اختلاف کی بات بہت ہو چکی،اب کچھ بات اتفاق کی ہو جائے۔کیا ممکن ہے کہ ہم ایک قوم کی حیثیت سے چند بنیادی امور پر اتفاق کرلیں؟
مصر میں چند سال پہلے کچھ لوگوں نے اس سوال پر غورکیا اور پھر قومی اتفاقِ رائے کے لیے ایک جاندار کوشش کی۔ مصر کا سماج بھی ہماری طرح نظری، مذہبی اور سماجی حوالوں سے منقسم (polarized) ہے بلکہ مصر میں یہ تقسیم کہیں گہری ہے۔ پاکستان میںاقلیتیںتین فیصدہیں ، مصر میں قبطی مسیحیوں کی تعداد تقریباً دس فیصد ہے۔ مسلمانوں میں بھی نظریاتی گروہ بندی بہت ہے۔ سلفی، معتدل، سیکولر۔اس کی ایک جھلک گزشتہ عام انتخابات کے نتائج میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ حسنی مبارک کی طویل آ مریت کے سبب ،سطحِ زمین سے نیچے اضطراب کی لہریں اٹھتی رہیں جسے جبر سے دبایا گیا۔ جبر کے دنوں میں معمول کی سیاسی وسماجی سرگرمیاں جاری رکھنا ممکن نہیں رہتا ، لوگ اظہار کے لیے غیر روایتی طریقے اختیار کرتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ایوب خان کے عہدِ آمریت میں ایسا ہی ہوا۔ جسٹس ایم آرکیانی جیسے لوگ میدان میں نکلے جنہوں نے ادب کی اصناف میں کلام کیا۔ جسٹس کیانی نے اُن دنوں میں اردو اور انگریزی میںجو تقاریر کیں‘ ان کے مجموعے مو جود ہیں۔آج بھی ان کا مطالعہ لبوں پہ مسکراہٹ بکھیر دیتا ہے۔ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آ مریت کے حبس میں یہ تقاریر ہوا کے خوش گوار جھونکے سے کم نہیں تھیں۔
مصر میں بھی ایسا ہی ہوا،کچھ صاحبانِ فکرنے غیر روایتی طریقہ اختیار کیا۔ مختلف مذہبی، فکری اور سماجی پس منظر کے لوگ جمع ہوئے۔ انہوں نے اس پر غورکیا کہ مصر کو ایک قومی ایجنڈے کی ضرورت ہے۔ سماج کا فکری ومذہبی تنوع فطری ہے ، اسے برقرار رکھتے ہوئے،ہمیں ان امور پر اتفاق کر لینا چاہیے جو مصرکو سماجی، معاشی اور سیاسی طورپر ترقی کی شاہراہ پر ڈال دیں۔اس فکری تنوع کو ایک اثاثہ سمجھنا مشکل نہیں۔اس مجلس میں قانون دان ‘کالم نگار‘ اساتذہ‘ علما اور زندگی کے دوسرے شعبوں سے وابستہ افراد تھے۔انہوں نے سماجی تبدیلی کے لیے ایک منشور پر اتفاق کیا اور پھر اس کو معاشرے میں فروغ دینے کے لیے کمربستہ ہو گئے۔اس گروہ میں طارق بشری جیسے سیکولر تھے اور علامہ یوسف القرضاوی جیسے اخوانی بھی جبکہ شیخ غزالی جیسے بڑے عالم بھی اس مجلس کا حصہ تھے ۔ان لوگوں نے مصرکے اتحاد اور سیاسی استحکام کے لیے بعض نئے تصورات پیش کیے۔ مثال کے طور پر طارق بشری نے لکھا کہ انتخابات کے مو قع پر مسلم اکثریتی حلقۂ انتخاب میں کسی مسیحی کو کامیاب بنانے کی مہم چلا نی چاہیے۔اگر مسلمان اور قبطی ایک دوسرے کو منتخب کریں تو اس سے باہمی فاصلے کم ہو ں گے۔
آج پاکستان میں بھی اسی طرح کے اتفاقِ رائے کی ضرورت ہے۔1979ء کے بعد ہمارے ہاںبدقسمتی سے ایک ایسی فضا پیدا ہوئی جس نے پورے سماج کو برباد کردیا ۔ ریاست اور مذہبی سیاسی جماعتوںنے مل کر ہمیں ایک ایسے راستے پر ڈال دیا جس سے پاکستان فسادکا گھر بن گیا۔ مسلکی گروہوں نے بھی اس میں پورا حصہ ڈالا۔اس کے بعد قومی اتفاقِ رائے کی ترکیب ہماری قومی لغت سے غائب ہو گئی۔ ریاستی حکمت عملی کے باعث قوم کو اس طرح تقسیم کر دیا گیا کہ لوگ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگے۔ جمہوریت کے آنے سے حالات قدرے بہتر ہوئے لیکن بدقسمتی سے سیاسی جماعتوں میں بھی وہی انتہا پسندانہ مزاج غالب رہا جو1980ء کی دہائی میں بنا۔سیاسی و مذہبی جماعتوں ہی میں نہیں، اس کے اثرات اس طبقے پربھی گہرے ہیں جنہیں دانش ورکہا جاتا ہے؛ حالانکہ دانش وری اور انتہاپسندی کی یک جائی کھلا تضاد ہے۔ میڈیا نے چند ٹکوں کی خاطر اس تقسیم کوگہرا کیا ، فکری ونظری اختلاف کوایک مثبت مکالمے میں بدلنے کے بجائے،اسے تماشے کے لیے استعمال کیا۔یوں مختلف نظریات کی نمائندگی سنجیدہ اور صاحبانِ علم افراد کے حلقے سے نکل کران لوگوں کے ہاتھ میں چلی گئی جن میں تماشہ لگانے کی صلاحیت زیادہ تھی۔اس کا انجام ہمارے سامنے ہے۔۔۔فکری پراگندگی اورفساد۔
آج ضرورت ہے کہ یہاں رک کراس سوال پر غورکیاجائے کہ کیا اختلافات کے ساتھ ہم قومی تعمیر کے کسی ایجنڈے پر اتفاق کر سکتے ہیں؟میرا خیال ہے اگر ہم ایک دوسرے کے بارے میں حسنِ ظن کا مظاہرہ کریں تو یہ ممکن ہے۔چند امور میں اس وقت بھی اتفاقِ رائے موجود ہے۔ مثال کے طور پریہ اتفاق ہے کہ اقتدارکی تبدیلی کا سب سے بہتر طریقہ انتخابات ہیں۔ صحت، تعلیم اور انصاف قوم کی بنیادی ضروریات ہیں۔کرپشن کی کوئی صورت کسی سطح پہ گوارا نہیں ہونی چاہیے، ہم چاہیں تو اس فہرست کو طویل کر سکتے ہیں۔اسی طرح ہم اس بات پر بھی اتفاق کر سکتے ہیں کہ مذہبی، سیاسی اور سماجی مسائل میںکوئی رائے قائم کر نا ایک فرد کا بنیادی حق ہے۔ ہم دوسرے کی رائے سے اختلاف کر سکتے ہیں اور ہر مہذب طریقے سے اس کا اظہار بھی کر سکتے ہیں ؛ تاہم ہمیں یہ حق حاصل نہیں کہ ہم بزور دوسرے کی زبان بندی کریں۔ ہم اس سے اتفاق کرتے ہیں کہ ریاست کے معاملات اس آئین اور عمرانی معاہدے کے تحت چلیں گے جو عوام کی اکثریت کا ترجمان ہوگا اوراس کا فیصلہ ظاہر ہے کہ پارلیمنٹ ہی کرے گی۔ ہم اسے مانیں گے لیکن ہمارا یہ حق محفوظ ہو گا کہ ہم اس سے اختلاف کا اظہارکریں اور پارلیمنٹ کی رائے کو بدلنے کی مہذب اور آئینی طریقے سے کوشش کریں۔ یہ ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں پارلیمنٹ ہماری رائے کی قائل ہو جائے۔ جب تک ایسا نہیںہوتا، ہم اپنی رائے کا اظہار کرتے رہیں گے لیکن ریاست کا نظام اسی قانون کے تحت چلے گا جو عوام کے نمائندے کثرتِ رائے سے بنائیں گے۔اسی طرح سماج میں تشدد کسی قیمت پر گوارا نہیں کیا جائے گا، چاہے اس کے لیے کیسا ہی استدلال اور جوازکیوں نہ پیش کیا جا ئے۔ ہم تجویزکرسکتے ہیں کہ ایسی فضاکی تشکیل میں سیاسی جماعتوں، میڈیا اور محراب و منبر سمیت دوسرے سماجی اداروں کو کیا کردار ادا کر نا چاہیے۔
کم و بیش دو برس پہلے میں نے اپنے تئیں اس بات کی ایک کوشش کی تھی ، ممکن حد تک مختلف نظری اور سماجی پس منظر کے لوگوں کو جمع کیا جنہوں نے ایک ''میثاقِ امن ‘‘پراتفاق کیا۔مولانا زاہدالراشدی جیسے عالم،ڈاکٹر خالد مسعود جیسے سکالر،برادرم سلیم صافی جیسے کالم و تجزیہ نگار،برادرم وصی شاہ جیسے جوان سال شاعر، برادرم سبوخ سید جیسے صحافی،برادرم شاہدگیلانی جیسے ماہرِ تعلیم ،محترمہ رومانہ بشیر جیسی اقلیتوں کی نمائندہ ، علامہ امین شہیدی اور مفتی عبدالقوی جیسے علما اس مجلس کا حصہ تھے جس نے اس میثاقِ امن کی منظوری دی۔ محترم و مکرم مجیب الرحمن شامی اور جناب قمر زمان کائرہ کی سرپرستی بھی ہمیں حاصل تھی جنہوں نے اس ''میثاقِ امن‘‘ سے اتفاق کیا لیکن اپنی مصروفیات کے باعث اس مجلس میں شریک نہ ہو سکے۔ راجہ محمد ظفرالحق صاحب جیسے قومی راہنما نے بھی اس کی تحسین کی۔خیال یہی تھا کہ مصر کی طرح پاکستان میں بھی ایک منشور پر قومی اتفاقِ رائے پیدا کیا جائے اور پھر اس کی بنیاد پرشعوری سطح پر تبدیلی کے لیے ایک سماجی تحریک اٹھائی جائے۔تحریک کے لفظ سے کوئی غلط فہمی نہیں ہو نی چاہیے ، اس سے مرادسیاسی جدو جہدیا تنظیم سازی نہیں بلکہ محض شعوری اور سماجی تبدیلی کی ایک کوشش ہے۔ مجھے اللہ نے توفیق دی تو میں اس پر مزیدکام کروں گا۔
یہ کام کوئی اوربھی کرسکتا ہے اور بہتر انداز میں۔ مجھے اس تجربے سے یہ محسوس ہوا کہ اختلاف کو باقی رکھتے ہوئے، قومی تعمیر کے ایک ایجنڈے پر بڑی حد تک اتفاقِ رائے ممکن ہے۔ آج اس کی اشد ضرورت ہے۔اگر آج ہمارے قلم اور زبان کا رخ اختلاف سے اتفاق کی طرف ہو جائے تو ہماری یہی صلاحیتیں قوم کو جمع کر سکتی ہیں، ایک مثبت تبدیلی کے لیے۔