"KNC" (space) message & send to 7575

ایک سنجیدہ بحث

سماجی ارتقا اور اقتدار کی سیاست (Power Politics) ... اہل سیاست کو کہیں تو لکیر کھینچنا ہو گی۔ مغرب کا تجربہ ہمارے سامنے ہے۔ کیا حرج ہے اگر اس سے کچھ سیکھ لیا جائے۔
جمہوری انقلاب کے بعد مغرب سیاسی عدم استحکام کے دور سے نکل آیا ہے۔ وہاں تہذیبی ارتقا جاری ہے اور اس کے مظاہر ہم آئے دن دیکھتے ہیں۔ ان کے لیے غوروفکر کے موضوعات بالکل دوسرے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری اور ان کی سماجی ضروریات مختلف ہیں۔ اس کا سبب سیاسی استحکام ہے۔ سیاسی نظام کے باب میں مغربی سماج نے کچھ اقدار پر اتفاق رائے پیدا کر لیا۔ میں اپنی اصطلاح میں بیان کروں تو اجماع ہو گیا۔ سب سے بڑا اور اہم اتفاق یہ ہے کہ انتقال اقتدار جمہوری طریقے سے ہو گا۔ یہ طے ہو گیا کہ انتخاب بالغ رائے دہی کے اصول پر ہو گا اور ایک خاص مدت کے بعد ہو گا۔ امریکہ ہو یا برطانیہ، برسوں گزر گئے، اس اصول سے انحراف نہیں ہوا۔ جنگ اس کو متاثر کر سکی نہ سونامی۔ اس کا فائدہ سماج کو ہوا کہ وہ مستحکم ہو گیا۔ اب سماجی اداروں کا ارتقا جاری ہے اور ساتھ معاشی استحکام بھی ہے۔ مغربی انداز نظر میں موجود مابعدالطبیعیاتی کمزوریوں کے باوصف، ایک عام شہری آنے والے کل کے بارے میں زیادہ خوفزدہ نہیں ہے۔ وہ زندگی اور بھوک کے خوف میں مبتلا نہیں، باوجود اس کے کہ وہ اس مادی زندگی ہی کو حتمی مانتا ہے۔
ریاستی استحکام کی نشانی یہ ہے کہ لوگوں کو امن نصیب ہوتا ہے اور وہ بھوک کے خوف سے نکل آتے ہیں۔ یہ میں نہیں اﷲ کا آخری الہام کہتا ہے۔ اہلِ مغرب کو یہ دونوں نصیب ہیں۔ مادی عدم مساوات وہاں بھی ہے اور وہ انسانی سماج میں کبھی ختم نہیں ہوتی۔ یہ اشتراکی افسانہ ہے جس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ اصل بات وہی ہے کہ شہری کو امن میسر ہو اور وہ بھوک کے خوف میں مبتلا نہ ہو۔ میں اس کا تمام تر کریڈٹ سیاسی استحکام کو دیتا ہوں اور یہ صرف جمہوریت کا تحفہ ہے۔ وہی جمہوریت جس کی مذمت صبح و شام ہمارا وظیفہ ہے۔ جمہوریت پر اجماع نے اہلِ مغرب کو سیاسی استحکام دیا۔ اس کے بعد سماجی ارتقا کا راستہ روکا نہیں جا سکتا۔ اس کا نتیجہ اہلِ مغرب کا تخلیقی وفور ہے۔ کائنات کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھ رہا ہے اور ایجادات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری ہے۔ یہ تخلیقی عمل سیاسی تبدیلیوں سے بے نیاز ہو چکا۔ اب اوباما امریکہ کے صدر ہوں یا بش‘ براؤن برطانوی وزیرِ اعظم ہوں یا کیمرون، سماجی و نظری ارتقا کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ جاری ہے اور اسے روکا نہیں جا سکتا۔ اس کا ایک واضح نتیجہ ہے۔ جس سماج کی تخلیقی قوت بروئے کار آتی رہے، اس کو زوال نہیں آ سکتا۔ انسانی ذہن نئے راستے نکالتا اور یوں اپنی بقا کو یقینی بناتا ہے۔ اس ساری بحث کا ایک ما بعدالطبیعیاتی پہلو بھی ہے، جسے ہم اﷲ کی سنت کہتے ہیں۔ اس کے تحت بعض الٰہی فیصلے اخلاقی رویوں کے تابع ہوتے ہیں، لیکن اس وقت یہ میرا موضوع نہیں۔
پاکستان سمیت تیسری دنیا کا دانشور یہ بات سمجھ سکا ہے‘ نہ سیاست دان۔ دانشور کے بارے میں میرا کہنا تو یہ ہے کہ ہمارے سماجی تناظر میں یہ ایک ایسا اسم ہے جس کا کوئی مسمیٰ نہیں۔ الاماشاءﷲ۔ اب ہم کالم نگاروں کو دانشور سمجھتے ہیں یا ٹی وی اینکرز کو۔ ان میں بھی یہ جنس پائی جا سکتی ہے لیکن ان تک محدود نہیںکی جا سکتی۔ سیاست اور دانش میں چونکہ ایک مدت سے طلاقِ بائن ہو چکی ہے، اس لیے سیات دانوں یا حکمرانو ں کو بھی جب دانش کی طلب ہوتی ہے‘ وہ کالم نگاروں سے رجوع کرتے ہیں یا ٹی وی اینکرز سے۔ اس کا حاصل ہمارے سامنے ہے۔ سیاسی جماعتوں کے منشور اور حکومتی حکمتِ عملی، دونوں میں اگر کسی کو چٹکی بھر دانش مل جائے تو مجھے ضرور خبر کرے۔
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اہلِ سیاست کی تمام تر حکمتِ عملی احتجاجی ہے۔ وہ سیاسی استحکام اور اقتدار کی سیاست (power politics) میں فرق نہیں کرتے۔ ان کی ہر مہم پاکستان میں عدم استحکام کا باعث ہے۔ سیاسی افراتفری کا ناگزیر نتیجہ اقتصادی عدم استحکام ہے۔ اس سے سماجی سطح پر بے پناہ توڑ پھوڑ ہوتی ہے۔ ہر طرح کا ارتقا رک جاتا ہے اور معاشرے کی تخلیقی قوت بروئے کار نہیں آتی۔ پاکستان برسوں سے اس المیہ کا شکار ہے۔ ہم اگر اپنی تاریخ پر نظر ڈالیں تو چند اہداف ایسے ہیں جنہیں ہم نے اقتدار کی کشمکش سے بے نیاز ہو کر حاصل کیا۔ ان میں ہماری کارکردگی متاثر کن ہے۔ بدقسمتی سے بعض سیاست دانوں نے انہیں بھی سیاسی کشمکش کی نذر کرنے کی کوشش کی لیکن ریاستی اداروں میں مو جود چند صاحبانِ نظر کی موجودگی نے ایسے قومی منصوبوں کو بربادی سے محفوظ بنا دیا۔
ایک گول میز کانفرنس کیا اس موضوع پر ہو سکتی ہے؟ اہلِ سیاست مل بیٹھیں اور یہ طے کریں کہ وہ اقتدار کی کشمکش کو سیاسی ارتقا سے الگ رکھیں گے؟ میرا خیال ہے یہ وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ ایسی احتجاجی سیاست سے توبہ کی جائے جو روزمرہ زندگی کو متاثر کرے۔ دنیا بھر کی طرح، آج پاکستان کے کسی بڑے شہر میں اگر ٹریفک چند منٹ کے لیے رک جائے تو بلامبالغہ ہزاروں لوگ عذاب میں گرفتار ہو جا تے ہیں۔ اس رجحان کو روکنا چاہیے۔ ہر شہر میں جلسے جلوسوں کے لیے کوئی جگہ مختص کر دی جائے جیسے لندن کا ہائیڈ پارک ہے۔ مذہبی یا غیرمذہبی، ہر اجتماع وہاں ہو اور معمول کی زندگی کو متاثر نہ کیا جائے۔ یہ تو محض ایک تجویز ہے۔ اس باب میں ایک ضابطہ اخلاق مرتب کیا جا نا چا ہیے۔ احتجاج ہمارے ہاں اب ایک سماجی رویہ ہے۔ یہ انسانی ذہن کے تخلیقی ارتقا کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اگر انسان کو یہ معلوم ہو کہ ایک راستہ بند ہے اور دوسرا راستہ اسے خود دریافت کرنا ہے تو اس کی نفسیاتی ساخت ایک اور طرح کی ہو گی۔ اگر وہ بند راستے پہ رک جائے گا اور اسے کھولنے کے لیے احتجاج کرے گا تو ایک دوسری نفسیات وجود میں آئے گی۔ ہماری نفسیات یہی ہے۔ ہمیں اس سے نکلنا ہے۔ اس کے لیے ضرورت ہے کہ سیاست اور دانش میں پھر سے ایک تعلق قائم ہو۔ میڈیا اور دوسرے رائے ساز ادارے اس حوالے سے قوم کی شعوری تربیت کریں۔ یوں سماجی ارتقا اور اقتدار کی کشمکش میں ایک لکیر کھینچ دی جائے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں