"KNC" (space) message & send to 7575

جماعت اسلامی… نیا امیر یا نیا دور؟

سید منور حسن رخصت ہوئے۔
شخصی اوصاف کے باوصف، واقعہ یہ ہے کہ اُن کا دورِ امارت جماعت اسلامی کے لیے ایک آ زمائش ثابت ہوا۔ جماعت کے ارکان، اُن سے جس حلم، بردباری اور حکمت کی تو قع رکھتے تھے، وہ پوری نہیں ہوئی۔ انہیں اپنے امیر کا دفاع کرنے میں مشکل پیش آئی۔ اس لیے انہوں نے اپنی روایت کے برخلاف ایک فیصلہ دیا۔ جماعت کی روایت یہ ہے کہ جب تک امیر خود معذرت نہ کرے، جماعت اِس منصب کے لیے کسی دوسرے فرد کا انتخاب نہیں کرتی۔ اس بار ایسا نہیں ہوا۔ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ جماعت سے خود احتسابی کی روایت رخصت نہیں ہوئی۔ دوسری مذہبی و سیاسی جماعتوں کے برعکس، یہاں اپنی قیادت سے محبت شخصیت پرستی میں نہیں ڈھلی۔ مذہبی جماعتوں میں بالخصوص، ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ایک شخص مسلط ہو جائے تو جانے کا نام نہیں لیتا۔ اگر اکثریت اُس کے خلاف ہو جائے تو وہ اپنا گروہ لے کر الگ ہو جاتا ہے۔ اِس وقت کوئی مذہبی جماعت ایسی نہیں جس کے بے شمار دھڑے موجود نہ ہوں۔ حروف تہجی ختم ہو جاتے ہیں، گروپ ختم نہیں ہوتے۔ جماعت اسلامی میں کبھی ایسا نہیں ہوا۔ لوگ مختلف وجوہ سے الگ ہوئے لیکن اس سے جماعت اسلامی کا کوئی، ق، س گروپ وجود میں نہیں آیا۔ دو دفعہ ایسا ہوا کہ قیادت پر عدم اعتماد کرتے ہوئے، بعض حضرات نے جماعت سے علیحدگی اختیار کی اور خود کو گروہی صورت میں منظم کیا۔ انہوں نے نئے نام سے جماعتیں بنائیں لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی دور میں جماعت اسلامی نام کی دو جماعتیں موجود رہی ہوں۔ 
جماعت اسلامی نے ان انتخابات میں اپنی یہ انفرادیت بھی قائم رکھی کہ جمہوری طریقے سے اپنے امیر کو منتخب کیا۔ اخلاقی زوال کے اس دور میں یہ بات کم اہم نہیں کہ یہاںقیادت کے لیے لابنگ ہوتی ہے اور نہ کوئی امیدوار ہوتا ہے۔ اگر کہیں کوئی ایسی کوشش ہوئی بھی تو زیرِ زمین۔ یہ جماعت کا کلچر نہیں ہے۔ یہاں امارت کا منصب کسی خاندان کے لیے خاص ہے نہ فرد کے لیے۔ ایک مسئلہ البتہ جماعت کی تاریخ میں رہا اور اس کا سامنا اب بھی ہو سکتا ہے۔ جماعت کے کسی سابق امیر کے لیے، یہ مشکل ثابت ہوا کہ وہ نئے امیر کے ساتھ دوستانہ ماحول میں کام کر سکے۔ یہ معاملہ میاں طفیل محمد اور قاضی حسین احمد کے مابین رہا اور یہی کچھ قاضی صاحب اور منور صاحب کے درمیان بھی ہوتارہا؛ تاہم اس کی نو عیت وہ نہیں تھی جو دوسری جماعتوں میں ہوتی ہے۔ میاں صاحب قاضی صاحب کے ناقد تھے لیکن قاضی صاحب نے جواباً ان کے احترام میں کوئی کمی نہیں کی۔ اسی طرح منور حسن نے بھی اس معاملے کو کبھی کسی بڑے تنازعے کا سبب نہیں بننے دیا۔ اب یہ منور صاحب کی آز مائش ہو گی اور سراج الحق صاحب کے لیے بھی۔ 
سراج الحق صاحب کے لیے کچھ آزمائشیں اس کے سوا ہیں۔ ان کو مخاطب بنائے بغیر، مستقبل کے لیے جماعت کی حکمت عملی واضح نہیں ہو سکے گی۔ میں تین امور کی نشا ندہی کرنا چاہتا ہوں۔
1: جماعت اسلامی کو یہ طے کرنا ہے کہ اس نے دعوتی و جمہوری پیراڈائم میں کام کرنا ہے یا جہادی پیراڈائم میں۔ اپنے دستور کی روشنی میں جماعت آئینی اور جمہوری دائرے میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی پابند ہے۔ مولانا مودودی اور میاں طفیل محمد بھی اسی پر کاربند رہے۔ قاضی حسین احمد مرحوم کے دور میں البتہ جماعت نے دوسرا پیراڈائم بھی اختیار کیا جب جہادِ افغانستان میں بطور جماعت شمولیت کا فیصلہ کیا۔ ابتدا میں یہ بات زیادہ ضرر رساں ثابت نہیں ہوئی کہ یہ ریاست کی معاونت اور چھتری تلے ہو رہا تھا۔ بعد میں البتہ اس میں پیچیدگی پیدا ہوئی جب ریاست نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی۔ منور حسن صاحب کے دور امارت میں تو معاملہ دونوں میں سے کسی ایک کے انتخاب کا ہو گیا۔ منور صاحب نے واضح طور پر اپنا وزن القاعدہ اور طالبان کے پلڑے میں ڈال دیا۔ اس مرحلے پر جماعت کے لوگوں نے جس طرح اپنے امیر کا دفاع کیا، اس کے بعد یہ جماعت کا نقطہ نظر قرار پایا۔ اس کے شواہد بھی موجود ہیں کہ جماعت اسلامی کے بہت سے افراد نے اپنے لیے جہادی پیراڈائم کو اختیار کیا۔ میرے نزدیک یہ قاضی صاحب اور منور حسن کے موقف کا منطقی اور ناگزیر نتیجہ تھا۔ اگر اسامہ بن لادن اور حکیم اللہ محسود شہید ہیں تو جماعت کے کئی لوگوں کا انتخاب بھی شہادت ہی ہو گا۔ جماعت اسلامی نے جب اپنے امیر کا دفاع کیا تو میڈیا پر ان کے موقف کی کمزوری پوری طرح عیاں ہوگئی۔ اس سے جماعت کے داخلی حلقوں میں بھی غوروفکر کا عمل شروع ہوا۔ اس کا ایک مظہر جماعت کے نئے امیر کا انتخاب ہے۔ میرے خیال میں سراج الحق صاحب کے لیے بڑا چیلنج یہ ہے کہ جماعت نے اب حکمت عملی کے باب میں کس پیراڈائم کو اختیار کرنا ہے۔ یہ طے ہے کہ جمہوری اور جہادی پیراڈائم ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔
2 : جماعت اسلامی کے نئے امیر کے لیے ناگزیر ہے کہ وہ جماعت کے تنظیمی و فکری تشخص کے بارے میں بھی واضح ہو۔ جماعت ایک اسلامی تحریک ہے یا اقتدار کی کشمکش میں فریق ایک سیاسی جماعت؟ دونوں کے مطالبات مختلف بھی ہیں اور متضاد بھی۔ اس تضاد کو مولانا مودودی جیسی ہمہ جہتی شخصیت کے لیے بھی نبھانا ممکن نہ ہو سکا۔ ایک اسلامی تحریک کے لیے پوری قوم مدعو ہے اور وہ داعی۔ وہ سیاسی کشمکش میں فریق نہیں ہے۔ اس کا مخاطب ہر جماعت کا ہر فرد ہے۔ اس کے برخلاف اقتدار کی کشمکش میں وہ ایک فریق ہے۔ دوسرے اس کے حریف ہیں۔ دعوتی تحریک اور سیاسی جماعت میں یہی ایک فرق نہیں ہے‘ لیکن اسی سے واضح ہو جاتا ہے کہ دونوں کو ایک ساتھ نہیں چلایا جا سکتا۔ جماعت اسلامی جب دعوتی پیراڈائم میں سوچتی اور کام کرتی تھی تو انتخابات میں حصہ لینے کو توسیع دعوت کا ایک موقع سمجھتی تھی۔ خرم مراد مرحوم نے آکر واضح کیا کہ انتخابات جیتنے کے لیے لڑے جاتے ہیں، توسیعِ دعوت کے لیے نہیں۔ اسلامک فرنٹ نے ابتدا میں خرم صاحب ہی کے کارگاہء فکر میں جنم لیا۔ سراج الحق صاحب کو دیکھنا ہے کہ جماعت اسلامی ایک سیاسی جماعت بنے گی یا اسلامی تحریک؟
3: برصغیر کے سیاسی و فکری افق پر جماعت اسلامی کا ظہور ایک فکری و نظری تشخص کے ساتھ ہوا۔ تدریجاً یہ امتیاز ختم ہوتا گیا۔ قاضی حسین احمد صاحب کے دور میں روایتی دینی فکر اور جماعت یک جان و دو قالب ہو گئے۔ جماعت، جمعیت علمائے اسلام ہی کا ایک گروپ بن گئی۔ اب اس نے دین کے اُس فہم کو بطور جماعت اپنا لیا جو دیوبند کے فکری ٹیکسال میں ڈھلا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اہلِ دیوبند اب تک اسے قبول کرنے پر آ مادہ نہیں۔ اگر جماعت نے ایک سیاسی جماعت کے تشخص کے ساتھ جینا ہے تو پھر یہ بات زیادہ اہم نہیں۔ اگر وہ اسلامی تحریک کے تشخص پر اصرار کر تی ہے تو پھر نظری امتیاز اس کا بنیادی مسئلہ ہے۔ اس صورت میں تجدید و احیائے دین کے بغیر یہ سفر آگے نہیں بڑھ سکتا۔
اخلاقی زوال کے اس عہد میں جماعت اسلامی امید کی ایک کرن بن سکتی ہے لیکن اس کے لیے جماعت کی فکری و تنظیمی کایا پلٹ ضروری ہے۔ اس کے لیے میں نے بعض باتوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ سراج الحق صاحب اس کا کتنا ادراک رکھتے ہیں، اس کا اندازہ آنے والے دنوں میں ہو گا۔ ان کے شخصی رجحانات کو سامنے رکھتے ہوئے، بعض باتیں لکھی جا سکتی ہیں لیکن سرِدست میں ان کے لیے دعاگو ہوں۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہمت دے کہ ان کی قیادت میں جماعت اسلامی ملک اور قوم کے لیے ایک اثاثہ ثابت ہو۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں