طالبان کے باب میں حکومت کا نقطہ نظر کیا ہے؟ ابہام کا ایک در پوری طرح بند نہیں ہوتا کہ دوسرا کھل جاتا ہے۔ وزیر داخلہ نے ملک کے سب سے بڑے قانون ساز ادارے کو بتایا ہے کہ طالبان کی اکثریت امن چاہتی ہے اور وہ پاکستان دشمن نہیں۔ ان کو تو جنرل مشرف سے شکایت تھی کہ انہوں نے طالبان کے ساتھ زیادتیاں کیں۔ اسی سانس میں وہ یہ بھی انکشاف کرتے ہیں کہ دہشت گردوں نے طیارے سے اسلام آباد پر بمباری کا منصوبہ بنایا تھا۔ آپ ان دونوں باتوں میں تطبیق تلاش کیجیے۔ میں تو ایک اور بات سوچ رہا ہوں: اگر ایک گروہ کی اکثریت امن پسند اور محبِ وطن ہے تو کیا اس کے خلاف طاقت کا استعمال اخلاقاً جائز ہو گا؟ یقیناً نہیں۔ اس کے بعد سخت اقدام کا جواز ‘ کم از کم اخلاقی طور پر ختم ہو جاتا ہے۔ اس بحث کا ایک پہلو اور بھی ہے۔ معلوم ہوا کہ اہلِ پاکستان کے اعلانیہ قتلِ عام کے بعد بھی ایک گروہ کی امن پسندی مجروح ہوتی ہے نہ ملک سے محبت۔ گویا ملک کسی اور شے کا نام ہے اور عوام کسی اور کا۔ ایسا تو روایتی سکیورٹی سٹیٹ میں بھی نہیں ہوتا۔
ابہام در ابہام۔ میں نہیں جان سکا کہ کیوں؟ حکومت آخر اس معاملے میں اپنا نقطہ نظر واضح کرنے میں ناکام کیوں ہے؟ وزیر داخلہ جیسا فصیح آ دمی اگر اس پر قادر نہیں تو پھر حکومت کے دل کی بات عوام کو کون بتا ئے گا؟ طالبان ہمیں معلوم ہے، جدید لغت میں عسکریت پسند کو کہتے ہیں۔ یہ لفظ اپنے لغوی مفہوم سے اٹھ چکا۔ زبانوں کی تاریخ میں ایسا ہوتا ہے، جیسے 'کروسیڈ‘ انگریزی لغت میں اپنے تاریخی پس منظر سے جدا ہو کر ایک نئے مفہوم میں مستعمل ہے۔ آج پاکستان میں طالبان (عسکریت پسندوں) کے بہت سے گروہ ہیں۔ ان میں اگر فرق ہے تو حکمت عملی کا ہے، بنیادی تصور کا نہیں، اصلاً سب عسکریت پسند ہیں۔ جو نہیں، ظاہر ہے کہ اسے طالبان کی فہرست میں نہیں رکھا جا سکتا۔ یہ سب ریاست کے خلاف مسلح جدوجہد کے حامی ہیں۔ ان کا مسئلہ مشرف نہیں، ریاست پاکستان اور بطورِ خاص اس کا ایک ادارہ۔۔۔ فوج ہے۔ پاکستانی آئین اور فوج کے بارے میں انہوں نے اپنا نقطہ نظر بیان کرنے میں کبھی کسی ابہام کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اب طالبان کیا ہیں، یہ ہم طالبان سے جانیں گے یا کسی مذہبی اور سیاسی رہنما سے؟ ان کی ترجمانی شاہداللہ شاہد کریں گے یا کوئی بزعمِ خویش ترجمان؟ جمہوریت اور آئین کے بارے میں طالبان کا موقف ہم شاہداللہ شاہد سے جانیں گے یا مولانا سمیع الحق سے؟
خود ساختہ ترجمانی کا چلن ہمارے ہاں عام ہے۔ تصوف پر گفتگو ہوتی ہے تو لوگ کہتے ہیں تصوف 'ہمارے نزدیک‘ یہ ہے۔ میرے جیسا طالب علم یہاں بھی سوال اٹھاتا ہے کہ تصوف کیا ہے، یہ ہم ابن عربی اور غزالی سے جانیں گے یا کسی نومولود ترجمان سے؟ یہ ہم 'منازل السائرین‘ اور 'کشف المحجوب‘ سے سیکھیں گے یا 'اسرارِ روحانیت‘ سے؟ آپ کو یہ حق تو ہے کہ آپ ان بزرگوں کے افکار اور تحریروں کی اپنی توجیہہ یا شرح کریں لیکن تصوف کیا ہے، اس کے لیے ان کی بات ہی مستند ہو گی جو تصوف کے آئمہ شمار ہوتے ہیں۔ اسی طرح طالبان کیا ہیں، یہ ہم شاہداللہ شاہد صاحب سے جانیں گے یا ان کی مستند ویب سائٹ اورکتب سے۔ اس سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے، وہ میں نے بیان کر دیا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا ریاست پاکستان، اس نقطہ نظر کو قبول کر سکتی ہے؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ اسے جو کچھ کرنا ہے وہ یہی ہے کہ وہ اس موقف کے حامیوں کو ان کی غلطی کی طرف متوجہ کرے۔ جو اس سے رجوع کر لیں، انہیں جان و مال کا تحفظ دے اور انہیں پُرامن زندگی گزارنے کا راستہ دکھائے۔ جو اس پر آ مادہ نہ ہوں، ان کے خلاف اقدام کرے۔ مذاکرات اسی بات پر ہونے چاہئیں۔
حکومت کا موقف اس باب میں چونکہ واضح نہیں، اس لیے ہر نیا بیان ایک نئی بحث چھیڑ دیتا ہے۔ میں یہ بات پہلے بھی لکھ چکا کہ اس عمل میں کوئی تیسری قوت نہیں ہوتی۔ آج کی تیسری قوت کل دوسری قوت ہو گی اور یوں ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہے گا۔ طالبان میں تقسیم، عالمِ خیال کی بات ہے، سطحِ زمین کی نہیں۔ اس باب میں حکومت کی حکمت عملی صرف دو نکاتی ہونی چاہیے۔ جو لوگ عسکریت پسندی کا راستہ اختیار کر چکے، انہیں کیسے واپس لایا جائے اور دوسرا یہ کہ سماج میں کس طرح اس موقف کو پھیلنے سے روکا جائے۔ میں جانتا ہوں کہ یہ کام اتنا سادہ نہیں کہ دو دنوں میں ہو جائے، لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ فکری یک سوئی اس سفر کا پہلا قدم ہے۔ آپ کو یہ تو معلوم ہو کہ آپ کرنا کیا چاہتے ہیں۔ میں پھر عرض کرتا ہوں کہ طالبان میں اختلاف یہ نہیں ہے کہ کوئی ہتھیار اٹھانا چاہتا ہے اور کوئی نہیں۔ اس پر سب متفق ہیں۔ اختلاف اگر ہے تو حکمت عملی کا ہے یا قیادت کا۔ مجھے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بہت سے نوجوانوں نے اخلاص کے ساتھ یہ راستہ اختیار کیا ہے۔ مدارس اور بعض دوسری جگہوں پر ان کی ذہن سازی ہوئی ہے۔ وہ حمیتِ دین میں، اس راہ پہ چل پڑے ہیں۔ کسی اقدام سے پہلے انہیں یہ سمجھانا ہے کہ اس دور میں دین سے محبت کا تقاضا کیا ہے اور خدمتِ دین کا درست منہج کیا ہے۔ یہ کام ظاہر ہے کہ کوئی صاحبِ علم کر سکتا ہے۔ ایسا لٹریچر کر سکتا ہے جو اس موقف کی فکری غلطی کو واضح کرتا ہو۔ جب تک ہم پر یہ بات واضح نہیں ہو گی، طالبان کے بارے میں کسی حکمت عملی کو نتیجہ خیز نہیں بنایا جا سکتا۔
جس بات کو حکومت مسلسل نظرانداز کر رہی ہے، وہ اس کا جمہوری تشخص ہے۔ جمہوری حکومت اور عوام کے مابین ابلاغ کی کمی نہیں ہونی چاہیے۔ عوام پر جب تک واضح نہ ہو کہ حکومت کیا کر رہی ہے یا کیا کرنا چاہتی ہے، اس وقت تک اسے عوام کی تائید نہیں مل سکتی۔ جمہوری حکومت کی اصل طاقت عوام کی حمایت ہوتی ہے، اس حمایت کے لیے عوام کا یہ جاننا ضروری ہے کہ حکومت کا موقف کیا ہے۔ حکومت حکمت عملی کو خفیہ رکھ سکتی ہے کہ بعض اوقات اس کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن حکومت کیا نتیجہ چاہتی ہے، یہ تو معلوم ہونا چاہیے۔ امن کی خواہش ایک مبہم تصور ہے۔ سوال یہ ہے کہ مسلح گروہوں کی موجودگی میں کیا امن ممکن ہو سکتا ہے؟ قوم اس حوالے سے حکومتی موقف سے واقف نہیں۔ اس حوالے سے بھی ابہام دور ہونا چاہیے۔
مذاکرتی کمیٹیوں کے بارے میں بھی مسلسل ابہام ہے۔ اب کہا جا رہا ہے کہ نئی کمیٹی بنے گی اور موجودہ بھی قائم رہے گی۔ میجر عامر صاحب کے نزدیک مذاکراتی کمیٹی کی اگر کوئی افادیت تھی بھی تو اب باقی نہیں رہی۔ ان جیسا سنجیدہ آ دمی اگر یہ بات کہہ رہا ہے تو اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس سارے عمل میں اگر کہیں ابہام نہیں ہے تو وہ طالبان کا محاذ ہے۔ ان کا موقف، حکمت عملی، سب واضح ہے۔ اس سے بڑھ کر کامیابی کیا ہو گی کہ وہ دہشت گردی کے ہر واقعے کے بارے میں دو آرا پیدا کر دیتے ہیں۔ اسلام آباد کے حادثے پر طالبان کے ایک حامی اخبار نویس نے خفیہ ایجنسیوں کی حوالے سے یہ لکھ دیا ہے کہ طالبان اس میں ملوث نہیں۔ خفیہ ایجنسی نے اس کی تردید نہیں کی۔ اس وقت حکومت اور طالبان میں اگر فرق ہے تو یہی۔ طالبان واضح ہیں کہ انہیں کیا کرنا ہے، حکومت واضح نہیں۔ معلوم ہوا کہ حکمت عملی اور موقف کے لیے صرف مادی وسائل کی نہیں، کسی اور چیز کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