"KNC" (space) message & send to 7575

کیا بھٹوسیکولرتھے ؟

پاکستان کے مذہبی طبقات کا متفقہ فیصلہ ہے کہ بھٹو صاحب ایک سیکولرآ دمی تھے۔ سیکولرطبقہ بھی اُن کے بارے میں یہی خیال رکھتاہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا بھٹو صاحب کی تقاریراور بیا نات سے اس موقف کی تائید ہو تی ہے؟
میرا تعلق جس نسل سے ہے، اس کے لیے بھٹو صاحب تاریخ ہیں۔ تاریخ کے لیے زیادہ ترکتابوں سے رجوع کیا جاتا ہے۔ بھٹو صاحب کے خیالات ہم ان کے مضامین اور تقریروں سے جان سکتے ہیں یا بطورحکمران ان کے اقدامات سے۔ ان کے فکر اور عہدِ اقتدار پرکوئی مر بوط تحقیقی کاوش میری نظر سے نہیں گزری۔ 1970ء کی دہائی میں Politics of People کے عنوان سے ان کی تقاریر اور مضامین کو جمع کیا گیا۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ جب وزیر اعظم بنیں توفخرزمان صاحب کی سر پرستی میں بعض مجموعے شائع ہوئے، یہ کام غنیمت ہے لیکن بہت ناقص۔ مثال کے طور پر ایک تقریرکتاب میں شامل ہے لیکن یہ معلوم نہیں ہوتاکہ یہ کب اورکہاں کی گئی۔ اشاعت کا معیار بھی بہت پست ہے۔ میں نے چند سال پہلے چودھری منظوراحمد صاحب کو مشورہ دیا تھا کہ وہ پارٹی کی بنیادی دستاویزاور بھٹو صاحب کے اس ورثے کو محفوظ کرنے کوکوئی منصوبہ بنائیں۔ بد قسمتی سے یہ تجویزان کی ترجیحات میں جگہ نہ پا سکی ، اس لیے آج اگر پاکستان کی سیاست کاکوئی طالب علم بھٹو صاحب کے فکری ارتقا اور رجحانات کو سمجھنا چاہے تو اسے بہت دقت پیش آتی ہے۔ میں نے ایک مرتبہ اپنی کتاب ''اسلام اور پاکستان‘‘ کے لیے جب کچھ مواد جمع کیا تو بھٹو صاحب کی کتب، تقاریر اور مضامین تک رسائی کی مقدور بھرکوشش کی، جوکچھ میں جان سکا وہ کم حیرت انگیز نہیں۔ بھٹو صاحب کے اس سارے کام سے مذہبی طبقات کا مقدمہ ثابت نہیں ہوتا۔ بھٹو صاحب نے کہیں نہیںکہا کہ وہ پاکستان کوایک سیکولر سٹیٹ بناناچاہتے ہیں۔ پاکستانی سیاست کے تناظر میں انہوں نے کبھی سیکولرازم کی اصطلاح استعمال نہیںکی۔ انہوں نے جوکچھ کہا وہ اس کے برخلاف ہے۔ میں بعض تاریخی حوالے یہاں نقل کررہا ہوں۔
بھٹو پرمذہبی طبقے کا بڑاالزام یہ تھاکہ وہ سوشلزم کے قائل ہیںاور سوشلزم کفر ہے۔ اب دیکھیے کہ بھٹو صاحب خود اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے ابتدائی دور میں، پشاور میں انہوں نے کہا: ''معاشی اور سماجی پہلوؤں کے حوالے سے اسلام اور سوشلزم میں کوئی فرق نہیں۔ اگر ان میں اختلاف ہوتا تو میں سوشلزم چھوڑ دیتا‘‘۔ 18نومبر1970ء کو انہوں نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہا کہ اسلامی سوشلزم کی اصطلاح انہوں نے 'ایجاد‘ نہیں کی۔ انہوں نے اسے قائد اعظم سے لیا جو ان کے ضمیرکی آواز بنی۔ پھروہ اپنی بات کی تائید میں قائد اعظم کی 26، مارچ 1948ء کا ایک اقتباس نقل کرتے ہیں جس میں قائد نے یہ اصطلاح استعمال کی۔اس کے ساتھ وہ لیاقت علی خان اورحسین شہید سہروردی کے حوالے بھی دیتے ہیں۔ وہ اس کی وضاحت کرتے ہیں کہ جس طرح جمہوریت نے مغرب کے نظام ِ فکر میں جنم لیا اور مذہبی جماعتوں نے اسے اپنے پس منظر میں قبول کر لیا، اسی طرح سوشلزم کو بھی ہم اپنی روایت کے مطابق قبول کریں گے۔''اسلامی مملکت میں سوشلزم کیوں؟‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی بنیادی دستاویز میں وہ کہتے ہیں: ''پاکستان کے مخصوص حالات میں ہی سوشلزم کے اصولوں کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔کسی ملک کے پہنے ہوئے کپڑوں سے کام نہیں چلے گا۔ سوشلزم کے اصولوں پر عملدرآمد، ہماری مذہبی، سماجی اوراقتصادی اقدارکے مطابق ہی ہو سکے گا‘‘۔
