گزشتہ روز ایک محترم کالم نگار نے لکھا کہ پاکستان اس وقت عذابِ ا لٰہی کی گرفت میں ہے اور یہ سزا ہے اس جرم کی کہ ہم نے افغانستان میں مسلمانوں کے خلاف مشرکوں کا ساتھ دیا۔
فرد ہویا ریاست،ظلم کاساتھ دینا جرم ہے۔ اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے کہ ہم کبھی اس کے مرتکب ہوں۔ظلم ایک طرزِ عمل کا نام ہے۔ اس کا ارتکاب مسلمان سے ہو سکتا ہے اور غیر مسلم سے بھی۔اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے کہ ظالم مسلمان بھائی کی مدد کرو اور اس کی صورت یہ ہے کہ اسے ظلم سے روکو۔کسی معرکے یا مقدمے میں مسلمان کا ساتھ صرف اس وجہ سے نہیں دیا جا سکتا کہ وہ مسلمان ہے۔اللہ کے رسول اور خلفائے راشدین کے فیصلے موجود ہیں کہ انہوں نے انصاف کرتے وقت فریقین کے مذہب کو کوئی اہمیت نہیں دی۔عمر بن عبدالعزیزنے قرآن مجید کے حکم کے مطابق قصاص کے ایک مقدمے میں غیر مسلم کے مسلمان قاتل کو مقتو ل کے لواحقین کے سپردکیا کہ وہ قصاص، دیت یا معافی میں سے کسی کا انتخاب کر لیں۔ انہوں نے قصاص کا انتخاب کیا اور مسلمان قاتل کو قتل کر دیا گیا۔اس لیے اسلام، مسلمان بالمقابل غیر مسلم کی بنیاد پر فیصلے صادر نہیں کرتا۔یہ ظالم بمقابلہ مظلوم کی اساس پرکھڑا ہوتا ہے۔ یہی اس دین کی شان اور امتیاز ہے۔اس لیے سوال یہ ہونا چاہیے کہ کیا پاکستان کی قیادت نے افغانستان میںظلم کا ساتھ دیا؟یہ اس نقطہ نظر کا ایک خصوصی پہلو ہے۔ میں اس باب میں ایک عمومی بات کہنا چاہتا ہوں۔
عصری سیاست میں دینی ماخذ سے استدلال‘ نازک کام ہے۔جب ہم کسی واقعے کو دینی رنگ دیتے ہیں تو نتیجتاً وہ کفر اسلام کا مسئلہ بن جاتا ہے۔یوں ایک موقف اسلام اور دوسرا کفر قرار پاتا ہے۔ یہیں سے مذہب کے سیاسی استعمال کی حد شروع ہو جا تی ہے۔اخلاقیات کے باب میں تو اس سے زیادہ فرق نہیں پڑتا،لیکن کسی سماج میں اس بنیاد پر لوگ قتل ہو نے لگیں توپھراس معاملے میں سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ہمارے کالم نگار، الا ماشا اللہ، دین کے معاملے میں سنی سنا ئی باتوں پر یقین رکھتے ہیں۔وہ اپنی دینی حمیت کے زور پر کمزور بات کودین کا موقف بنا کر پیش کرتے ہیں۔لوگ ان کی دینی غیرت کے اعتراف میں، ان کی بات کو دین کی محکم بات سمجھنے لگتے ہیں۔ یوں مذہب سے وہ باتیں منسوب ہو جاتی ہیں جو اس کا منشا نہیں ہو تا۔یہ بات اتنی نازک ہے کہ بعض اوقات دین کے جلیل القدر علماء بھی احتیاط کامظاہرہ نہیں کرتے۔ 1977ء کے انتخابات میں، جب پاکستان قومی اتحاد اور پیپلزپارٹی فریق تھے تو ایک بڑے عالم دین نے قومی اتحاد کے کارکنوں سے خطاب کیا ۔ان کا کہنا تھا کہ اس انتخابی معرکے کی وہی اہمیت ہے جو غزوہ تبوک کی تھی۔ جو اس وقت قومی اتحاد کے حق میں میدان میں نہیں اتریں گے، ان کا معاملہ ان منافقین کی طرح ہے جو اُس غزوہ کے موقع پر گھروں میں بیٹھے رہے۔میں کبھی نہیں جان سکا کہ جس معرکے میں ایک طرف اے این پی اور اصغر خان ہوں اور دوسری طرف پیپلزپارٹی ہو، وہ غزوہ تبوک کی مثیل کیسے ہو سکتا ہے۔ عصری سیاست میںجب ایک جلیل القدر عالم سے اتنی بڑی چُوک ہو سکتی ہے تو تصورکیا جا سکتا ہے کہ دین کا سرسری مطالعہ کیسا کیسا ظلم نہیں ڈھاتا ہوگا۔
