"KNC" (space) message & send to 7575

اعتبار کا چور

اُس نوجوان سے مل کر عجیب کیفیت میں ہوں۔ندامت؟ افسوس؟بے بسی؟شاید یہ سب۔ ان کو جمع کرنے سے جو کیفیت وجود میں آتی ہے،میں اسے کوئی نام تو نہیں دے سکتا لیکن محسوس کر سکتا ہوں۔
وہ کئی دنوں سے مجھے فون کر رہا تھا۔ایک ہی بات اس کی زبان پر تھی:''میں آپ سے ملنا چاہتاہوں۔‘‘وہ میراکالم پڑھتا تھا اورپی ٹی وی پہ میرا پروگرام دیکھتا تھا۔میں نے حیلوں بہانوں سے گریز کیا لیکن اُس کا اصرار کم نہیں ہوا۔اس کے بڑھتے ہوئے اصرار نے مجھے الجھن میں ڈال دیا۔ایک بار تو وہ دور سے سفر کرتا ہوا، اسلام آباد آ پہنچا۔میں نے پھر ٹال دیا۔وہ بد دل ہوا نہ مایوس۔چند دن پہلے پھر اس کا فون آیا:''میںاسلام آباد میں ہوں،آپ سے ملنے آیا ہوں‘‘۔اب میرے پاس انکار کی گنجائش نہیں تھی لیکن ایک تشویش بدستورمیرے ساتھ تھی۔میرے انکار کے باوجود آخر وہ مجھ سے ملنے پر بضد کیوں ہے؟میں اس سوال پر جتنا سوچتا گیا،اتنا الجھتا چلاگیا۔طرح طرح کے اندیشے مجھے گھیرے ہوئے تھے۔اب تشویش کے ساتھ خوف بھی شامل تھا۔میں نے سوچا مجھے اسے کسی پبلک مقام پر ملنا چاہیے۔معلوم نہیں، اس کے دل میں کیاہے؟پھرخیال ہوا ،کسی محفوظ مقام پر، میرا مطلب ہے کہ بند چاردیواری میں۔سوچتے سوچتے میں نے ایک مقام کا انتخاب کیا جو میرے نزدیک محفوظ تر ہو سکتا تھا۔ اس کا فون آیا تو میں نے اسے جگہ بتا دی۔یہ محض اتفاق تھا کہ میں جب روانہ ہوا،ایک جلوس نے راستہ روک لیا۔میں نے متبادل راہ تلاش کی لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔میرے ہاتھ پھر ایک بہانہ آگیا۔ میں نے اسے بتایا کہ اس مشکل کے سبب کچھ معلوم نہیں کہ کب پہنچ پاؤں۔اس نے پورے اعتماد سے کہا:میں انتظار میں ہوں، آپ جس وقت بھی پہنچیں گے،میں انتظار میں ہوں گا۔اس کے اس یقین نے مجھے مزید پریشان کر دیا۔آخر وہ مجھ سے ملنے کے لیے اتنا بے چین کیوں ہے؟یہ سوال ایساتھا کہ میں اس پر مزید غور نہیں کر سکا۔میں نے کوشش کی کہ اپنا ذہن بند کرلوں اور معاملے کو خدا پر چھوڑ دیں۔اب جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ یہ بے بسی کا آخری اظہار ہے۔
قصہ مختصر ،میں پھرتا پھراتامقررہ جگہ تک پہنچ گیا۔میں نے دیکھا کہ ایک خوب صورت نوجوان میرے سامنے ہے۔یہی کوئی بائیس، تئیس سال کا۔سلیقے سے چہرے پر سجی داڑھی،اس کی معصومیت کو نمایاں کر رہی تھی۔اس نے بہت احترام کے ساتھ مجھے سلام کیا۔عام سے کپڑے لیکن صاف ستھرے۔لہجے میں محبت اور ٹھہراؤ۔اسے دیکھتے ہی میرے اندیشے جھڑنے لگے۔ میں نے خود کو ہلکا پھلکا محسو س کیا۔ہم بیٹھے تواس نے اپنی بات کا آغاز کیا۔مدعا بتایا۔میں اس کے الفاظ نقل نہیں کررہا جو میرے لیے محبت اور احترام میں بھیگے ہوئے تھے۔میں جانتا تھا کہ میں ان کا مصداق نہیں ہوں۔وہ ایک دینی مدرسے کا طالب علم تھا۔اس نے میرے ساتھ چائے پی اور پھر روانہ ہوگیا۔وہ چلا گیا۔اس کے ساتھ میرا خوف چلا گیا لیکن جو باقی رہا،وہ افسوس تھا اور ندامت۔میں نے سوچا:ایسے خوش گوار نوجوان کے لیے،میں نے ایسا کیوں سوچا؟ایسی محبت کو میرے اندیشوں نے کیوں گھیرا؟یہ سوال مجھے ایک اور وادی میں لے گیا۔
میں نے محسوس کیا کہ ہم پاکستانیوں کے مابین اعتماد کا رشتہ ختم ہو چکا۔ہم ایک دوسرے سے خوف زدہ ہیں۔ ہم دوسروں کے بارے میں بدگمان ہیں۔ میں نے سوچا تو مجھے لگا کہ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے جو میرے ساتھ ہوا۔میں اپنی گاڑی میں رات کو اکیلا ہو تا ہوں۔راستے میں ایک ہاتھ مجھے روکتا ہے لفٹ کے لیے۔ میں اسے نظرانداز کرتا گزر جاتا ہوں۔ میں اسے بٹھاتا تو نہیں لیکن یہی افسوس، خدشہ، ندامت مجھے گھیر لیتے ہیں؟کیا معلوم یہ کون ہو؟کیاخبر آگے جاکر یہ مجھے پستول کے زور پر نیچے اتارے اور گاڑی بھگا لے جائے؟ کیا معلوم اس سے بڑھ کر کچھ ہو جائے؟ یہ بے بنیاد خدشہ نہیں ہوتا۔ہر روز اخبارات ایسی خبروں سے معمور ہوتے ہیں ۔میں ان لو گوں کو ذاتی طور پر جانتا ہوں جو ایسے واقعات کا شکار ہو چکے۔ایسے حادثات بھی ہوئے جن میں لوگوں کی جان چلی گئی۔پھر ذہن دوسری طرف لوٹ جاتا ہے: کیا خبر،وہ ضرورت مندہو؟کوئی مجبور ہو؟ اسے ہسپتال پہنچناہو؟اس کے پاس زادِ راہ نہ ہو؟ اس سوچ کا حاصل ندامت ہوتی ہے اور وہ تمام راستے میری ہم سفر رہتی ہے۔
بات صرف اتنی نہیں۔ میرے دروازے پہ دستک ہوتی ہے۔اللہ کے نام پہ دے دو۔میں کہتا ہوں :معاف کرو۔اس کی وجہ ہے میرے پاس۔لوگ اللہ کا نام دھوکے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔یہ پیشہ ور گداگر ہیں۔اس موقف کے حق میں بھی بہت سے واقعات بطور شہادت پیش کیے جا سکتے ہیں۔لیکن یہاں بھی اس تصویر کا دوسرا رخ اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔کیا معلوم وہ فی الواقعہ ضرورت مند ہو؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ اللہ ہی کے نام پر مانگ رہا ہو اور میں انکار کر رہا ہوں؟اللہ نے میرے مال میں محروموں کا حق رکھا ہے۔کہیں یہ تو نہیں کہ میں ان کا حق دینے سے منکر ہو رہا ہوں؟ اس کا حا صل بھی وہی ندامت اور افسوس۔ آخر آدمی کیا کرے؟ مجھے اس کشمکش سے کیسے نجات ملے؟کون سا کام مجھے مطمئن کر سکتا ہے؟
میرا خیال ہے اس صورتِ حال کا صرف مجھے سامنا نہیںہے۔آپ سوچیں! آئے دن آپ بھی اس کیفیت سے گزرتے ہوں گے۔آپ کے لیے بھی فیصلہ کرنا مشکل ہو تا ہوگا۔کیا آپ نے کبھی سوچا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ہمارے درمیان خوف کی دیوار کیوں کھڑی ہوگئی؟ہم ایک دوسرے سے دور کیوں ہوگئے؟یہی کوئی تیس سال پہلے تک تو ایسا نہیں تھا۔لوگ معاملہ کرتے تھے اور ان پر بھروسہ کیا جا تا تھا۔کبھی تحریر نہیں لکھی جاتی تھی کہ انسان اپنے قول کو نبھاتے تھے۔ ہم بہت آسانی سے لفٹ دیتے تھے اور لیتے تھے۔کوئی خوف دامن گیر ہوتا تھا نہ اندیشہ۔ ہم سرِ شام سڑک کے کنارے بیٹھ جاتے تھے اور ہمیں کسی کا خوف نہیں ہو تا تھا۔انسان انسانوں سے قریب ہوتے تھے۔ اعتماد، اعتبار اور محبت کا رشتہ ہوتا تھا، اندیشوں کا کہیں گزر نہیں تھا۔ہمارے ساتھ ایسا کیا ہوا کہ ہمارا نظامِ اقدار بر باد ہو گیا؟محبت کی جگہ خوف نے لی۔اعتبار کی جگہ بد گمانی نے لے لی۔ایثار کی جگہ خود غرضی نے لے لی۔ گرم جوشی کی جگہ سرد مہری نے لے لی۔امن کی جگہ خدشے نے لے لی۔ معاشی استحکام باقی ہے نہ سماجی۔ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟
اس نو جوان سے ملے بہت دن ہو گئے۔اب بھی وہ میرے کالم پڑھتا اور میرے بارے میں یہ گمان رکھتا ہے کہ میں دیانت سے لکھتا ہوں اور کوئی مفاد میرے پیش ِنظر نہیں ہوتا۔ میں جس کے بارے میں تادیر بدگمان رہا، وہ میرے بارے میں کتنا خوش گمان ہے؟شاید اس لیے کہ ابھی نوجوان اور فطرت سے قریب ہے۔وہ واپس چلا گیا لیکن مجھے سوچنے کے لیے ایک موضوع دے گیا۔ یہ محض ایک مو ضوع نہیں،ایک المیے کا عنوان ہے۔آپ بھی سوچیے کہ ہمارے ساتھ یہ حادثہ کیسے گزر گیا؟کیا یہ امریکی سازش ہے؟ کیا یہ کوئی بھارتی منصوبہ ہے؟کیا اس کی پشت پر اسرائیل ہے؟ہمارے اعتبار کو کون لے گیا؟کیا آپ اُس چور کو جانتے ہیں؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں