مقدمہ یہ ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھائی جانے والی تاریخ مذہبی تعصب کو فروغ دیتی ہے۔ تعلیمی نصاب تاریخ کے جانبدارانہ اورغیر معروضی مطالعے پر مبنی ہے۔ یہ نصاب مذہبی اعتبار سے ایک رواداراور وسیع النظر سماج کی تشکیل میں مانع ہے، لہٰذا اسے بدل دینا چاہیے۔ میرا سوال یہ ہے: کیا تاریخ کا معروضی مطالعہ ممکن ہے؟
استدلال یہ ہے کہ ہمیں جو تاریخ پڑھائی جاتی ہے، اس میں محمد بن قاسم ہیرو ہیں اور راجہ داہر ولن ؛ حالانکہ محمد بن قاسم عرب تھے اور راجہ داہر ہمارا ہم وطن۔ محمود غزنوی ہندوستان کی دولت لوٹنے آئے تھے۔ ہم نے طالب علموں کو بتایا کہ وہ ہمارے ہیرو ہیں۔آزادی کے ہیروزکا تذکرہ ہو تا ہے تو ان میں گاندھی، نہرواوردلا بھٹی کا کوئی گزر نہیں۔ تاریخ کے اس مطالعے سے جو ذہن بنتا ہے،وہ دوسرے مذاہب کے بارے میں تعصب میں مبتلا ہوتا ہے، وہ ہندو کو پیدائشی مکار اور دشمن سمجھتا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ جب تک یہ نصاب مو جود ہے، پاکستان میں اقلیتیں محفوظ ہیں نہ پاک بھارت تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں۔اگر ہم ایک روادار سماج چاہتے ہیں تو اس نصاب کو بدلنا نا گزیر ہے۔ان دنوں انگریزی اخبارات میں ایسے مضامین بکثرت شائع ہو تے ہیںجن میں یہ مقدمہ پیش کیا جا تا ہے۔سنیچر، یکم مارچ کو،ایک انگریزی اخبارکے ادارتی صفحے پر ایک مضمون چھپا ہے:کیا تاج محل پاکستان کا ہے؟مضمون نگار کا کہنا یہ ہے کہ اگر پاکستان کی تاریخ سے مراد ہندوستان کے مسلمانوں کی تاریخ ہے اور محمد بن قاسم 'پہلے پاکستانی‘ ہیں تو پھر تاج محل بھی پاکستان کا ہوا۔ان کا مقدمہ یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ اور مسلمان قوم کی تاریخ ایک نہیں ہے۔اس ضمن میں وہ ایک نئی کتابMuslim zion کا حوا لہ دیتے ہیں جس میں ایک بات یہ کہی گئی ہے کہ پاکستان کی تاریخ اس کی سرحدوں سے باہر لکھی گئی ۔تحریکِ پاکستان ہندوستان کے ان علاقوں میں پروان چڑھی جو پاکستان کا حصہ نہیں بنے۔اگر پاکستان ایک جغرافیہ بھی ہے تو پھر موئن جودڑو(مرنے والوں کاٹبہ، جسے عموماً موہنجوداڑوکہاجاتاہے) اور ہڑپہ جیسے علاقے اور تہذیبیں، اس کا تاریخی پس منظر شمار ہوں گی۔ میرا دوسراسوال ہے : پاکستان جغرافیہ ہے یا نظریہ یا پھر دونوں کا اجتماع؟
جہاں تک تاریخ کے معروضی مطالعے کی بات ہے تویہ ممکن ہے اور نہ کبھی ممکن ہوا ہے۔ تایخ کا ہر واقعہ ایک سے زیادہ تعبیرات رکھتا ہے۔ مسلمانوں میں سب سے بڑا گروہی اختلاف سنی اور شیعہ اختلاف ہے۔ اس کی اساس تاریخ کی دومتضاد تعبیروں میں ہے جن کا آ غاز عہدِ رسالت ﷺ ہی سے ہو جا تا ہے۔ پاکستان کی تاریخ کو دیکھیں تویہ سقوطِ ڈھاکہ ہو یا بھٹو صاحب کی پھانسی، ان واقعات کی کوئی متفق علیہ تعبیر موجود نہیں ہے۔ بنی اسرائیل کی تاریخ یہود کے ہاں کچھ اور ہے، مسیحیوں کے ہاں کچھ اور۔انسانی تاریخ اس طرح آگے نہیں بڑھتی کہ پہلے واقعہ ہوتاہے اور پھر تعبیر۔اس کی ترتیب الٹ ہے۔ پہلے ایک نقطہ نظر وجود میں آتاہے،کچھ لوگ اسے اختیارکرتے ہیں ، یوں سیاسی وسماجی سفرآگے بڑھتا ہے جو واقعات کو جنم دیتا ہے۔اس طرح ہر نقطہ نظر کے تحت تاریخ کی ایک تعبیر وجود میں آتی ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ نقطہ نظر ان واقعات کی بھی اپنے زاویے سے تعبیر کرتا ہے جن کا تعلق اس نقطہ نظرکے وجود میں آنے سے پہلے کی تاریخ سے ہو تا ہے۔ مارکس نے ایک نقطہ نظر اختیار کیا، پھراپنے عہد کے واقعات کی اس کے مطابق تعبیر کی۔ یہی نہیں، ان واقعات کی بھی جو ان سے پہلے گزر چکے تھے۔انسان کا معا ملہ وہی ہے جو ارسطو نے بیان کیا۔۔۔ وہ شیطان ہو تا ہے نہ دیوتا، خیر وشرکا مجموعہ ہوتا ہے۔ تاریخ میں دونوں واقعات جمع ہو جاتے ہیں۔ایک گروہ جب ایک نقطہ نظراختیارکر لیتا ہے تودوسرے کی نفی کردیتا ہے۔ یوںتاریخ کی معروضیت ایک کتابی بات بن جاتی ہے۔ اس لیے یہ مطالبہ شاید حقیقت پسندانہ نہیں ہے کہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں ایسی تاریخ پڑھائی جائے جو معروضی ہو۔ یہ دنیا میں کہیں نہیں ہوتا،نہ ہوا ہے۔تحقیق کی اعلیٰ ترین سطح پر یہ کسی حد تک ممکن ہے لیکن ہر ملک میں وہی تاریخ پرھائی جائے گی جو اس کے قومی موقف(Narrative) کے مطابق ہوگی۔یہی بھارت میں بھی ہوتاہے۔ وہاں جنگ آ زادی کے ہیروز میں قائد اعظم کا ذکر نہیں ہے۔ایک امریکی مصنفہ کی انگریزی کتاب ''ہندو۔۔۔ ایک متبادل تاریخ‘‘ شائع ہوئی تو اس پر پابندی کا مطالبہ ہوا۔ یہ دبائواتنا بڑھا کہ پینگوئن جیسے ادارے کو چار سال مقدمہ لڑنے کے بعد بھی ایسے عناصر سے مفاہمت کرنا پڑی۔
رہی بات تاریخِ پاکستان کی تویہ ایک الجھا ہوا سوال ہے۔ پاکستان کاقیام جدید تاریخ کاایک منفرد واقعہ ہے۔قومی ریاست کے غالب تصورکے عہد میں ایک ایسی ریاست قائم ہو رہی تھی جس نے جغرافیہ یا کسی نسل کے بجائے ایک نظریے کو اپنی بنیاد بنایا تھا۔ بطورایک نظریاتی ریاست ، اسے اپنا ماضی اس نظریہ سے وابستہ بتانا تھا۔ یوں وہ اپنا سلسلہ محمد بن قاسم سے جوڑتی ہے۔اسی نظریے کا تقاضا ہے کہ وہ محمود غزنوی کو بھی اپنا سمجھے کیونکہ وہ 'غیر ملکی ہونے کے باوصف اس کا نظریاتی بھائی ہے۔ تاہم پاکستان ایک جغرافیہ بھی ہے‘ اس اعتبار سے بھی اس کی ایک تاریخ ہے۔ یہ تاریخ اس کے ماضی کو موئن جودڑواور ہڑپہ سے جا ملا تی ہے۔ میرے خیال میں تاریخِ پاکستان کا مسئلہ اُس وقت الجھتا ہے جب کچھ لوگ اسے محض نظریہ سمجھتے ہیں اورپھر نظریے کی بھی اپنی اپنی تعبیر ہے۔ ایک گروہ وہ ہے جو پاکستان کو محض جغرافیہ سمجھتا ہے ، اس لیے وہ اس تاریخ کو قبول کرنے سے ہچکچاتا ہے جس کا تعلق ان علاقوں سے ہے جہاں تحریکِ پاکستان منظم ہوئی کیونکہ وہ اب اس جغرافیے کا حصہ نہیں ہیں جو آج پاکستان کہلاتا ہے۔ پہلا نقطہ نظر خلافت کے قدیم پس منظر(Paradigm) میں سوچ رہا ہے اور دوسرا قومی ریاست کے جدید پس منظر میں۔
پاکستان کو ایک مسلم نیشن سٹیٹ سمجھے بغیر شاید یہ تنازع حل ہو سکے۔مسلم سٹیٹ کے حوالے سے یہ محمد بن قاسم،محمود غزنوی اور اورنگزیب کی قائم کردہ ریاست کی صدائے بازگشت ہے ، یوں یہ اس کی تاریخ کا حصہ ہیں۔ بایں ہمہ، یہ ایک خطے کا نام ہے جو 14 اگست 1947ء سے پہلے بھی موجود تھا ۔ چونکہ پاکستان کے نظریاتی اورعلاقائی پس منظر میں تفاوت ہے،اس لیے ہمیں اپنی نظریاتی اور جغرافی تاریخ میں فرق کر نا پڑے گا۔میرا خیال ہے اس فرق کے ساتھ اگر ہم طلبا وطالبات کو تاریخ پڑھائیں تو شاید یہ مسئلہ حل ہو سکے۔ پھر شاید یہ سوال نہ اٹھا نا پڑے کہ کیاتاج محل پاکستان کا حصہ ہے؟رہی بات مذہبی رواداری کی تو اس کے لیے مذہب اور اہلِ مذہب کو جدا کرنا پڑے گا۔دنیا کے معروف مذاہب میںکوئی ایسا مذہب میرے علم میں نہیں جو جھوٹ اور ظلم کو جائز کہتا ہو۔جو انسانی جان کی حرمت کا قائل نہ ہو۔مذہب کو آر ایس ایس یا ٹی ٹی پی کے طرزِ عمل سے نہیں،ان کی بنیادی تعلیمات سے سمجھا جائے تو مذہبی رواداری پیدا ہو سکتی ہے۔ ہم مسلمان اپنی تاریخ میں بعض ایسے کرداردیکھتے ہیں جو انسانیت کے نام پر دھبہ ہیں لیکن ہم انہیں اسلام کا نمائندہ کردار نہیں کہتے۔اسی طرح ہم اگر کسی ہندوکی مکاری کو اس کے مذہب کے بجائے،اس کی ذات سے منسوب کریں تو مذہبی رواداری پیدا ہو سکتی ہے۔ متحدہ ہندوستان میں یہ مشکل تھا کیونکہ مسلمانوں اور ہندوئوں میں ،مفادات کا براہ راست تصادم تھا۔تقسیم در اصل اسی تصادم سے بچنے کی ایک ترکیب تھی ؛ تاہم آج ہم مذہب اور اہلِ مذہب کو الگ کر سکتے ہیں۔آج ہندو مسلم اختلاف موجود نہیں ہے۔ پاکستان اور بھارت کے مفادات کا تصادم البتہ مو جود ہے۔انہیں اسی اصول پر دیکھنا چاہیے جس پردنیا کی کوئی سی دو ریاستوں کا اختلاف ہوتا ہے ، جیسے سعودی عرب اور ایران یا جاپان اور چین۔