ملک ایک بار پھر اضطراب کی گرفت میں ہے۔فکری انتشار جیسے ہمارے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے۔تقسیم در تقسیم اور ابہام در ابہام۔اسلام، حب الوطنی،ہر جذبے کے جملہ حقوق‘ معلوم ہو تا ہے لوگوں نے اپنے نام لکھوارکھے ہیں۔کسی دوسرے کا دعویٰ قبول ہے نہ اخلاص۔اگر یہ مفاد کا کھیل ہے تو پھر مفاد پرستی کی انتہا ہے۔
میڈیا کا ایک حصہ اور ریاست کا ایک ادارہ آ منے سامنے ہیں۔یہ نئی گروہ بندی بہت پیچیدہ ہے۔سول سوسائٹی،اہلِ سیاست، میڈیا،سب منقسم ہیں۔پہلے کم ازکم ایک واضح تقسیم ہو تی تھی۔ اب تو یہ متعین کر نا مشکل ہے کہ کون کس کے ساتھ ہے۔ سب سے بڑا مخمصہ حکومت کے لیے ہے۔شہریوں کے جان ومال کا تحفظ اس کا اخلاقی اور آئینی فرض ہے۔اس کے ساتھ وہ ریاست کے اداروں کے وقار کو بھی قربا ن نہیں کر سکتی۔وزیر اعظم بظاہر جو کچھ کر سکتے تھے، کر گزرے۔ ایک اعلیٰ سطحی تحقیقاتی کمیشن بنا دیا۔کہنے والے کہتے ہیں کہ پسِ پردہ کیا کیا ہنگامے ہیں، چراغِ راہ گزر کو اس کی خبر نہیں۔ تو کیا ملک پھر کسی حادثے کی دہلیز پر کھڑا ہے؟کیا حکومت مجبور ہو گی کہ اپنا وزن کسی ایک پلڑے میں ڈال دے؟ بین الاقوامی حالات کے تیور بھی زیادہ سازگار نہیں۔ ایک آسان حل موجود ہے لیکن ہم اس کو قبول نہیں کرتے۔
قومی مفاد ایک مو ضوعی(Subjective) اصطلاح ہے۔یہ ممکن نہیں کہ اس کو دو اور دوچار کی طرح اس طرح بیان کر دیا جائے کہ دوسری رائے کی گنجائش باقی نہ رہے۔کسی کے خیال میں افغانستان کی داخلی سیاست سے مکمل علیحدگی قومی مفاد کا تقا ضا ہے۔ کوئی یہ سمجھتا ہے کہ قومی مفاد کے لیے وہاں ایک دوست حکومت کا ہونا ضروری ہے‘ اس لیے ہمیں افغانستان کے اندر جھانکنا پڑے گا۔ ایک رائے کے مطابق بھارت کے ساتھ تجارت کی جائے۔مفادات وابستہ ہوں گے تو بنیادی مسائل کے حل کی صورت پیدا ہو گی۔دوسری رائے یہ ہے کہ بنیادی مسائل حل کئے بغیر تجارت کیسے ہو سکتی ہے؟یہ دونوں آرا مختلف ہیں لیکن قومی مفاد کے دو تصورات سے پھوٹی ہیں۔ہم کسی ایک رائے کو غلط کہہ سکتے ہیں لیکن اسے قومی مفاد کے خلاف کیسے قرار دے سکتے ہیں؟یہ بحث جاری رہے گی لیکن قومی پالیسی تو کسی ایک رائے کے تحت بن پائے گی۔سوال یہ ہے کہ کون سی رائے قومی پالیسی قرار پائے، اس کا فیصلہ کون کرے گا؟
مذہب کے باب میں بھی ایسا ہو تا رہا ہے۔ایک سے زیادہ فقہی مکاتب اور ایک مسئلے پر کئی آرا۔ہمارے اسلاف نے کیا کیا؟یہ حق عام آ دمی کو دے دیاگیا کہ وہ جس رائے کو چاہے‘ اختیار کر لے۔قاضی حکومت مقرر کرتی لیکن فیصلہ وہ اپنے فہم کے مطابق کرتا۔ قدیم دور میں جب خلافت کے نام پر مسلمانوں میں خاندانی بادشاہتیں وجود میں آئیں توطویل عرصہ تک یہی ہو تا رہا۔لوگوں کو کسی ایک رائے کا پابند نہیں بنا یا گیا‘ یہاں تک کہ ہارون الرشید کا دور آیا اور اس نے سوچا کہ ریاست کے لیے ایک قانون ہو نا چاہیے۔یوں امام ابو یوسف قاضی القضاۃ بنے اور فقہ حنفی ریاست کا قانون بن گئی۔جب مصر میں فاطمیوں کی حکومت آئی تووہاں کا قانون تبدیل ہو گیا۔ یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا۔ آج کا عالمِ اسلام دیکھیے۔ سعودی عرب میں ایک فقہی رائے ہے‘ ایران میں دوسری‘ ترکی میں تیسری۔ایسا نہیںہوا کہ کوئی دوسری رائے باقی نہیں رہی۔ صرف یہ ہوا کہ ایک رائے ریاست کا قانون بن گئی۔
سیاسی و قومی معاملات میں بھی اختلاف اسی طرح پیدا ہو تا ہے جس طرح فہمِ دین کے باب میں ہو تا ہے۔ جدیدجمہوری ریاست میں ایک طریقہ متعین کر دیا گیا ہے کہ کس طرح ایک رائے کو حکومت کی سطح پر اختیار کیا جائے گا۔ تقسیمِ کار کے اصول پر کھڑی جدیدریاست میں یہ حق پارلیمنٹ اور منتخب حکومت کے پاس ہو تا ہے۔سماج میں بحث ہو تی ہے۔ لوگ ایک سے زیادہ آرا کا اظہار کرتے ہیں لیکن ان میں سے وہی رائے ریاست کی پالیسی قرار پاتی ہے جو حکومت اختیار کر لیتی ہے۔ ریاست کے دوسرے ادارے اسے قبول کر لیتے ہیں۔نظم ِ اجتماعی اسی طرح قائم رہتا ہے اور اختلاف دشمنی میں نہیں ڈھلتا۔ اس کی وجہ بڑی سادہ ہے۔ اختلاف کرنے والا جانتا ہے کہ وہ ایک کھلے سماج میں رہتا ہے اور اس کا امکان مو جود ہے کہ کل اس کی رائے ریاست کا موقف قرار پائے۔ مہذب معاشروں میں یہ نہیں ہو تا کہ اختلاف کو اس سطح تک پہنچا دیا جا ئے کہ اس کی بنیاد پر دوسرے غدارقرار پائیں اور ان کی حب الوطنی پر انگلی اٹھائی جائے۔
پاکستان میں آج بدقسمتی سے یہی ہو نے لگا ہے۔مفادات کے ٹکراؤ میں مذہب اور قومی مفاد کا استعمال شدت سے ہوتا ہے۔کیا یہ بات باعثِ حیرت نہیں کہ ہمارے ہاں توہینِ رسالت کے سب سے زیادہ مقدمات مسلمانوں نے ایک دوسرے کے خلاف قائم کیے۔مسلمان اور توہینِ رسالت؟ کیا عقل اس کو باور کر تی ہے؟لیکن یہ ہو تا ہے۔تحقیق کی جائے تو معلوم ہو تا ہے کہ کئی مقدمات میں اصل تنازعہ کچھ اور ہوتا ہے۔زمین یا جائداد ہتھیانے کی خواہش یا کسی کوسماج میں بے آبرو کرنے کی تمنا۔جو لوگ یہ نہیں کرتے، وہ دوسرے کو غدار کہنے لگتے ہیں۔،مقصد اس کا بھی وہی ہو تا ہے۔کاروبا ری یا پیشہ ورانہ رقابت۔ مقصود دوسرے کو نیچا دکھانا اور معاشرے، میں بے آ برو کر نا ہوتا ہے۔کوئی شبہ نہیں کہ یہ اخلاقی گراوٹ کی انتہا ہے۔اگر کسی کے پاس ثبوت ہے تو اسے عدالت میں جا نا چاہیے۔محض اختلافِ رائے کی بنیاد پر یا پھرپیشہ ورانہ رقابت کی بنا پر ایسا کرنا ایک سنگین اخلاقی جرم ہے اور قانونی بھی۔اس پر ہتکِ عزت کا مقدمہ قائم کیا جا سکتا ہے۔
علاج سادہ ہے۔اگر خدا کے ہاں جواب دہی کا احساس پیدا ہو جائے تو تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ تاہم یہ بات اتنی آسان نہیں۔اس کی دعا تو کی جاسکتی ہے لیکن قبولیتِ دعا کا معاملہ ہمارے بس میں نہیں۔جمہوریت نے البتہ ہمارا مسئلہ حل کر دیا ہے۔ہم اختلاف ضرور کریں لیکن یہ فیصلہ کرنامنتخب حکومت اور پارلیمنٹ کاحق ہے کہ وہ کس مو قف کوقومی مفاد سے ہم آہنگ سمجھتے ہیں۔یہ حق کسی فرد یا دوسرے ادارے کو نہیں دیا جا سکتا۔پارلیمنٹ یا منتخب حکومت بھی غلطی کر سکتی ہے لیکن عقلِ عام اور تاریخ دونوں کی شہادت یہی ہے کہ اجتماعی بصیرت کم غلطی کی مرتکب ہو تی ہے۔پھر یہ کہ اس میں اصلاح کو پورا امکان مو جود ہو تا ہے۔
میڈیا ریاستی ادارہ نہ سہی لیکن اہم سماجی ادارہ ضرور ہے۔اس میں مبالغہ نہیں ہے کہ میڈیا اجتماعی ضمیر کا مظہر ہے۔کسی ریاستی ادارے اور میڈیا کے مابین تصادم ملک اور قوم کے مفاد میں نہیں ہے۔کوئی کسی کی جان لینے کا حق رکھتا ہے نہ کوئی فتویٰ یا سرٹیفکیٹ جاری کر نے کا۔یہ حق عدالت کے پاس ہے۔پالیسی بنانا حکومت کا کام ہے۔ ریاستی اداروں پر قانوناً اور اخلاقاً واجب ہے کہ وہ اس پالیسی کے مطابق عمل کریں۔ اگر کسی کو دوسرے سے شکایت ہو تو عدالت سے رجوع کرے۔مو جود بحران سے نکلنے کا واحد راستہ اس بات کا ادراک ہے۔طاقت کوئی شبہ نہیں کہ خود کو قانون سمجھتی ہے‘ لیکن یہ خودسری امریکہ اختیار کرے یا کوئی اور،انسانی اخلاق اسے مسترد کرتا ہے۔ انسانی اخلاق اگر کسی خیال یا رویے کو مسترد کردے تو اس کی عمر کم ہو جا تی ہے۔