سب مشورے وزیر اعظم اور حکومت کے لیے!کیاکسی اور کو اِن کی ضرورت نہیں؟
اللہ نے اپنا دین مکمل کر دیا۔نبوت کا باب بند ہوا۔ اعلان ہوا کہ انسان کو کسی نئے الہام کی ضرورت نہیں رہی۔اس کے باوصف اگر وہ سرکش اور باغی ہے تو کیا نئی شریعت کا مطالبہ کر نا چاہیے؟اہلِ نظر کی مجلس میں اگریہ سوال اٹھے گا تو ایک ہی جواب آئے گا اور وہ متفقہ ہو گا:انسان کو نئی شریعت کی نہیں،اصلاحِ نفس کی ضرورت ہے۔درپیش قضیے کا تعلق رویے سے ہے۔یہ اخلاقیات کا معاملہ ہے ،قانون کا نہیں۔آئین کی صورت میں ایک عمرانی معاہدہ مو جود ہے۔یہ رویے ہیں جو اسے پامال کرتے اور بحران جنم دیتے ہیں۔اصرار اس عمرانی معاہدے کی پاس داری پر ہو نا چاہیے۔ورنہ یہ ملک پہلے ہی ان ممالک میں شمار ہو تاہے جو افراطِ قوانین (over legislation) کامظہر ہیں۔
طاقت نشہ ہے جو زعم میں مبتلا کرتا ہے۔یہ فساد اسی کا شاخسانہ ہے۔حکومت اس کا سبب نہیں،شکارتھی۔دو اداروں نے طاقت آزمائی کی اور تصادم ہو گیا۔حکومت کے لیے یہ سب کچھ غیر متوقع تھا۔اُسے فوری فیصلہ کر نے میں مشکل پیش آئی۔ابتدائی مر حلے میں یہ پاکستان کے ایک شہری اور ایک ادارے کے مابین ایک مقدمہ تھا۔ وزیراعظم کوغیر جانب داری ہی زیبا تھی۔تاہم انہیں یہ ثابت کر نے میں دیر لگی۔انہوں نے مجروح صحافی کی عیادت کی لیکن آئی ایس آئی کے زخم پر بر وقت مرہم نہیں رکھا۔رکھا مگر قدرے تاخیر کے ساتھ۔اس سے غلط فہمیوں کو اندر آنے کا موقع مل گیا۔ اگر تصادم کو بڑھانا مقصود نہ ہو تواس کا جواز مو جود ہے کہ ہنگامی حالات میں ایسا ہو جا تا ہے۔
ڈوبنے والا تھا اور ساحل پہ چہروں کا ہجوم
پل کی مہلت تھی، میں کس کو آنکھ بھر کر دیکھتا
اگر یہ مان لیا جا ئے کہ فوج اور حکومت کے اختلاف کی ڈوری جنرل مشرف کے مقدمے سے بندھی ہے تو پھر مشورے کا مخاطب وزیر اعظم نہیں، کوئی اور ہے۔اگر معاملہ صرف قانون اور انصاف کاہے توپھر اس باب میںدوسری رائے نہیں کہ جنرل مشرف کے ساتھ انصاف ہو نا چاہیے۔ انصاف کیا ہے؟ اگر وہ مجرم ہیں تو سزا دی جائے ا ور بے گناہ ہیں تو چھوڑ دیا جا ئے۔دونوں صورتوں میں،فیصلہ عدالت نے کر نا ہے۔ابھی تک کوئی ایک شہادت ایسی نہیں جس سے یہ ثابت کیا جا سکے کہ حکومت، مشرف صاحب کو انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ بنی ہے۔ قومیںاس لیے بر باد ہو تی ہیں کہ زور آوروں کو معاف کرتیںاورعام آ دمی کو سزا دیتی ہیں۔حکومت کو اکثر یہ بات یاد دلائی جاتی ہے۔ یہ یاددہانی مبارک لیکن مشرف صاحب کے معاملے میں تو اس کا مخاطب کسی اور کو ہو نا چاہیے۔کیا انصاف کا مشورہ صرف حکومت کو دینا چاہیے؟
اس معاملے کا البتہ ایک دوسرا پہلو بھی ہے جس کا تعلق مصلحت سے ہے۔حکومت یہ حق رکھتی ہے کہ مشرف صاحب کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دے۔اس پر گفتگو ہو سکتی ہے کہ حکومت خیر سگالی کے تحت ،اپنا یہ حق استعمال کرے ا ور جنرل صاحب پر عائد پابندی اٹھا دے۔یہ دلیل مو جود ہے کہ ایک بہتر مستقبل کے لیے ماضی کی تلخیوں کو بھلا دینا چاہیے۔تاہم اس کے بر خلاف مو جود دلیل بھی کم وزنی نہیں۔عوام کا منتخب وزیراعظم پھانسی لگ سکتا ہے تو دوسرا انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیوں نہیں ہو سکتا؟پھر حکومت کو اس کے نتیجے میں بھی تنقید کا سامان کر نا پڑے گا۔ کہا جائے گا کہ ایک نیا این آر او وجود میں آگیا۔ بدگمانیوں کے اس موسم میںہر بات ممکن ہے۔مجھے یقین ہے کہ مصالحت کے مشورے دینے والے، پھر تنقید میں بھی سبقت لے جا ئیں گے۔میری رائے اگرچہ یہی ہے کہ حکومت کو اس سے بے نیاز ہو کر مشرف صاحب کو باہر جانے کی اجازت دے دینی چاہیے۔ اس کے بعد اگر عدالت روکتی ہے تو وہ اس کا حق رکھتی ہے۔تاہم اگر حکومت اس کے بر خلاف کوئی فیصلہ کرتی ہے تو وہ اخلاقاً اور قانوناً اس کا حق ر کھتی ہے۔اس کا یہ مفہوم کیوں لیا جائے کہ حکومت تصادم چاہتی ہے۔اگر کوئی حکومتی فیصلے پر اظہارِ تکدر کرتا ہے تو پھرتنقید کا رخ اس کی طرف ہونا چاہیے۔
طاقت کو اخلاقیات کا پابند بنا نا ،انسان کو درپیش سب سے بڑا چیلنج ہے۔دنیا میں فساد اسی وقت پھیلا ہے کہ جب طاقت نے قانون اور اخلاق کو تسلیم کر نے سے انکار کیا۔تین صورتیں ہیں جو طاقت کو اخلاق کا پابند بنا سکتی ہیں۔خوفِ خدا۔یہ داخلی احساس ہے کہ طاقت آزمائش ہے اوراس کے سوئے استعمال پر اللہ کو جواب دینا ہوگا۔سماج کا خوف۔یہ خیال کہ لوگ ظلم سے نفرت کرتے ہیں اور یوں ظالم سے بھی۔انصاف کی مضبوط روایت۔یہ یقین کہ طاقت نے حدود سے تجاوز کیا تو قانون کا موثرنفاذ راستے میں حائل ہو جا ئے گا۔میرے نزدیک بنیادی اہمیت پہلی دو باتوں کی ہے۔فرد جواب دہی کے احساس سے معمور ہو یا سماج کا دباؤ غیر معمولی ہو۔ سماجی دباؤ سماجی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ان دنوں مو ثر ترین ادارہ میڈیا ہے۔رائے سازی کی باگ بڑی حد تک ان کے ہاتھ میں ہے جو اخبارات میں لکھتے یا ٹی وی چینلزپہ گفتگو کرتے ہیں۔محراب و منبر بھی یہ قوت رکھتے ہیں کہ وہ سماجی دباؤ بڑھائیں۔ان اداروں سے یہ آواز اٹھنی چاہیے کہ طاقت کا زعم نقصان دہ ہے، بالخصوص اس وقت جب قومی مفاد اس کی زد میں آر ہا ہو۔قومی مفاد کے لیے سیاسی استحکام ناگزیر ہے۔گلی گلی غداری کے فیصلے اضطراب پیدا کرتے ہیں۔عجیب بات ہے کہ آئین کسی کو غدار کہے تو قبول نہیں لیکن یہ قبول ہے کہ لوگ گلیوں اور بازاروں میں غداری کی اسناد بانٹتے پھریں۔
اگر یہ بات درست ہے کہ طاقت کا آئین اور قانون سے بے نیازہونا خرابی کا اصل سبب ہے تویہ پیغام ہر اس کونے تک پہنچنا چاہیے جہاں طاقت مرتکز ہے۔پھر مشورے کی ضرورت صرف حکومت کو نہیں ،اور بہت سے افراد اور اداروں کوبھی ہے۔حکومت کو یہ مشورہ ضرور دیا جائے اگر اس نے کسی حد سے تجاوز کیاہو۔وہ حد جس کا تعین آئین نے کیا ہے۔حدود خود ساختہ نہیں ہو تیں نہ ہو نی چاہئیں۔ موجودہ صورتِ حال کوحکومت بمقابلہ فوج معرکہ بناناخوش ذوقی ہے نہ ملک کے مفاد میں ہے۔قومی مفاد کا تعین اور اس کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ریاستی ادارے اس باب میں حکومتی ہدایات کے پابند ہیں۔حکومت ظاہر ہے کہ اب اداروں کی مشاورت سے فیصلہ کرتی ہے اور ایسا ہی کر نا چاہیے لیکن حتمی ذمہ داری اسی کی ہے جسے عوام نے یہ فرض سونپاہے۔سوال یہ ہے کہ اس کی پابندی کیسے کی جائے؟اس کا تما م تر انحصار رویوں پر ہے۔رویے ایک نظام ِ اخلاق کے تابع ہو تے ہیں۔یہ نظام ریاست نہیں، سماج بناتاہے۔دوسرے الفاظ میں سماجی ادارے اور ان میں فی الوقت، موثرترین میڈیا ہے۔قوم کو آج نئے معاہدے کی نہیں،رویوں میں اصلاح کی ضرورت ہے۔یہ اسی وقت ہو گا جب قوم کو فریقوں میں تقسیم کرنے کی بجائے،ایک قوم کے طور پر دیکھا جائے۔کسی ایک کی طرف داری کی بجائے، سب کو مشورہ دیا جائے کہ آج سب کومشورے کی ضرورت ہے۔ان کو بھی جو مشورے دینے پر مامورہیں۔