فکری افلاس تو تھا ہی،اب فکری دیانت کا بحران بھی درپیش ہے۔فرقہ وارانہ منافرت سراسر مسلم سماج کا داخلی مسئلہ ہے۔مجھے حیرت ہوتی ہے جب فرقوں کے روح ورواں ٹیلی وژن کی سکرین پر نمودار ہوتے اور ہمیں خبر دیتے ہیں کہ پاکستان میں کوئی شیعہ سنی اختلاف نہیں،یہ دراصل مسلمانوں کے دشمن کی سازش ہے۔اہلِ دانش اُن کی مدد کو آتے اور کمک فراہم کرتے ہیں کہ ماضی میں اُس دشمن کا نام انگریز تھا،آج امریکا ہے۔میں علیٰ وجہ البصیرت عرض کر تا ہوں کہ اس سے بڑا مغالطہ کوئی نہیں اور شاید مسئلے کے حل میں یہی سب سے زیادہ حائل ہے۔تشخیص ہی غلط ہو تو علاج کیسے ممکن ہوگا؟
مسلمانوں میں نہ صرف مسالک مو جود ہیں بلکہ فرقے بھی ہیں۔اِن سے وا بستہ علما کی اکثریت دوسرے کورعایتاً یا مصلحتاً مسلمان مانتی ہے۔اُن کے فہمِ دین میں اس سے زیادہ کی گنجائش نہیں۔ایک گروہ نے اس باب میں اتنی شدت اختیار کی کہ دوسرے کے خلاف تلوار اٹھالی۔اگر دوسراابھی اس درجے تک نہیں پہنچا تو فتوے کی تلوار بہر حال اس نے بھی تھام رکھی ہے۔میں دینی تحریکوں اور دینی صحافت کا ایک عرصے سے طالب علم ہوں۔مختلف مدارس اور مسالک کے نمائندہ جرائد باقاعدگی سے میری نظر سے گزر تے ہیں۔ان کے مطالعے کی بنیاد پر میں اطمینان کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ متحدہ مجلس عمل ہو یاملی یک جہتی کونسل یا اس عنوان سے وجود میں آنے والا کوئی اتحاد،یہ مذہبی گروہوں کے سیاسی یا سماجی مفادات کا تقاضا ہوتے ہیں۔اصلاً ان کے مابین اختلافات ایسے ہیں کہ ایک گروہ دوسرے کو قبول کرنے پر آ مادہ نہیں۔جماعت اسلامی جیسی ایک آدھ جماعت اس سے بلند تر ہے لیکن چو نکہ مو لانا مودودی دین کی تفہیم و تشریح کے باب میں منفردآرارکھتے تھے،اس لیے کوئی روایتی مذہبی گروہ انہیں قبول کرنے پر آ مادہ نہیں۔قبولیت تودورکی بات،وہ ان کی آرا کو بنیادی دینی تعلیمات سے انحراف قرار دیتے ہیں۔ مذہبی اختلاف کے باب میں اتنا لٹریچرموجود ہے کہ صرف 'کتابیات‘ کے لیے ایک کتاب چاہیے۔جس آ دمی کی اس لٹریچر پر نظر ہو،وہ فرقہ واریت کو اغیار کی سازش قرارنہیں دے سکتا۔
زیادہ افسوس ناک یہ ہے کہ جو علما ٹیلی وژن چینلز پر یہ مقدمہ پیش کرتے ہیں، خود ان کی جماعتیں اور مدارس بالکل مختلف بات کہہ رہے ہوتے ہیں،اسی لیے میں اسے فکری دیانت کا بحران کہتا ہوں۔اِس وقت میرے سامنے لاہور کی ایک معروف دینی درس گاہ کے دارالافتاء کا فتویٰ رکھا ہے۔یہ پرانا نہیں،صرف چارماہ پہلے 8 جون 2013ء کوجاری ہوا۔ پہلے استفتا ملا حظہ کیجیے اور پھر جواب۔ اس میں یہ سوال پوچھا گیا تھا کہ فلاں فرقے کی لڑکی کا فلاں فرقے کے لڑکے سے نکاح جائز ہے؟اس حوالے سے یہ شرعی راہنمائی فرمائی گئی کہ لڑکے کے فرقہ کے عقائدقرآن و سنت کے خلاف ہیں اور یہ لوگ بد مذہب ہیں اور بد مذہبوں سے نکاح جائز نہیں‘‘۔یہی نہیں فتویٰ میں ایک حدیث کا مصداق ان مسالک کو قراردیا گیاہے جن کے ساتھ کھانے پینے اور نکاح سے منع کیا گیا ہے۔یہ صرف ایک فتویٰ نہیں، ہر روز ایسے فتاویٰ جاری ہوتے ہیں اور اِس میں کسی مسلک کا کوئی استثنا نہیں۔یہ علما امریکہ کے مخالف اور ڈرون حملوں کے شدیدخلاف ہیں۔میں یہ کیسے مان لوں کہ یہ سارے فتوے امریکہ کے ایما پر جاری ہوتے ہیں؟
یہی معاملہ تاریخ کا بھی ہے؟بنو ہاشم کے ساتھ بنو امیہ کا سلوک کیا انگریزوں کے کہنے پر روا رکھا گیا؟ مختار ثقفی نے کیا لارنس آف عریبیہ کے ایما پر انتقامِ اہلِ بیت کا عَلم اٹھا یا اوران گنت لوگوں کو تہہ تیغ کیا؟1979ء کے انقلابِ ایران کے بعد بر صغیرکے بڑے علماء نے جو کچھ لکھا،اُس کے بارے میں کم از کم میں یہ باور نہیں کر سکتا کہ وہ امریکہ کے کہنے پر لکھا گیا۔اس سرزمین پر کون ہے جو مو لانا سید ابوالحسن علی ندوی یا مو لا نا منظور نعمانی کے بارے میں یہ گمان کر سکتا ہے کہ انہوں نے کسی غیر کے ایما پر کبھی قلم اٹھا یا ہوگا؟ ان کی رائے سے اختلاف تو ممکن ہے لیکن اُن کی دیانت پر شبے کاکم از کم میں حو صلہ نہیں کر سکتا۔یہ بات قرینِ قیاس ہے کہ مسلم سماج کے تضادات سے اغیار نے فائدہ اٹھا یا ہو لیکن میرے لیے بقائمی ہوش و حواس یہ ماننا مشکل ہے کہ فرقہ واریت کا ماخذ خارج میں ہے۔جب تک ہم اس بنیادی حقیقت کا اعتراف نہیں کر لیتے،ہم مسلم سماج کو اس اذیت سے نجات نہیں دلا سکتے جو فرقہ واریت کے عنوان سے اُس پر مسلط ہے۔
مسلمانوں میں فرقے بھی ہیں اور مسالک بھی۔ان کی مو جودگی صدیوں پرانی ہے۔فرقہ بندی کی بنیاد سیاسی اختلاف ہے۔ ابتدا میں مسلمانوں نے کسی سیاسی معاملے میں اختلاف کیاا وراگر عصری لغت میں کلام کروں توپھر ہم خیال لوگوں نے اپنی سیاسی جماعت بنا لی۔پہلے یہ جماعت کسی فرد سے منسوب ہوئی جیسے شیعانِ علی۔ عربی میں' شیعہ ‘گروہ کو کہتے ہیں۔ بعد میں اپنا امتیاز قائم رکھنے کے لیے ایک مذہبی تعبیر وجود میں آ گئی۔دوسرا اختلاف فہم کا ہے۔قرآن اور سنت کو سمجھنے میں مسلمانوں نے ایک دوسرے سے اختلاف کیا ۔یہ اختلاف عہدِ صحابہ میں بھی موجود تھا،یہ فطری ہے۔جب تک اسے فطری سمجھا گیامسلمان سماج علمی طور پر ترقی کر تا رہا۔تفسیر، علمِ حدیث ، فقہ،کلام اور فلسفۂ اسلامی کا شاندار علمی ذخیرہ وجود میں آیاجس پر ہم بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں۔ان علوم میں بہت سے نقطہ ہائے نظر سامنے آئے اور اختلاف کے باوجود سب کو گوارا کیا گیا۔جب مسلمان سماج زوال کا شکار ہوا تو اس نے پورے معاشرے کا احاطہ کر لیا۔زوال کبھی ایک شعبۂ حیات تک محدود نہیں رہتا۔زوال کی ایک علامت یہ ہوتی ہے کہ مختلف شعبہ ہائے زندگی کی قیادت دوسرے اور تیسرے درجے کے افراد کو منتقل ہو جاتی ہے۔ جب یہ معاملہ اسلامی علوم کے ساتھ ہوا تو اندھی تقلید نے جڑ پکڑی اورشدت پسندی نے جنم لیا۔پھر جس نے فہم کا اختلاف بھی کیااسے بد مذہب قرار دے دیا گیا۔زوال کا یہ دور آج تک جاری ہے اورہم اسی سے گزر رہے ہیں۔
آج یہ ایک سماجی مسئلہ ہے کیو نکہ اس نے ہمارے امن کو برباد کر دیا ہے۔1979ء سے پہلے ایسا نہیں تھا۔اس سے پہلے فرقے اور مسالک کم ازکم سماج میں ایک دوسرے کو گوارا کرتے تھے۔اختلاف کی بنیاد پر جان لینے کا رواج نہیں تھا۔اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی علما سیاست ومعاشرت میں زیادہ سرگرم نہیں تھے۔سیاست جب مذہب سے غیرفطری طور پر وابستہ ہوئی تو اہلِ مذہب کا رسوخ بڑھا اور پھر فہم کا اختلاف گوارا نہ ہوا۔ بد قسمتی یہ ہے کہ ریاست کے ذمہ داران اس کی اصلیت سے واقف نہیں۔ وہ ہر واقعے کو ایک منفرد حادثہ سمجھتے اور حل تلاش کر تے ہیں۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آئے دن ایسے حادثات جنم لیتے ہیں۔میرے خیال میں اصلاحِ احوال کے لیے چارکام ناگزیرہیں:
1۔ مذہبی سرگرمیوں کی تنظیم ریاست اپنے ہاتھ میں لے۔
2۔مسلک کے نام پر سیاسی جماعت کی تشکیل ممنوع ہو۔
3۔ مذہبی تعلیم کی تشکیل نو کی جائے اوراسے مسلکی کے بجائے دینی بنایا جائے۔تمام مدارس کاایک نصاب ہوتاہم کسی خاص مسلک میں تحصیص کی اجازت ہو۔ مثالی طریقہ تو یہ ہے کہ اعلیٰ ثانوی درجے تک ایک تعلیمی نظام ہو۔ اس کے بعد جس طرح طب، انجینئرنگ وغیرہ میں تخصص ہوتا ہے، ویسے ہی لوگ علمِ دین میں بھی مہارت حاصل کریں۔
4۔ ریاست اپنے مفاد کے لیے مذہبی جذبات کا استحصال نہ کرے۔
ان اصلاحات کے لیے لازم ہے کہ اس معاملے کو اب پارلیمنٹ میں زیرِ بحث لا یا جائے۔اسے علما کے ہاتھ میں دینے کا مطلب مسلکی تقسیم کی حو صلہ افزائی ہے۔اس کی وجہ میں نے بیان کر دی ہے۔