اہلِ قلم کے لہجے میں تلخی ہے۔ ردِ عمل،جھنجھلاہٹ اور شاید شکست خوردگی کا امتراج ۔۔۔ بالکل سید منور حسن کے بیانات کی طرح۔ ایک رویہ جب مرض بن جائے تو تحلیلِ نفسی لازم ہو جاتی ہے۔
پوری قوم نفسیاتی مریض بن چکی ہے ، الا ماشاء اللہ ۔ ہر طرف تعصب کا غلبہ ہے۔اب حق و انصاف کا پیمانہ یہی ہے کہ اپنے گروہ کا ساتھ دیا جائے۔ محترم قاضی حسین احمدایک عرصہ طالبان کے وجود کی نفی کرتے رہے۔ جب خود کش حملوں کی زبان میں انہوں نے اپنے وجود کی شہادت پیش کی تو ارشاد ہوا : طالبان کہتے رہیں، ہم نہیں مانتے کہ یہ حملے انہوں نے کیے ہیں۔اِن دنوں یہ منصب مو لانا سمیع الحق صاحب کے پاس ہے۔ پہلے ارشاد ہوا : طالبان آئین کی سر بلندی کے لیے برسرِ پیکار ہیں۔ شاہد اللہ شاہد صاحب نے طالبان کی روایت کے عین مطابق ، بغیر کسی ابہام کے، پورے ملک کے میڈیا کو جمع کر کے بتایا: ہم کسی آئین کو نہیں مانتے، جب ہم قرآن وسنت کی بات کرتے ہیں تو اس سے واضح ہو تا ہے کہ ہم ان کے علاوہ کسی آئین کو تسلیم نہیں کرتے۔ شاہد صاحب کی یہ گفتگو پوری قوم نے اپنے کانوں سے سنی ، اس کے باوصف مولانا کا فرمان ہے: ''طالبان جمہوریت اور آئین کے مخالف نہیں‘‘۔ اس کو روایت کیا ہے اُس اخبار نویس نے جو اس باب میں قاضی صاحب اور مو لانا کا ہم مسلک ہے۔طالبان کراچی میں پولیس والوں کو مارڈالیں اور پھر ذمہ داری قبول کرلیں توبھی یہ حضرت صاحب ان کے حق میں دلیل تراش لیتے ہیں۔
تعصب بھی ایک نفسیاتی مرض ہے ، مو لانا مودودی کے الفاظ میں یک رُخاپن۔۔۔ لیکن میں یہاں اِس کا ذکر نہیں کر رہا ، میں اس جھنجھلاہٹ اورردِ عمل کی بات کر رہا ہوں جو اب کالموں اور اخباری مضامین میں بھی نمایاں ہوتی جا رہی ہے۔ چندسنجیدہ لکھنے والے عمران خان کے بیانات کو پڑھتے ہیں تو کڑھنے لگتے ہیں۔ان کے ذہن میں بناعمران کا مجسمہ شکست و ریخت سے دوچار ہے۔اس کی ایک اینٹ گرتی ہے تو ان کے جذبات کو ضرب لگتی ہے۔کچھ حکومتی اقدامات کو دیکھتے اور پھر جھنجھلا اُٹھتے ہیں ، انہیں حیرت ہوتی ہے کہ وزراء پہلے طالبان اور مذاکرات کے حق میں فضا بنا تے ہیں اور پھراچانک خبر دیتے ہیں کہ:اب مذاکرات جاری رکھنا زیادتی ہوگی۔ وہ اس تضاد کی توجیہ نہیں کر پاتے۔ حیرت سے سوچتے ہیں کہ جو بات ہماری سمجھ میں آ رہی ہے، وہ حکومتی مناصب پر براجمان خواتین و حضرات کو کیوں سمجھ نہیں آ رہی ۔ پھر شاید کہیں محرومی کا احساس بھی غالب آ جا تا ہے۔ایک طبقے کے چند افراد کے لیے حکومتی منصب ارزاں ہو جا ئیں تودوسروں کے لیے نفسیاتی توازن برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔کہیں تحت ا لشعور سے صدا اٹھتی ہے: ہم جیسے قابل لوگوں کی طرف آخر نگاہِ انتخاب کیوں نہیں اٹھی؟
میڈیا قوم کی سماعت بھی ہے اور بصارت بھی لیکن اس کے ساتھ دماغ بھی۔ آنکھ اور کان ، منظر اور صدا کا انتخاب نہیں کرتے، یہ دماغ ہے جو یہ فریضہ انجام دیتا ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ میڈیا سے وابستہ لوگ ذہنی طور پربیدار رہیں کہ قوم کو منظر اور صدا کی حقیقت بتاتے رہیں۔ میڈیا کا دماغ ، تجزیہ کار اور کالم نگار ہیں یا پھر وہ جو ٹی وی سکرین پرواقعات کا جائزہ لیتے دکھائی دیتے ہیں۔ نامہ نگار یا ٹی وی کیمرہ، واقعات بتا اور دکھادیتے ہیں لیکن تجزیہ نہیں کرتے۔ یہ ضروری ہے کہ واقعات کا سنجیدہ تجزیہ ہو تاکہ قوم ان سے وہی کچھ اخذ کرے جو درست ہو۔درست ہونا اگرچہ ایک مو ضوعی بات ہے لیکن عقل وخرد ایسا پیمانہ ہے جو اسے بڑی حد تک معروضی بنا دیتا ہے۔ اگر لکھنے والے خود ردِ عمل اور جھنجھلاہٹ کا شکار ہو جائیں گے تو پھر قوم کو درست بات کیسے معلوم ہوگی؟ لکھنے والا زیادہ حساس ہوتاہے لیکن بایں ہمہ ، زیادہ ذمہ دار بھی۔ اسے اپنے جذبات سے بلند ہو نا چاہیے۔
عوام کے نفسیاتی امراض اب خواص کو بھی لاحق ہونے لگے ہیں ، یہ اُس صورتِ حال کا ناگزیر نتیجہ ہے، یہ قوم جس میں کم و بیش پچیس برسوں سے مبتلا ہے۔ اس سرزمین پر 1979ء سے ہیجان، خوف اور بھوک کا راج ہے۔ اگرکبھی بھوک کم ہے تو ہیجان زیادہ ، اِن دنوں تینوں کا غلبہ ہے۔ پچیس برسوں میں ایک پوری نسل جوان ہو جاتی ہے۔ ہر نسل کے خیالات اُس کے اپنے تجربات کا حاصل ہو تے ہیں۔ وہ تاریخ کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔اسے ماضی کے واقعات سے کوئی دلاسہ دیا جا سکتا ہے نہ سہارا ۔ بصارت کی نفی صرف اسی وقت ممکن ہے جب بصیرت کسی تعصب، تقلید یا مفاد کی یرغمال بن جائے۔ چند افراد میں یہ ممکن ہو تا ہے لیکن زیادہ دیر کسی اجتماعیت کو یرغمال نہیں رکھاجا سکتا۔ مقبوضہ کشمیر کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ سید علی گیلانی اور بھارتی ریاست دونوں ماضی کے اسیر ہیں۔گیلانی صاحب یہ نہیں سمجھ رہے کہ تقسیمِ ہند کشمیر کی نئی نسل کا اُس طرح شخصی تجربہ نہیں جیسا اُن کا تھا ، اس لیے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اس نسل کی تفہیم بھی دوسری ہے۔ اسی طرح بھارتی ریاست کو بھی اس کی خبر نہیں کہ کشمیر کی نئی نسل نے جب ہوش سنبھالا ہے تو اس نے بھارتی فوج کو اپنی فوج نہیں،ایک غاصب قوت کی فوج کے طور پر دیکھا ہے۔ وہ فوج نہیں جوتحفظ کا احساس دلاتی ہے بلکہ ایسی فوج جو خوف کی علامت ہے ، جس کی بندوقوں کا رخ ہمیشہ شہریوں کی طرف ہوتا ہے۔اب نئی نسل کبھی بھارت کو اپنا ملک نہیں سمجھ سکتی۔1989ء کے بعد سے مقبوضہ کشمیر کے عوام جس کیفیت سے گزر رہے ہیں، اس نے لوگوں کی نفسیاتی ساخت کو تبدیل کر دیا ہے۔خوف اورگھٹن میں کوئی ذہنی طور پر متوازن نہیں رہ سکتا۔
پاکستانی سماج کا معاملہ بھی یہی ہے۔ ہم پچیس سال سے خوف کی کیفیت میں ہیں۔اب تو شریعت کو بھی خوف کی علامت بنا دیا گیا ہے۔ نفسیاتی عدم توازن میں ابہام کا غلبہ ہوتا ہے، جیسے سب اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہوں۔ ان حالات میں رائے ساز طبقات کے لیے لازم ہو تا ہے کہ وہ اپنا ذہنی توازن بر قرار رکھیں ، وہ کسی ردِ عمل کا شکارنہ ہوں ،کوئی شخصی یا وقتی مفاد انہیں کسی بڑی مفاہمت پر آ مادہ نہ کرے۔ مفاہمت ہم سب کرتے ہیں اور یہ زندگی کا ناگزیر حصہ ہے ؛ تاہم ایک مرحلہ ایسا آتا ہے جب ہمارا مفاد کسی بڑے اجتماعی مفاد سے متصادم ہو تا ہے۔ ایسے لمحوں میں خود کو سنبھالنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہمارے رائے ساز طبقے کو اس مرحلے پر اپنے آپ کو حالات کا ایندھن بننے سے بچا نا ہو گا۔ جھنجھلاہٹ، ردِ عمل اورشکست خوردگی سے دور رہنا ہوگا۔ابھی ایک موقع باقی ہے جب ہم پچیس سال کے بوجھ سے نجات پا سکتے ہیں۔
پاکستان کو اگر آگے بڑھنا ہے تو کچھ خیالات اور کچھ طبقات کو قصۂ پارینہ بننا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ اہلِ اقتدار کے ہاں، میں اس اندازِ نظر کی کوئی جھلک نہیں دیکھ رہا۔ یہ ذمہ داری اب لکھنے والوں اور رائے سازوں پر ہے کہ وہ قوم کو اس نفسیاتی کیفیت سے نکالیں جو ہیجان، خوف اوربھوک سے مرکب ہے۔ اس کے لیے پہلی شرط یہی یہ کہ وہ خود ردِ عمل اور مایوسی کا شکار نہ ہوں۔ زندگی افراد سے شروع ہوتی نہ ان پر ختم ہوتی ہے۔اگر کسی ایک فرد نے مایوس کیا تو ہمیں کہیں اور دیکھنا چاہیے۔ یقین رکھنا چاہیے کہ قدرت کے سوتے ابھی خشک نہیں ہوئے ؎
گلہ نہیں جو گریزاں ہیں چند پیمانے
نگاہِ یار سلامت، ہزار میخانے