"KNC" (space) message & send to 7575

پیپلزپارٹی اور اسٹیبلشمنٹ

مظلومیت اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ تشخص... بلاول بھٹو زرداری کی تقریر سے اندازہ ہوا کہ پیپلزپارٹی کی دکان پرابھی تک یہی مال برائے فروخت رکھا ہے۔کوئی اس کی قیادت کو بتائے کہ اس جنس کا خریدار اب کوئی نہیں ہے۔بازارِ سیاست کاماحول بدل چکا۔پھر یہ کہ پیپلزپارٹی کی دکان اب اس سے خالی ہے۔ 2008ء کے انتخابات میں یہ سب کا سب بک چکا اور اچھے داموں۔سیاسی مال کسی رہائشی پلاٹ کی فائل تو نہیں جو بار بار بکتی رہے۔
پیپلزپارٹی ہماری اسٹیبلشمنٹ کا ہدف تھی۔اس میں کوئی شبہ نہیں۔اس جماعت کو ختم کرنے کے لیے جو کیا جا سکتا تھا، وہ کیاگیا۔بطورِ خاص،5جولائی 1977ء سے شروع ہونے والی ایک ان کہی داستان یہی بتارہی ہے‘ لیکن آج یہ ایک قصۂ پارینہ ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اور پیپلزپارٹی دونوں ارتقائی مراحل سے گزرے ہیں۔ ایک طرف ریاستی اداروں نے خود کو تدریجاً اقتدارکی کشمکش سے الگ کیا اور دوسری طرف پیپلزپارٹی نے ان کے سیاسی کردار کو ایک حقیقت کے طور پر قبول کیاہے۔بے نظیر صاحبہ نے جنرل (ر) اسلم بیگ کو تمغۂ جمہوریت سے نوازا تو یہ اسی کا اظہار تھا۔پھر این آر او پر دستخط اور بالآخر زرداری صاحب کاپا نچ سالہ دورِ اقتدار۔ دوسری طرف دیکھیے تو 2008ء تک، انتخابات میں پیپلزپارٹی کی کامیابیاں بتا رہی ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے خود کو اقتدار کی حریفانہ سیاست سے الگ کر لیاہے۔گزشتہ پانچ سال میں یہ حقیقت پوری طرح مبرہن ہوگئی کہ پیپلزپارٹی کی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ، دونوں ماضی کی تلخی کے اسیر نہیں رہے۔ 
یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ 1999ء کے بعد اسٹیبلشمنٹ کا اصل ہدف ،اس کی ایک سابق حلیف مسلم لیگ ن رہی ہے۔جنرل پرویز مشرف کی آ مد کو تمام سیاسی جماعتوں نے خوش آ مدید کہا۔پیپلزپارٹی بطور نتیجہ سیاسی عمل سے باہر رہی۔ اس دوران میں،وہ براہ راست اسٹیبلشمنٹ کا ہدف نہیں تھی۔بایں ہمہ اس سے یہ واہمہ بھی دم توڑ گیا کہ اس ملک میں پنجابی اسٹیبلشمنٹ نام کی کوئی چیز پائی جا تی ہے۔یہ اصطلاح اگر 1970ء وغیرہ میں کوئی معنویت رکھتی تھی تو اب باقی نہیں ہے۔ نوازشریف صاحب کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ نے جو سلوک کیا،اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس مقدمے کی صوبائی اساسات نہیں ہیں۔اس مقدمے کا ایک ہی عنوان ہے: اسٹیبلشمنٹ بمقابلہ اہلِ سیاست۔ یہی قابلِ فہم بھی ہے۔نوازشریف صاحب کے تعلقات جنرل آصف نوازسے بھی سازگار نہیں تھے جو پنجابی تھے۔یہ معاملہ پنجاب یا سندھ کا نہیں ہے،یہ اقتدار اور اختیار کا روایتی کھیل ہے جس میں،تاریخ یہ بتاتی ہے کہ بھائی بھائی حریف ہوسکتے ہیں۔آخر مرتضیٰ بھٹو اوربے نظیر بھٹو بھائی بہن تھے۔پنجابی اسٹیبلشمنٹ کی اصطلاح اس لیے معاصر سیاست میں کوئی معنویت نہیں رکھتی۔بلاول کو کم ازکم پیپلزپارٹی کے اس ارتقا کو ضرور پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔ 
اب آئیے پیپلزپارٹی کی مظلومیت کی طرف۔اس سے یہ جماعت جو فائدہ اٹھا سکتی تھی، وہ اٹھا چکی۔یہ اب سکہ رائج الوقت نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ ایک دور میں پیپلزپارٹی تنہا مظلوم تھی۔ اب ایسا نہیں ہے۔مسلم لیگ کا نام بھی اب اس فہرست میں لکھا جا چکا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ سیاسی ارتقا بھی ایک حقیقت ہے۔ سماج 2008ء کی نسبت کہیں آگے جا چکا۔ 2013ء کے انتخابات سے یہ بات واضح ہو گئی۔ان انتخابات میں کارکردگی ہی موضوع رہی۔ پیپلزپارٹی کی مظلومیت کا نعرہ بک نہیں سکا۔لوگوں نے پارٹی کی پوری تاریخ کو نہیں، گزشتہ پانچ سال کو پیش نظر رکھا۔ عوام کو جو فیصلہ دینا چاہیے تھا، وہی دیا۔کسی سروے،کسی تجزیہ میں ان نتائج سے مختلف پیش گوئی نہیں کی گئی۔اس لیے اگر آج بلاول ان دو نکات پر اپنی آنے والی سیاست کا آ شیانہ بنانا چاہتے ہیں تو یہ بہت ناپائیدار شاخ ہے۔اس لیے آج ہی، جب وہ تنکا تنکا جمع کررہے ہیں، انہیں سمجھ جا نا چاہیے کہ ایک مضبوط اساس کتنی ضروری ہے۔ نئی سیاست کے مطالبات ماضی سے مختلف ہیں اور انہیں ان ہی پر نظر رکھنا ہو گی۔
اسٹیبلشمنٹ اور اہلِ سیاست دونوں ارتقائی مراحل سے گزر رہے ہیں۔اقتدار کا کھیل ختم نہیں ہوا لیکن معلوم ہو تاہے کہ اس کے آداب بدل گئے ہیں۔انسانی زندگی مسلسل ارتقا سے گزرتی ہے۔ہم اس کو اکثر افراد سے منسوب کر دیتے ہیں کہ فلاں کی وجہ سے ایسا ہوا۔ایک تاریخ کا جبر ہے جس سے کسی کو مفر نہیں۔اس حوالے سے عورتوں کے سیاسی کرداراور تصویر کے باب میں مذہبی سیاسی جماعتوں کے ارتقا کو پیش کیا جا سکتا ہے۔یہی جبر تھا جس نے بھٹو صاحب اور پرویز مشرف جیسے مسلمہ سیکولر کرداروں کو مذہبی جماعتوں کی چوکھٹ پہ سجدہ ریز کیا۔اسی نے سلما ن تاثیر کے قتل پر پیپلزپارٹی کے ہونٹوں پہ قفل لگادیے۔اس جبر سے کسی کو فرار نہیں۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور اہلِ سیاست کو بھی نہیں۔بد قسمتی سے کچھ لوگ اس کی مزاحمت کی کوشش کرتے ہیں۔وہ خود کو مشکل میں ڈالتے ہیں اور دوسروں کو بھی۔وہ بالآخر سب کچھ مان لیتے ہیں لیکن بعد از خرابیٔ بسیار۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ کا ایک دھڑا ابھی تک جنرل حمید گل کی طرح کے خیالات رکھتا ہے۔وہ تاریخ کے جبر کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔اس کا خیال ہے کہ سٹریٹیجک ڈیپتھ کا کوئی تصور آج بھی قابلِ عمل ہے۔وہ اس تصور کی غلطی کو مان تو لے گا لیکن معلوم نہیں اِس کی مزید کتنی قیمت اس قوم کو ادا کر نا پڑے۔ سیاسی حوالے سے البتہ یہ مان لیا گیا کہ جن لوگوں نے فوج کو اقتدار کی سیاست میں فریق بنایا ،انہوں نے فوج سے کوئی بھلائی کی نہ ملک سے۔
یہ بات اب پیپلزپارٹی کو بھی ما ن لینی چاہیے کہ اسٹیبلشمنٹ کا سیاسی کردار اب قصۂ پارینہ ہے،کم از کم اقتدار کی حریفانہ کشمکش کے حوالے سے۔اگر وہ گزشتہ انتخابات میں شکست خوردہ رہے تو اس کا سبب ان کی کارکردگی تھی۔انہوں نے اپنی انتخابی شکست کی قبر اپنے ہاتھوں سے کھودی ہے۔بلاول بھٹو جن واقعات کے حوالے دیتے ہیں جیسے میمو کیس ہے تو اس کاتناظر بالکل دوسرا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اقتدار کی سیاست سے الگ ہوئی ہے، اداراتی (Corporate) مفاد سے نہیں۔آئندہ بھی اگر اس کے فہم کے مطابق ادارے کا مفادخطرے میں ہوا تو اس کا ردِ عمل اس سے مختلف نہیں ہوگا۔ پھریہ بات بے معنی ہوگی کہ وزیراعظم پنجاب کا ہے یا سندھ کا۔آرمی چیف کا تقرر وزیر اعظم کے ایما پر ہوا ہے یا سنیارٹی کی بنیاد پر۔ارتقا کا مطلب کایا کلپ نہیں ہوتا۔یہ ایک مسلسل عمل ہے اور یہی بات اس وقت اہلِ سیاست کو اسٹیبلشمنٹ کے باب میں سمجھنی ہوگی۔
پیپلز پارٹی کو نئی لغت اور نئے سیاسی مقدمے کی ضرورت ہے۔اُس مال کا اب کوئی خریدار نہیں جسے وہ بیچنا چاہتے ہیں۔ یہ پاکستانی سیاست کی متروک لغت ہے۔سیاست اب آگے بڑھ چکی۔پیپلزپارٹی کو خود ترحمی نہیں،خود احتسابی کی ضرورت ہے۔ بلاول بھٹو کے سیاسی اتالیقوں اور پارٹی کی قیادت کوچاہیے کہ وہ بلاول کو پارٹی کے نئے چہرے کے طور پر متعارف کرائیں۔اس طرح لوگ شاید ماضی کے بجائے، اس جماعت کو مستقبل کے حوالے سے دیکھیں۔اس کے لیے سیاسی ارتقا کا شعور ناگزیر ہے۔ اگر اس شعور کا مظاہرہ ہوا تو پھر مظلومیت یا اسٹیبلشمنٹ کی فرسودہ کہانی پیپلزپارٹی کی سیاسی لغت کا حصہ نہیں ہو ں گی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں