لیڈر مسئلے کا نہیں ،حل کا حصہ ہوتاہے۔یہ بات مگر عمران خان کو کون سمجھائے؟ہمیشہ برہم رہنے والا آ دمی حکمت کے ساتھ فیصلہ نہیں کر سکتا اور پھر اس پر مستزاد شیریں مزاری کی مشاورت... نور علیٰ نور!
ہر مسئلہ حل طلب ہو تا ہے۔کوئی کم اہم نہیں ہو تا۔انسان مگر ترجیحات کا تعین کرتا ہے۔عام انسان کیا، اللہ کے پیغمبر بھی یہی کرتے تھے کہ انہیں عام انسانوں کے لیے ایک اسوہ دینا ہوتا ہے،اسوہ ء حسنہ۔کامل ترین اسوہ اللہ کے آخری رسول محمد ﷺ کا ہے۔سیرتِ پاک کے تئیس برس جس حکمت عملی سے عبارت ہیں، اُن میں سرِ فہرست ترجیح کا تعین ہے۔غلامی اورسود سے کون ہے جو اسلام سے بڑھ کر نفرت کرتا ہو گا لیکن انہیں آ خری وقت تک گوارا کیا۔اس حکمت سے ام المو منین سیدہ عائشہؓ نے پردہ اٹھایا کہ پہلے ہی دن پاک دامنی پر اصرار کیا جاتا تو کوئی آ مادہ نہ ہوتا (مفہوم)۔انسانی تاریخ سے بیسیوں مثالیں دی جاسکتی ہیں مگر اس اُسوہ کے بعد کیا کسی اورمثال کی ضرورت باقی ہے؟
ڈرون حملے یقیناً ایک مسئلہ ہیں لیکن کیا اس وقت یہ پاکستان کا سب سے اہم مسئلہ ہے؟ میں اس سوال کا جواب اثبات میں نہیں دے سکتا۔آج پاکستان کا سب سے اہم مسئلہ امن ہے۔ بدامنی نے اس سماج کو غربت اور افلاس کے حوالے کر دیا ہے۔لوگ ذہنی مریض بن چکے ہیں۔ زندگی اُن کے لیے جبرِ مسلسل ہے۔آسودہ حالوں کے مشورے سر آنکھوں پرمگر مایوسی ہے کہ بڑھتی جا رہی ہے۔اس وقت فکری، سیاسی اور سماجی قیادت پر فائز لوگ اگر سوچ سکیں تو امن کے لیے متحد ہو جائیں۔ سماج کو اضطراب اور بے یقینی سے نکا لنا اس وقت سب سے اہم ہے کہ اسی سے امن کا دروازہ کھلے گا۔ احتجاج کی سیاست نے نظام ِ زندگی کو مفلوج کر دیا ہے۔کوئی مذہب کے نام پر احتجاج کر رہا ہے اور کوئی سیاست کے نام پر۔اگر ایک عام آدمی کو گھر پہنچنے کے لیے سو روپے کا ایندھن چاہیے تو اس احتجاج نے اس کو دوسو روپے تک پہنچا دیا ہے۔اب وہ آدھ گھنٹے کے بجائے ایک گھنٹے میں گھر پہنچتا ہے۔جو کوئی عام آ دمی کے اس عذاب میں اضافہ کرتا ہے، وہ اس کا دوست ہے یا دشمن؟لوگوں کو اب اس کا فیصلہ کر نا ہے۔ہر مذہبی راہنما،ہر سیاسی لیڈر جذبات کا سوداگر ہے۔کیا ان ہی کی پیروی پر اصرار کیا جائے گا؟
عمران خان کے بچے اس صورت حال سے متاثر نہیں ہیں کہ بر طانیہ کے پُر تعیش ما حول میں پروان چڑھ رہے ہیں۔وہ نہیں جانتے ہوں گے کہ احتجاج کس چڑیا کا نام ہے؟ہڑتال کیا ہوتی ہے؟وہ تو چھٹیاں گزارنے پاکستان آتے ہیں جب بر طانیہ کی خوب صورت فضائیں برف میں چھپ جاتی ہیں اور پاکستان کا حسن بے نقاب ہو تا ہے۔امن دراصل اس بچے کی ضرورت ہے جو سارا دن مکئی کے بھٹے بیچتا ہے۔جو سکول کے باہر ٹھیلا لگاتا ہے۔جو سکول کے اندر کتاب کھولے،باہر بلند ہونے والے نعرے سنتا اوراپنے مستقبل کے بارے میں خدشات میں گھر جاتا ہے۔امن اس مزدور کی ضرورت ہے جس کا ایک دن بے روزگاری میں گزر جائے تو فاقہ اس کے گھر پہنچ جاتا ہے۔ کیا کسی کی ترجیحات میں ان بچوں اور مزدوروں کا بھی کوئی گزر ہے؟
ڈرون حملوں کے باب میں یہ بات بھی میری سمجھ میں نہیں آتی کہ کیا اس کے ذمہ دار پاکستانی عوام ہیں؟کیا وہی سزا کے مستحق ہیں؟یہ قوم شاید دنیاکی سب سے بے بس مخلوق ہے جسے امریکی ڈرون مارتے ہیں اوراگر ان سے بچ جائیں تو راہنماؤں کی سیاست پر قربان ہو جا تے ہیں۔ اگر یہ طے ہے کہ ڈرون حملوں کا مقصد طالبان کے ساتھ مذاکرات کو سبوتاژ کرنا اور نتیجتاً پاکستان کو بد امنی کے حوالے کر نا ہے تواس کا منطقی علاج کیا ہو نا چاہیے؟اگر طالبان بھی یہ خیال کر تے ہیں کہ یہ امریکہ کی سازش ہے تو ان کا طرزِ عمل کیا ہو نا چاہیے؟اگر یہ مقدمہ درست ہے کہ امریکہ پاکستان میں بد امنی پھیلانا چاہتا ہے تو طالبان اور عمران خان کیا کررہے ہیں؟ کیا وہ امریکہ کے مقاصد ہی کی بالواسطہ آبیا ری نہیں کرر ہے؟ امریکہ تو غیر ہے اور اس پر ہمارا بس نہیں چلتا‘ کیا 'اپنوں‘ پہ بھی ہمارا بس نہیں چلتا؟عمران خان، سید منور حسن اور ان کے ہم خیالوں کا نقطہ نظر یہ ہے کہ طالبان ہمارے اپنے ہیں۔ان پر فوج کو گولی نہیں چلانی چاہیے۔اس کے بعد تو یہ چاہیے تھا کہ عمران خان جیسے لوگ 'اپنوں‘ سے با ت کرتے کہ آؤ مل کر امریکہ کی سازش نا کام بنائیں اور پاکستان کو امن کا گہوارہ بنا دیں۔لیکن عملاً انہوں نے کیا کیا؟ امریکہ کے ڈرون کا ایک نے جواب یہ دیا کہ وہ پاکستان کے عوام اور فوج کو نشانہ بنا رہے ہیں۔عمران خان کا جواب یہ ہے کہ یہاں معیشت کا پہیہ جام کیا جائے اور ملک کو ایک نئے بحران کے حوالے کر دیا جائے۔اگر یہ حب الو طنی کا بحران نہیں تو بصیرت کا بحران ضرور ہے۔آخر پاکستان اور اس کے عوام کی فلاح و بہبود کسی کے پیشِ نظر کیوں نہیں؟
لاریب، اس وقت پاکستان کا دوست وہی ہے جو اس سرزمین کے لیے امن کا پیام بر بن سکے۔جو اس ملک میں بسنے والوں کو اضطراب سے نکال سکے۔بد قسمتی سے یہ کام کوئی نہیں کر رہا۔ ہر کوئی پاکستان کو فساد کا گھر بنا نے پر تلا ہے اور سب کی پوری کو شش ہے کہ اسے ایک ناکام ریاست بنا دیا جائے۔ فکرونظر کا یہ بحران اتنا تکلیف دہ ہے کہ ہر امید دم تو ڑنے لگتی ہے۔اگرجادو کی کوئی حقیقت ہو تی تو میں یہ تو جیہہ کر کے مطمئن ہو جا تا کہ اس ملک پر آ سیب کا سایہ ہے۔معلوم ہو تا ہے لوگوں نے طے کر رکھا ہے کہ دل و دماغ کی وادیوں میں حکمت اور بصیرت کا داخلہ بند رہے گا۔جس امریکہ کے خلاف ہنگامہ ہے،نہ صرف یہ کہ اس کو کوئی تکلیف نہیں بلکہ اس کی سزا بھی پاکستان کو دی جا رہی ہے۔ایسے نادان دوست تو پریم چند کے افسانے ہی میں دکھائی دیتے ہیں۔
ڈرون حملے ہمارا ایک مسئلہ ہے۔ کوئی شبہ نہیں کہ اس مسئلے کو حل ہو نا چاہیے۔لیکن مسائل اور بھی بہت سے ہیں۔ اس وقت ہمیں اپنی ترجیحات کا تعین کر نا ہے۔یہ فکری اور سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس باب میں قوم کی راہنمائی کرے۔اپوزیشن کا معاملہ تو واضح ہے کہ اس نے عوام کے جذبات سے کھیلنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔یہاں تک کہ اب پیپلزپارٹی بھی ڈرون ڈرون کرنے لگی ہے۔ اس سے اپوزیشن کے اخلاص کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا حکومت کے پاس بھی ترجیحات کی کوئی فہرست ہے؟ کیا اس کا بھی کوئی سیاسی مقد مہ ہے؟کیا اس نے بھی اپوزیشن کی پچ پر کھیلنے کا فیصلہ کر لیا ہے؟میرے پاس ان سوالات کے جواب نہیں ۔میرے خیال میں اگر امریکہ پاکستان میں بد امنی چاہتا ہے تو اس کا ایک جواب ہے۔ ساری قوم، تمام سیاسی جماعتیں، سول سوسائٹی کے نمائندے،علما، سب جمع ہو جائیں اور اعلان کریں کہ ہم مل کر امریکی سازش کو ناکام بنائیں گے۔ کچھ بھی ہو جائے، اب یہاں کوئی جلوس نہیں نکلے گا۔ کوئی احتجاج نہیں ہوگا۔ہم حکومت پر تنقید کریں گے‘ ہم اپنا مو قف پیش کریں گے ؛لیکن کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائیں گے جس سے ملک میں بد امنی پیدا ہو، اضطراب جنم لے، معیشت کا پہیہ چلنے نہ پائے۔جو اس کے بر خلاف کام کرے گا،ہم یہ سمجھنے پر مجبور ہوںگے کہ وہ امریکہ کا ساتھی اور اس کی سازش کااگر دانستہ نہیں تو نادانستہ حصہ ہے۔میں نیٹو سپلائی کے خلاف ،آج کے احتجاج کو اسی پیمانے پر پرکھوں گا۔