اسی استدلال کو دیکھ لیجیے: اسلام بمقابلہ مشرکین۔کسی عصری سیاسی معرکے پر اس کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔اس کی ان گنت وجوہ ہیں۔ایک تو یہ کہ اس عہد میں عام طور پر ریاستیں مذہب کی بنیاد پر نہیں بنتیں۔چند مسلمان ملک ہیں جواجتماعی مذہبی تشخص کے قائل ہیں یا ایک اسرائیل ہے جوخود کو یہودی ریاست کہتا ہے۔ان کے علاوہ کوئی ملک مذہب کی بنیاد پر نہیں کھڑا۔لہٰذا یہ تقسیم اس وقت دنیا میں مو جود نہیں۔دوسرا یہ کہ امریکہ سمیت تمام مغربی ممالک سیکولر ہیں۔بطور ریاست ان کا کوئی مذہب نہیں ہے۔صدر یا کسی منصب پر فائز کسی فرد کا کوئی مذہب ہو سکتا ہے لیکن ریاست کا نہیں۔ تیسرا یہ کہ مغربی ممالک، بشمول امریکہ میں اکثریتی مذہب مسیحیت ہے۔صدر بش بھی مسیحی تھے۔مسیحی مشرک نہیں ہوتے۔ وہ اہلِ کتاب ہیں۔قرآن مجید مشرکین اور اہلِ کتاب میں واضح فرق کرتا ہے۔ قرآن نے بتایا ہے کہ یہودی حضرت عزیرؑ کو اللہ کا بیٹا کہتے ہیں اورنصاریٰ حضرت مسیحؑ کو۔اس کے باوصف وہ ان کا ذکر مشرکین میں نہیں کرتا کیونکہ اصلاً وہ توحید پر ایمان رکھتے ہیں۔جب مشرکینِ مکہ
پراتمامِ حجت ہوگیا اورسورہ توبہ میںقانونِ رسالت کے تحت عذابِ الٰہی کے حتمی فیصلے کے طورپر سزائے موت کااعلان ہوا تو اس موقع پر بھی اہلِ کتاب کو استثنا دیا گیا۔یہ کہا گیا کہ اگر وہ اسلام کا سیاسی غلبہ قبول کرلیں تووہ اپنے دین پر قائم رہ سکتے ہیں۔اس لیے امریکہ کو اگر اہلِ کتاب مان لیا جائے تو بھی وہ مشرک نہیں ہے۔یہ میں عرض کر چکا کہ بطور ریاست اس کا کوئی دین نہیں ہے۔چوتھا یہ کہ افغانستان میں طالبان سے نیٹو کی افواج لڑ رہی ہیں۔ان میں ترکی بھی شامل ہے جو مسلمان ملک ہے۔اس اعتبار سے تو یہ مسلم بمقابلہ غیر مسلم کا مقدمہ بھی نہیں بنتا۔پانچواں یہ کہ تمام مغربی ممالک کے شہریوں کی بڑی تعداد مسلمان ہے۔دورِ حاضرکے ایک بڑے فقیہہ یوسف القرضاوی یہ فتویٰ دے چکے کہ امریکہ کے مسلمان شہری امریکی فوج میں بھرتی ہو سکتے اور اس کے دفاع کے لیے لڑسکتے ہیں۔
اس وقت دنیا میں مذہب کی بنیاد پر کوئی سیاسی معرکہ برپا نہیں ہے۔ امریکہ ایک سامراج ہے اورہر سامراج کی طرح،اپنے غلبے کے لیے کسی اخلاقی قدر کا قائل نہیں ہے۔جنگِ عظیم میں وہ مسیحیوں سے لڑتا رہا ہے۔تیس سال پہلے وہ اسی غلبے کے لیے روسی دہریوں سے برسرِ پیکار رہا۔آج اس کے سامنے مسلمان ہیں۔کل وہ ایک اوردہریے ،چین سے پنجہ آزمائی کرے گا۔اس کا مسئلہ مذہبی نہیں، سیاسی ہے اور وہ غلبہ ہے۔ اس لیے جب ہم ان سیاسی معرکوں کی مذہبی تشریح کرتے ہیں تو عام مسلمان کو ایک غیر ضروری آ زمائش میں ڈال دیتے اورالجھا دیتے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جب سیاسی غلبے کے لیے دو مسلمان ملک لڑتے ہیں تو ایک دوسرے کے خلاف اسی طرح کا دینی استدلال دے رہے ہوتے ہیں۔عراق ایران جنگ میں ایرانی علماء نے جو لکھا، اس کو پڑھ لیجیے،دین کے سیاسی استعمال کا معاملہ سمجھ میں آجائے گا۔
یہ محض ایک مثال ہے۔میں ان کالموں سے ان گنت مثالیں پیش کر سکتا ہوں کہ کیسے عصری سیاسی معاملات میں مقدمہ قائم کرتے ہوئے دین کے نام پرکمزور باتوں کو بِنائے استدلال بنایا جاتاہے۔اس باب میں سب سے زیادہ ظلم حدیث پر ہوتا ہے۔ ایک بے بنیاد بات کو اتنی آسانی سے قولِ رسول ﷺ کہہ دیا جاتا ہے کہ میں پڑھ کر خوف زدہ ہو جاتا ہوں۔ ایک روایت حدیث کی کسی مستند کتاب میں مو جود نہیں ہوتی اور لوگ اسے قولِ رسولﷺ قرار دے کر اس سے خارجہ پالیسی برآمد کررہے ہوتے ہیں۔ اس باب میں سب سے زیادہ استدلال باب الفتن کی روایات سے ہو تا ہے۔باب الفتن میں بیان کی گئی روایات کی صحت کے حوالے سے خود محدثین نے جو کچھ لکھا ہے، اگر میں یہاں بیان کروں تو لوگ حیرت میں ڈوب جائیں۔
میرا حسنِ ظن ہے کہ لوگ یہ استدلال حمیتِ دین میں کرتے ہیں۔میں اسے ا یک قابلِ رشک جذبہ سمجھتا ہوں لیکن یہ نادان دوستی اسلام اور مسلمانوں پر جو ظلم ڈھا رہی ہے ،اس کی داستان بہت تکلیف دہ ہے۔ دین سے استدلال جس احتیاط کا متقاضی ہے،وہ رسوخ فی العلم کے بغیر روا نہیں رکھی جاسکتی۔بصورتِ دیگر یہ جذبات کا ایک کھیل ہے اور اس کے نتائج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