8 مارچ 1970ء کو موچی دروازہ لاہور میں بھٹو صاحب نے جو تقریر کی، اس میں انہوں نے اسلامی سوشلزم کے حق میں دلائل دیے۔ان دلائل میں قائل کرنے کی بے پناہ صلاحیت ہے۔ اسی تقریر میں انہوں نے کہا: ''ہم اسلام کو ایک مکمل ضابطۂ حیات سمجھتے ہیں‘‘۔ یہ جملہ مولا نا مودودی کے زیر اثر ہماری فکری روایت کا حصہ بنا۔ جوآدمی اسلام کو مکمل ضابطۂ حیات سمجھتا ہو، وہ سیکولرکیسے ہوسکتا ہے؟ یہ سوال اہلِ مذہب اور سیکولر، دونوں طبقات کے لیے غور وفکرکی دعوت ہے۔ مجھے اس پر بھی بہت حیرت ہے کہ 'نظریہ پاکستان‘ کا تصور بھی بھٹو صاحب کی تقریروں میں بہت کثرت سے زیرِ بحث آیا۔ انہوں نے کبھی اس کی نفی نہیںکی ، البتہ اس کی تاویل کی ہے۔اسی موچی دروازے کی تقریر میں انہوں نے کہا کہ لوگ نظریہ پاکستان کی بات کرتے ہیں، میں بتا تا ہوں کہ اس کا اصل مفہوم کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ''نظریہ پاکستان کا مفہوم ہے پاکستان پر مسلمانوں کی حکومت تاکہ وہ اسے ایک خوشحال ملک بنا سکیں۔۔۔۔۔نظریے کا مطلب ہے پاکستان کے مسلمانوں کی خدمت۔۔۔ نہ صرف یہ بلکہ بھارت کے مسلمانوں کا بھی تحفظ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب پاکستان مضبوط اور مستحکم ہوگا‘‘۔اپنی کتاب' Myth of Independence ‘(آزادی مو ہوم) میں انہوں نے پاکستان کو ایک نظریاتی ریاست قراردیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر نظریہ پاکستان جنرل شیر علی خان کی'ایجاد‘ ہے تو بھٹو صاحب کے ہاںاس کی صدائے بازگشت کیوں سنائی دے رہی ہے؟ 
بھٹو صاحب کے نظری رجحانات کو سمجھنے کے لیے ان کی 1965ء کی ایک تقریر بھی بہت اہم ہے۔ یہ خطاب ان کی تقاریر کے ایک مجموعےThe Quest for Peace (امن کی تلاش) میں شامل ہے۔ یہ بہت علمی اور شاندار تقریر ہے۔ وہ سر سید سے علامہ اقبال تک مسلمانوں کے فکری ارتقاکا جائزہ لیتے اور پھر یہ نتیجہ بر آمدکرتے ہیںکہ پاکستان، مسلمانوں کے شاندارماضی اور مستقبل کے عزائم کاایک امتزاج ہے۔ وہ کہتے ہیںکہ اپنے سیاسی فلسفے اور مقاصدکی تشکیلِ نوکے لییِ اس خطے کے مسلمان خود شناسی اور خود احتسابی کے ایک تکلیف دہ سفر سے گزرے ہیں۔ وہ پاکستان کو فکری روایت اور عصری شعورکے امتزاج کاایک منفرد واقعہ قرار دیتے ہیں۔اس پس منظرکو سامنے رکھتے ہوئے وہ عالمِ اسلام اور پاکستان کے باہمی تعلق کو بیان کرتے ہیں اوراس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیںکہ کیوںپاکستان کے قیام سے بہت پہلے، مسئلہ فلسطین بر صغیر کے مسلمانوںکو مضطرب کر رہا تھااورکیوں پاکستان بننے کے بعد بھی یہ ہمارا اپنا مسئلہ ہے ؟ 
میں نے بھٹو صاحب کی اس تقریرکاذکر نہیںکیا جوانہوں نے قادیانیوںکوغیر مسلم قرار دیتے وقت کی اوراسے تفاخرکے ساتھ اپناکارنامہ کہا۔ اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پرانہوں نے جوکچھ کہا، میں نے اس سے بھی صرفِ نظرکیا۔'مسلم تہذیب‘ کے لیے ایٹم بم کی ضرورت پر انہوں نے 'موہوم آزادی‘ میںجوکچھ لکھا، میں اسے بھی نظراندازکر رہاہوں۔ میں نے ان کے 'اسلامی اقدامات‘ کا بھی حوالہ نہیں دیا جوانہوںنے بطور وزیراعظم کیے ۔ میرا خیال ہے میں جوسوالات اٹھا نا چاہتا ہوں،ا س کے لیے یہ حوالے کفایت کرتے ہیں۔
1۔اگر تقاریر اور بیانات کسی شخصیت کے فکری رجحان کو سمجھنے کے لیے کافی ہیں توکیا بھٹو صاحب کو سیکولر قرار دیا جا سکتا ہے؟
2۔ایک شخصیت کو سمجھنے کے لیے سیاسی وسماجی تناظرکی کیااہمیت ہے؟
3۔اگر یہ نظریۂ ضرورت کے تحت جاری بیانات ہیں تو اس اصول کا اطلاق صرف بھٹو صاحب پرکیوں؟
4۔بھٹوصاحب کی وضاحتوں کے با وصف 'سوشلزم کفر ہے‘ جیسے فتوے کیا مذہب کا سوئے استعمال نہیں تھا؟ 
صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں