مذاکراتی ٹیم پر فی الجملہ قوم نے اظہار اعتماد کیا ہے۔ رستم شاہ مہمند صاحب کا معاملہ البتہ وہی ہے جس کی طرف برادرم ہارون الرشید نے کل اشارہ کیا۔ توازنِ فکر سے محرومی، بالکل شیریں مزاری کی طرح۔ محترمہ کا ارشاد ہے: ڈرون حملے مذاکراتی عمل کو سبو تاژ کر سکتے ہیں۔ حکومت اُن کو روکے۔ بجا ارشاد لیکن دہشت گردانہ حملوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا اس سے مذاکراتی عمل کو مہمیز ملے گی؟ حیرت ہوتی ہے کہ جن مسائل کا تعلق قوم کی زندگی اور موت سے ہے، لوگ انہیں سیاسی مفادات کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔
ایک مرحلہ طے ہوا۔ آٹھ مہینوں میں پہلی بار ایک واضح پیش رفت ہوئی۔ قدم اُٹھ جائیں تو یہ آغازِ سفر کا اعلان ہے۔ دعا کرنی چاہیے کہ سفر درست سمت میں ہو۔ اس کا بڑا انحصار اب مذاکراتی ٹیم کی فراست پر ہے۔ طالبان کا پہلا ردِعمل سامنے آ چکا: ''ہماری منزل نفاذِ شریعت ہے، مذاکرات سے ہو یا جنگ سے۔ نواز شریف کہتے ہیں کہ ہم دہشت گردی ختم کرکے دم لیں گے۔ ہم کہتے ہیں کہ شریعت نافذ کرکے دم لیں گے‘‘۔ طالبان کا مؤقف (Narrative) اب بھی وہی ہے جس کا وہ پہلے کئی بار اظہار کر چکے۔ کیا مذاکراتی ٹیم اس کا جواب دے پائے گی؟ یہ ایک مشکل سوال ہے۔ اراکینِ ٹیم کی صلاحیتیں مسلّم مگر بعض دوسرے میدانوں میں۔ دینی علوم اور فقہی لغت میں اس مقدمے کا جواب دینا شاید ان کے لیے آسان نہ ہو۔ میجر عامر ایک دینی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک جلیل القدر عالم کے فرزند۔ جہاں سے دریا گزر جاتے ہیں وہاں نمی تو ہوتی ہے، لیکن یہاںصرف نمی سے کام نہیں چلے گا۔ بھرپور استدلال چاہیے اور وہ بھی طالبان کی شوریٰ کے ساتھ۔ کہتے ہیں کہ وہ علما پر مشتمل ہے۔
میرے نزدیک یہی وہ ممکنہ نازک مرحلہ ہے جہاں رکاوٹ درپیش ہو سکتی ہے۔ آئین، قانون اور سماجی اخلاقیات کی مدد سے قائم مقدمہ ان لوگوں کے لیے قابل فہم نہیں ہوتا جو شریعت کو ایک خاص فقہی و مسلکی لغت میں سمجھتے اور پڑھتے ہیں۔ یوں بھی طالبان کے خیال میں، ان موضوعات پر انہیں اذن کلام نہیں دیا جا سکتا جو کسی خاص مدرسے سے فارغ التحصیل نہ ہوں۔ چند برس ہوئے اسلام آباد کے ایک سیمینار میں مجلس عمل کے مولانا عبدالعزیز، غالباً کرک سے رکن قومی اسمبلی، میرے ساتھ شریک تھے۔ موضوع بحث اس وقت کی حکومت سرحد کا منظور کردہ حسبہ ایکٹ تھا۔ آپ کو یاد ہو گا کہ یہ حکومت مجلس عمل کے پاس تھی۔ میں نے اس ایکٹ پر اپنے دینی فہم کے مطابق نقد کیا۔ مولانا کے جوابی استدلال کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے: ''ان کی تمام باتیں درست ہو سکتی ہیں مگر ہمارے نزدیک ان دلائل کی حیثیت پرکاہ کے برابر نہیں۔ یہ ان لوگوں میں شامل نہیں جو دینی امور پر گفتگو کا استحقاق رکھتے ہیں۔ ان کے پاس کسی مدرسے کی سند نہیں ہے‘‘۔ جو لوگ اس طبقے کو جانتے ہیں، ان کے لیے یہ جواب قابلِ فہم ہے۔ یہاں تو مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا مودودی جیسی نابغہ روزگار شخصیات کے علم کا اعتبار نہیں، ہما شما کس شمار میں ہیں۔ اگر مذاکراتی ٹیم کو بھی اسی رویے کا سامنا ہوا تو وہ کیا کرے گی؟ ان میں سے کوئی کسی مدرسے کا سند یافتہ نہیں۔
مجھے جو بات ان مذاکرات کے نتائج کے بارے میں تشویش میں مبتلا کرتی ہے، یہی ہے۔ بنائے استدلال (Narratives) کا فرق ہے۔ مثال کے طور پر قدیم فقہی تقسیم کے تحت یہ دنیا دو حصوں میں منقسم ہے۔ دارالاسلام اور دارالکفر۔ اس نقطہ نظر کے مطابق قانون سازی کسی پارلیمنٹ کا نہیں، علماء کا حق ہے اور انہی کے ہاتھوں یہ نافذ بھی ہوتی ہے۔ طالبان کے اب تک دو بنیادی مطالبات رہے ہیں: ایک نفاذ شریعت اور دوسرا امریکہ سے تعلقات کا انقطاع۔ نفاذ شریعت سے ان کی مراد حکومت طبقہ علما کے حوالے کرنا ہے۔ دارالکفر اور دارالاسلام کی تقسیم کے تحت، امریکہ دارالکفر ہے جس کے ساتھ جنگ کرنا فرض ہے کیونکہ وہ ایک دارالاسلام‘ افغانستان‘ کے خلاف جنگ کر رہا ہے۔ ہمارے روایتی علما کا انداز نظر (narrative) بھی یہی ہے۔ جماعت اسلامی بھی فکری زوال کے بہت سے مراحل طے کر کے اسی مقام پر آ کھڑی ہوئی ہے۔ یوں طالبان کے اس استدلال کو عوامی سطح پر کسی حد تک تائید میسر ہے۔ میرے لیے یہ سوال پریشان کن ہے کہ طالبان کے اس موقف کے مقابلے میں مذاکراتی ٹیم کا نقطہ نظر کیا ہو گا؟
پارلیمان، عدلیہ، انتظامیہ، جدید ریاست کے ادارے ہیں۔ یہ تصورِ ریاست ہی قدیم فہمِ اسلام کے لیے اجنبی ہے۔ پاکستان کے قدیم علماء کی تحسین کرنی چاہیے کہ انہوں نے اجتہاد کیا اور اس جدید ریاست کو اسلام سے ہم آہنگ قرار دیا۔ قرارداد مقاصد، بائیس نکات اور 1973ء کا آئین اسی کے مظاہر ہیں۔ ٹھیٹھ دینی فہم میں ان تصورات کا گزر نہیں ہو سکتا۔ طالبان اسی فہم پہ کھڑے ہیں۔ وہ اس پیش رفت کو قبول نہیں کرتے جو پچھلی ایک صدی میں ہو چکی۔ وہ ان ریاستی اداروں کو مانتے ہیں نہ بین الاقوامی قوانین کو۔ ریاست یہ اصرار کرتی ہے کہ وہ آئین پاکستان کے تحت مذاکرات کریں۔ اگر مذاکراتی ٹیم ریاست کے آئینی ڈھانچے میں رہتے ہوئے مذاکرات کرے گی تو نفاذِ شریعت اور پاک امریکہ تعلقات‘ دونوں کے باب میں حل موجود ہے۔ قراردادِ مقاصد میں لکھا ہے کہ حکومت اﷲ کا حق ہے جسے عوام کی منتخب پارلیمان اﷲ تعالیٰ کی نیابت میں استعمال کرے گی۔ یہ قرارداد آئین کا حصہ ہے۔ اس کی تفصیلات بھی آئین میں موجود ہیں۔ اسی طرح خارجہ پالیسی کا تعین بھی پارلیمنٹ اور منتخب حکومت کرے گی۔ اگر مذاکراتی ٹیم آئین کے دائرہ کار میں مذاکرات کی پابند ہے تو طالبان سے صرف ایک ہی بات کہہ سکتی ہے کہ پاکستان کا آئین ان دونوں مطالبات کا جواب دیتا ہے‘ لہٰذا، وہ ہتھیار پھینکیں اور اس آئین کے تحت سیاسی جدوجہد کرتے ہوئے پارلیمان تک پہنچیں، اگر عوام ان کی تائید کریں۔ مذاکراتی ٹیم اگر اس کے علاوہ کسی حل کو قبول کرتی ہے تو وہ غیر آئینی ہو گا۔ میرا خیال ہے کہ ریاست نے اس ٹیم کو یہ حق نہیں دیا۔
مذاکرات پر یک طرفہ اصرار کرنے والے یہ بات ابھی تک سمجھ نہیں پا رہے کہ یہ دو نقطہ ہائے نظر (Narratives) کا اختلاف ہے۔ یہ کچھ لے اور کچھ دے کا معاملہ نہیں ہے۔ لینے دینے کی بات اس وقت ہو گی جب دونوں کسی ایک بنیاد کو قبول کر لیں گے۔ مثال کے طور پر اگر طالبان اپنے دونوں مطالبات کی قبولیت کے لیے آئین کو بنیاد مان لیتے ہیں تو پھر ریاست یہ حق رکھتی ہے کہ ان کے ساتھ کوئی معاہدہ کرے۔ اس میں عام معافی کا اعلان ہو سکتا ہے۔ قیدیوں کی واپسی اور مقدمات کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ طالبان سے وابستہ لوگوں کے لیے متبادل دائرہ عمل کا تعین ہو سکتا ہے۔ آئینِ ریاست کو ان تمام امور میں اقدام کا حق دیتا ہے۔ اگر معاملہ یہاں تک پہنچ جائے تو اس سے بہتر حل کوئی نہیں ہو سکتا۔ کیا مذاکراتی ٹیم طالبان کو اس پر آمادہ کر پائے گی؟
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک