نظری حوالے سے قائداعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے؟
گستاخی معاف،اس سوال کی تاریخی اہمیت تو ثابت ہے لیکن شاید عصری نہیں۔یہ ایک علمی مشق ہے جس کی عملی افادیت مجھ پہ واضح نہیں ہوسکی۔عملی سوال یہ ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں؟ فرض کیجیے قائد اعظم ایک سیکولر پاکستان چاہتے تھے۔کیا ہم محض اس بنا پر ملک کو سیکولر بنا دیں؟فرض کیجیے وہ ایک مذہبی ریاست (theocracy) چاہتے تھے؟کیا ہم پاکستان کو مذہبی پیشواؤں کے حوالے کر دیں گے؟قائد اعظم کی اصابتِ رائے کا فیصلہ،ان کے عہد کے حوالے سے کیا جائے گا ۔ہر دور میں قابلِ عمل بات صرف پیغمبر کی ہوتی ہے۔پیغمبرانہ دیانت کا عالم بھی یہ ہے کہ وہ خود واضح فرمادیتے ہیں کہ یہ بات میرے صحابہ کے لیے ہے یا اسے تاقیامت باقی رہنا ہے۔ سیدنا مسیحؑ نے فرمایا کہ میں بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کی طرف آیا ہوں۔قرآن مجید نے بتایا کہ محمدﷺ پوری انسانیت کے لیے اللہ کے رسول ہیں۔یہ ختم ِ نبوت کا ناگزیر نتیجہ ہے۔
مجھے اس تعبیر سے اتفاق ہے کہ قائداعظم اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک جدید ریاست کی تشکیل چاہتے تھے۔ایک نہیں، کئی بار انہوں نے اس بات کو بیان کیا اور تادمِ آخر۔ جو ان کی شخصیت سے سیکولرازم دریافت کرتے ہیں، میں نے ان کے نقطہ نظر کو دیانت داری کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ کیا یہ علمی بد دیانتی ہے؟ میرے لیے یہ فتویٰ دینا آسان نہیں۔اس اصرار کی آخر کوئی تو بنیاد ہو گی۔میں نے اسے تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔
جو لوگ قائد اعظم کو سیکولر ثابت کرنا چاہتے ہیں، ان کا مقدمہ میرے نزدیک دو اساسات پر کھڑا ہے۔ایک قائد اعظم کی عمومی زندگی ہے۔ظاہری اعتبار سے وہ ایک مذہبی آدمی نہیں تھے۔ ظاہری سے میری مراد حلیہ اور بود و باش ہے ۔ جب سے ہماری زندگی دو خانوں میں بٹی ہے،ہم نے انسانوں کے فکری تشخص کو ظواہر کے حوالے سے دیکھنا شروع کر دیا ہے۔ وہ آدمی مذہبی کیسے ہو سکتا ہے جو انگریزوں کی طرح لباس پہنتا ہو،سگار پیتا ہو اور لوگوں نے کم ہی انہیں مجالس میں نماز وغیرہ کا اہتمام کرتے دیکھا ہو۔ لوگ یہ مان کر نہیں دیتے کہ جو محض مذہبی اختلاف پر اپنی اکلوتی بیٹی سے ساری عمر منہ موڑے رہے، صداقت،دیانت، امانت اور ایثار کے باب میں بے مثال ہو،اسلام کی فکری برتری کا قائل ہو اور علامہ اقبال جیسے مذہبی آدمی کو ایک فکری پیشوا مانتا ہو، وہ اصلاً ایک مذہبی آدمی ہی ہے۔ سیکولر لوگوں کا یہ نقطہ نظر خالصتاً مذہبی ہے جو دین کو ظاہری حلیے کے حوالے سے دیکھتے ہیں۔یہی کام مذہبی طبقہ بھی کرتا ہے۔دونوں کے نزدیک مذہب ظاہری حلیے کا نام ہے۔اس وجہ سے انہیں یہ تسلیم کرنے میں تکلف ہے کہ قائداعظم ایک مذہبی آدمی تھے۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ سیکولر اور مذہبی طبقات دونوں قائد اعظم کو مذہبی آ دمی نہیں مانتے۔
دوسری وجہ نے رد عمل کی نفسیات سے جنم لیا ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلامی ریاست کی فکری اور سیاسی آب یاری مولانا مودودی اور جماعت اسلامی نے کی۔اسلامی ریاست بمقابلہ سیکولر ریاست کے مقدمے میں اسلامی ریاست کی وکالت مسلم لیگ نے نہیں ،جماعت اسلامی نے کی۔علامہ اقبال اس باب میں واضح تھے لیکن مسلم لیگ کے لیے یہ تصور اجنبی تھا اور پاکستان بننے تک رہا۔مسلم لیگ کی تاریخ میں،اس حوالے سے محض ایک سنجیدہ کوشش ہے جو مولانا محمد اسحاق کی نگرانی میں 'اسلام کا سیاسی نظام‘ کے حوالے سے ہوئی۔یہ بھی دلچسپ اتفاق ہے کہ اس کے لیے جو کمیٹی بنی،اس میں بھی مولانا مودودی شامل تھے۔ظاہر ہے یہ علمی کام تھا اور ابتدائی۔مسلم لیگ کی نظری غیر سنجیدگی آخر تک برقرار رہی۔علامہ اقبال جب اپنے معروف 'خطبہ الہ آباد‘ کے لیے تشریف لائے تو مسلم لیگ کے اجلاس کا کورم پورا نہیںتھا۔اس سارے عہد میں مسلم قومیت کی فکری تشکیل کا کام مولانا مودودی اور جماعت اسلامی نے کیا۔میرا تاثر یہ ہے کہ مسلم لیگ کے سیاسی کلچر کے لیے مسلم قومیت کا یہ تصور زیادہ قابل قبول نہیں تھا۔مثال کے طور پر مولانا مودودی نسلی اور شعوری مسلمان میں فرق کرتے ہیں۔مسلم لیگ تو تھی ہی نسلی مسلمانوں کی جماعت ،الا ماشاء اﷲ۔ اس پس منظر میں جب سیکولر طبقہ قائد اعظم اور مسلم لیگ کی سیاست کو دیکھتا ہے اور ساتھ ہی اسلامی ریاست کو مولانا مودودی سے منسوب ایک تصور سمجھتا ہے تو اس کے لیے یہ آسان نہیں ہوتا کہ وہ قائداعظم اور اسلامی ریاست کوہم آہنگ قرار دے سکے۔
قائداعظم کی بے شمار خوبیوں میں،ایک خوبی ان کی دیانت داری ہے۔یہ نظری باب میں بھی ہے۔ان کی ایک اور خوبی یہ بھی تھی کہ وہ اپنے موقف میں کبھی ابہام کا شکار نہیں ہوئے۔ان کی فکری دیانت اس سے واضح ہے کہ انہوں نے خود کو کبھی عالم اور دینی مفکر کے طور پر پیش نہیں کیا۔اس معاملے میں وہ علامہ اقبال ہی کو راہنما مانتے تھے۔وہ نظری اعتبار سے تو قائل تھے کہ اسلامی تعلیمات ہی ہمارے مسائل کا حل ہیں۔ تاہم دور حاضر میں اسلامی ریاست کیسی ہو گی،اس سوال پر انہیں غور کرنے کا موقع کم ملا۔ علامہ اقبال نے اس باب میں فلسفیانہ اور فکری حوالوں سے بہت قابلِ قدر کام کیا لیکن عصری حوالے سے ایک نظام کی تشکیل ،ان کے ہاں بھی کم ہی زیر بحث آ سکی۔اس باب میں اگر کوئی مبسوط کام ہے تو وہ مولانا مودودی اور جماعت اسلامی نے کیا۔یوں یہ تصور ان ہی سے منسوب ہو گیا۔بس یہی بات سیکولر ذہن کی گرہ بن گئی۔
تاریخ کی نفسیاتی گرہیں بالعموم باقی رہتی ہیں۔مسلمانوں میں تو فرقہ واریت کی بنیاد ہی تاریخ کی یہی گرہیں ہیں۔ آج جب لوگ یہ تاریخ بیان کرتے ہیں تو اس کا آغاز عہدِ رسالت سے کرتے ہیں۔اگر ہم چودہ سو سال کی گرہیں نہیں کھول سکے تو پچاس ساٹھ برس کی تو اہمیت ہی کیا ہے۔اس وجہ سے میں یہ کہتا ہوں کہ ایک تاریخی حقیقت تک رسائی کے لیے علمی و فکری کام کی اہمیت مسلمہ ہے۔لیکن اگر ہمیں آج کے مسائل حل کرنے ہیں تو پھر عصری تناظر میں سوچنا پڑے گا۔پاکستان کے حوالے سے اہم سوال یہ ہے کہ ہم کیسا پاکستان چاہتے ہیں؟قوم کا اتفاق بلکہ اجماع ہے کہ پاکستان کو ایک جمہوری ریاست ہونا چاہیے۔ سیکولر آدمی یا مذہبی ،دونوں اس پہ متفق ہیں۔جمہوریت کا مسلمہ اصول یہ ہے کہ اختلاف رائے ہو جائے تو اکثریت کا فیصلہ مانا جائے گا۔ اس جمہوریت کا سب سے مستند مظہر1973ء کا آئین ہے۔اس کو مان کر ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اگر کسی کو خیال ہے کہ اس آئین میں کوئی تبدیلی آنی چاہیے تو اس کا بھی ایک جمہوری طریقہ موجود ہے۔ لوگوں کو یہ حق بھی ملنا چاہیے کہ وہ اس حوالے سے رائے عامہ کو متاثر کریں۔ ظاہر ہے کہ آئین اظہارِ رائے کی ضمانت دیتا ہے۔ اگر ہم آئین اور آزادیِ رائے کے شائستہ اسلوب پر اتفاق کرلیں۔ایک دوسرے کو جھوٹا اور بد دیانت سمجھنا چھوڑ دیں تو معاشرہ ارتقا کے مراحل سے گزر سکتا ہے اور یہ بہت خوش آئند ہو گا۔