جب تک ہم اس کا حصہ ہیں ، ہمیں اس کے بارے میں سوچنا ہے۔ہمیں ہر حادثے کے اثرات پر بات کر نی ہے اور اگر توفیق ملے تو عبرت بھی حاصل کر نی ہے۔ اس حادثے کے بعد کم و بیش پوری قوم امریکہ کی مذمت میں یک زبان ہے۔حکیم اللہ نے اس قوم اور ملک کے ساتھ،اچھا یا برا، جو کچھ کیا، اس پر کہیں بات نہیں ہو رہی۔آئی ایس پی آر کے سابق ڈائریکٹر اطہر عباس صاحب کے سوا میں نے کوئی ایسی آواز نہیں سنی جو مقتول کو موضوع بناتی ہو۔سب قاتل کا ذکر کر رہے ہیں اور مذمت بھی۔سیاست دان، وزرا،علما، صحافی،سب مختلف اسالیب میںایک ہی بات کہہ رہے ہیں اور وہ ہے ’’امریکہ پاکستان کے حالات کی خرابی کا ذمہ دار ہے‘‘۔سوال یہ ہے کہ جس مقدمے میںکم و بیش اجماع ہے،اس کے بارے میں حکمت عملی ایک کیوں نہیں ہے؟ چلیے حکمت عملی میں اختلاف ہو سکتا ہے،ہم ہر فورم پر اس ایک موقف کا اظہار کیوں نہیں کرتے؟ اس تضاد سے ہم کب نکل پائیں گے؟ بھارت کے بارے میں، مثال کے طور پر،ایک ناقابلِ ذکر اقلیت کے سوا ،سب متفق ہیں کہ وہ پاکستان کا دشمن ہے،ہمیں اس کے شر سے خبردار رہنا چاہیے۔(اہلِ بھارت کی اکثریت بھی ہمارے بارے میں یہی رائے رکھتی ہے۔)اس اتفاق کے بعد اگر اختلاف ہے تو اس باب میں کہ بھارت سے معاملہ کیسے کیا جائے۔ کسی کے نزدیک براہ راست تصادم ہی حل ہے۔۔۔۔۔’’بھارت کا ایک ہی علاج۔۔۔الجہاد الجہاد‘‘۔کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ اس کے ساتھ تجارت کی جائے تاکہ اس کے مفادات آپ سے وابستہ ہو جائیں۔اس طرح بھی آپ اس کی شر سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ حکمتِ عملی کا یہ فرق قابلِ فہم ہے لیکن امریکہ کے باب میں معاملہ مختلف ہے۔ایک طرف سرکاری دوروں میں ہم امریکہ کو اپنا دوست کہتے اور مدد کے طالب ہوتے ہیں،دوسری طرف ہمارے وزراء کہتے ہیں کہ وہ مذاکرات کا عمل سبوتاژ کر رہا ہے۔ امریکہ کہتا ہے کہ میں پاکستان میں دہشت گردی کے مرتکب افراد کو مار رہا ہوں،آپ کو میرا شکر گزار ہو نا چاہیے۔آپ کہتے ہیں کہ’ثابت ہو گیا امریکہ پاکستان میں امن نہیں چاہتا‘۔ایک طرف آپ کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان اور امریکہ حلیف ہیں، دوسری طرف دہشت گردی کی تعریف میں اتفاق ہے نہ کسی فرد یا گروہ پر اس کے اطلاق میں۔ایک طرف ہمارے وزرا اور سیاست دان امریکہ کے خلاف نفرت پیدا کر تے ہیں اور دوسری طرف جب عوام ان کے خیالات سے متاثر ہو کر امریکہ کے خلاف نکلتے ہیں تو حکومت ان کا راستہ روکنے کے لیے نکل آتی ہے۔آخر ہم چاہتے کیا ہیں؟ طالبان اور القاعدہ کی ایک بات میرے نزدیک ہمیشہ قابلِ تعریف رہی ہے۔ان کے نقطہ نظر میں کوئی ابہام ہے نہ حکمت عملی میں،اس لیے انہیں جینے میں کوئی مشکل پیش آتی ہے نہ مرنے میں۔دوسری طرف ہمارا معا ملہ یہ ہے کہ جینا مشکل ہے اور مرنا بھی۔ہمارا کوئی نقطہ نظر ہے نہ کوئی حکمت عملی۔واقعہ یہ ہے کہ اہلِ سیاست میں لیڈر کوئی نہیں، سب سیاست دان ہیں۔عوامی جذبات سے ڈرے ہوئے اور عالمی قوتوں سے خائف۔کوئی ایک فرد ایسا نہیں جو ان دونوں کے خوف سے آزاد ہوتے ہوئے اپنے دل کی بات لوگوں سے کہہ سکے۔خود مختاری،باہمی احترام،امداد نہیں تجارت جیسے مبہم الفاظ ہیں جن کا سہارا لیا جا تا ہے۔لیڈر کہلا نے والے سیاست دان جب خود ہی واضح نہ ہوں تووہ قوم میں کیسے یک سوئی پیدا کر سکتے ہیں؟ میں حکومت اور ریاست کی مجبوریوں سے واقف ہوں۔سوال یہ ہے کہ ان کو سامنے رکھتے ہوئے بھی تو ایک قابلِ عمل حکمت عملی بنائی جا سکتی ہے۔اس دنیا میں کوئی خو د مختار نہیں۔امریکہ بھی نہیں۔لوگ اس حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے خارجہ پالیسی بناتے ہیں اور ایک توازن قائم رکھتے ہیں۔دنیا میں شاید ہی ایسا ہو کہ سیاست دان ایک ملک کے خلاف عوام میں نفرت پیدا کرتے ہوں اور پھر برسرِ اقتدار آکر اس سے دوستی بھی کر نا چاہتے ہوں۔ ڈرون حملوں ہی کو دیکھ لیجیے۔ایک بات طے ہے،امریکہ انہیں روکنے پر آ مادہ نہیں۔سوال یہ ہے کہ اب کیا کر نا چاہیے؟چند سوالات پر واضح موقف چاہیے۔کیا یہ دو ملکوں کا باہمی معا ملہ ہے؟ کیا یہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے؟کیا یہ پاکستان کی داخلی خود مختاری کے خلاف ہے؟ہر سوال کا جواب، جو بھی ہو، ایک حل کا تقاضا کرتا ہے۔ہم پر سوال ہی واضح نہیں اس لیے ہم جواب بھی نہیں دے پا رہے۔سادہ لفظوں میں ہم عسکریت پسندوں اور امریکہ کے معا ملے میں ابھی تک واضح نہیں ہیں اور میرا خیال ہے کہ اسی ابہام نے ہمیں یہ دن دکھائے ہیں۔ پاکستان اور بالخصوص مو جودہ حکومت اس حادثے کے بعد ایک نئے مخمصے میں مبتلا ہوگئی ہے۔طالبا ن کا جو ممکنہ ردِ عمل ہے، اس کو سامنے رکھیں تو اب مذاکرات نہیں ہو سکتے۔اگر امریکہ کا رویہ سامنے ہو تو اسے اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں کہ پاکستان کا مفاد کیا ہے اور اس کی حکومت کیا چاہتی ہے۔ ڈرون تو جاری رہیں گے۔عمران خان اگر اپنے ا علان کے مطابق نیٹو سپلائی روکتے ہیں توایک نیا مسئلہ کھڑا ہو جا ئے گا۔میرا خیال ہے کہ اس مخمصے سے نکلنے کے لیے حکومت کو یکسو ہو نا پڑے گا اور اس کی پہلی شرط انتشارِ فکر سے آزادی ہے۔موقف واضح ہوگا تو کوئی حکمت عملی بنے گی۔ معلوم نہیں،اب اس تاخیر کی تلافی ہوسکے گی یا نہیں جو اس معا ملے میں ہو چکی؟ اس حادثے کے بعد طالبان کو بھی سوچنا ہے کہ انہیں کیا کر نا چاہیے؟ان کے لیے تین سوال بنیادی ہیں، اگر وہ غور پر آ مادہ ہوں۔اس جنگ میں انہوں نے بہت سے افراد کو کھو دیا اور اس قوم نے بھی۔کیا اس کا کوئی نتیجہ نکل سکا یا اس کا کوئی امکان ہے؟اس حکمت عملی نے پاکستان کو کیا دیا، وہ پاکستان جہاں ستانوے فی صد آبادی مسلمان ہے اور آج خوف کے سائے میں زندہ ہے؟ دشمنوں کے خلاف اس جذبہ مزاحمت کو کیا کوئی اور رخ دیا جا سکتا ہے جس میں جاں کا ضیاع کم ہواور کوئی مثبت نتیجہ بھی نکل سکے؟ اگر انہیںاسلام اور مسلمانوں کا مفاد عزیز ہے توانہیں ان سوالات پر ضرور سوچنا چاہیے۔ پاکستان آج جس مشکل میں ہے،ایک ٖغیر معمولی کوشش اور سوچ ہی اسے اس مشکل سے نکال سکتی ہے۔یہ اوسط ذہنی سطح اور کم ہمت لوگوں کا کام نہیں۔حکیم اللہ اپنے رب کے حضور پہنچ چکے۔ ہمیں بھی جاناہے۔ہم سب کے لیے سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنے کاموں کے لیے کوئی جواز ،کوئی عذر رکھتے ہیں جواللہ کے حضور میں پیش کیا جاسکے؟ہر موت زندہ رہ جانے والوں کے لیے یہ سوال چھوڑ جاتی ہے۔