حیرت ہے اور دکھ بھی۔ کاروباری رقابتیں اور معاصرانہ چشمک، گریبان سے ہوتی ہوئی ایمان تک آ پہنچی ہیں۔ مفادات کی تیز آندھی میں ہر شے اُڑتی جا رہی ہے۔ ہمارا سماج بھی کسی نہ کسی ''بوکو حرام‘‘ کی گرفت میں ہے۔ سیدنا مسیحؑ نے ایک گروہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا: مچھر چھانتے اور اونٹ نگلتے ہیں۔ اس پیغمبرانہ صدا کی بازگشت، میں آج بھی سنتا ہوں۔
شاخوں کے بجائے اگر بیج اور جڑ پر نظر ہو تو معلوم کیا جا سکتا ہے کہ کیا حادثہ تھا جو ہم پر گزر گیا۔ ہم نے ہر شعبے کی قیادت سطحی لوگوں کو سونپ دی۔ اس میں ان لوگوں کا بھی حصہ ہے جنہوں نے میڈیا میں سعادت حسن منٹو کو اپنا امام مانا۔ منٹو نے کہا تھا: ''میں سماج کو ویسا ہی دکھاتا ہوں جیسا وہ ہے۔ سوسائٹی اگر ننگی ہے تو میں اسے کپڑے نہیں پہنا سکتا۔ یہ میرا نہیں درزی کا کام ہے‘‘۔ منٹو کی فنی عظمت اس وقت میرا موضوع نہیں، یہ قولِ زریں ہے جو اس وقت میڈیا سمیت رجحان ساز اداروں کا ماٹو ہے۔ سماج کو نہ صرف یہ کہ کپڑے پہنانے کی ضرورت محسوس نہیںکی گئی، اس کی برہنگی کو کاروبار بنا لیا گیا۔ جسم کا جو حصہ بے لباس تھا، اسے ڈھانپنے کے بجائے بازار میں سجا دیا گیا۔ مذہب کی تعلیمات مسخ ہوئیں تو وہ کاروبار بن گئیں۔ سماج کی روایات برباد ہوئیں تو اسے ڈراموں کا روپ دے کر بازار میں بیچ ڈالا گیا۔ سیاست آلودہ ہوئی تو اسے دکان میں سجا دیا گیا۔ بعض ٹاک شوز اس آلودگی کے شو کیس بن گئے۔ ایک چینل کو گلہ ہے کہ وہ ہدف کیوں ہے؟ یہ سوال اسے دوسروں سے نہیں اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے!
مذہب آج کس کا ذمہ ہے؟ دین کا کوئی جیّد عالم؟ رسوخ فی العلم رکھنے والا؟ نہیں بلکہ وہ جو سطحی باتوں کی زیادہ مہارت رکھتا ہو۔ چرب زبان یا خوش الحان۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ اب مذہب کی روح پیشِ نظر نہیں ہے، الفاظ کی رنگینی ہے جو معتبر ہے، لباس کی طرح ۔ سیرت نہیں نعت خوانی۔ میڈیا نے اس رجحان کو فروغ دیا۔ آج گلی گلی یہی چلن ہے۔ کبھی علماء تشریف لاتے اور سیرت کے جلسے ہوتے تھے، اب محافلِ نعت ہوتی ہیں۔ نعت خوانی میں کس کو کلام ہے۔ رسالت مآبﷺ کے ساتھ اظہارِ محبت کا ہر زاویہ باعثِ ثواب، لیکن دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے، کیا تعلق بالرسالتؐ کا تقاضا یہی ہے؟ کیا صحابہ کرام اس طرح محبت کرتے تھے؟ کیا سیرت زیرِ بحث ہے اور یہ سوال کہ سماج کی تاریکی کو اسوہِ حسنہ کے نور سے کیسے منور کیا جائے؟تجدید اور احیاء، مذہبی حوالے سے لازم ہے اور سیاسی حوالے سے بھی۔ ہم خلا میں نہیں جیتے۔ مذہب، صحافت، سیاست ہر تصور ایک زندہ حقیقت کے طور پر ہمارے سامنے ہیں۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ وہ تصورات موجودہ صورت میں قابل قبول ہیں یا ان میں کسی تجدید اور اصلاح کی ضرورت ہے۔ سطحی معلومات اور اوسط ذہانت کے ساتھ یہ کام نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو تاریخ کے سفرکو جانتے اور روزمرہ واقعات کو ایک تسلسل میں رکھ کر دیکھنے اور سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ سادہ الفاظ میں اقبال جیسے لوگ۔ اقبال نے کیا کیا؟ اپنے عہدکو جانا اور پھر مسلم سماج کو اس کے تناظر میں دیکھتے ہوئے ایک حل تجویز کیا۔ ان پر واضح تھا کہ متحدہ ہندوستان میں، اگر قومی ریاست کے تصور کو آگے بڑھایا گیا تو مسلم شناخت مدھم ہو جائے گی۔ اس کے لیے لازم ہے کہ ایک ایسا خطۂ زمین میسر آئے جہاں اس شناخت کو محفوظ رکھا جا سکے۔ دوسری طرف انہوں نے یہ بھی سمجھا کہ یہ خطہ اگر وجود میں آ گیا تو مذہب اور سماج کے مروجہ تصورات اس کا ساتھ نہیں دے سکیں گے۔ اس لیے فلسفہ سے لے کر فقہ تک، مسلمانوں کو ایک نیا جہان دریافت کرنا ہے۔ اقبال نے جان لیا تھا کہ منظر پر موجود اہل سیاست میں صرف محمد علی جناح ہی ایک نام ہے جو اس تعبیر کے تحت سیاست کی صورت گری کر سکتا ہے۔ فقہ کی تدوین نو کے باب میں البتہ وہ متردد تھے اور کسی موزوں آدمی
کی تلاش میں رہے۔ اس کے لیے کبھی ان کی نظر جہاں دیدہ مولانا انور شاہ کاشمیری کی طرف اٹھی اور کبھی جواں سال ابوالاعلیٰ مودودی کی جانب۔ دونوں ان کے خیال سے متفق نہیں ہو پائے۔ یوں یہ کام آج تک تشنہ ہے۔ اس طرح فنون لطیفہ اور ادب کے باب میں بھی، ان کے خیالات نے ایک نئے جہان کی دریافت کو محسوس کیا۔
یہ بنیادی مقدمہ اگر واضح ہو جائے تو جانا جا سکتا ہے کہ آج سیاست، مذہب، صحافت اور دوسرے شعبوں کو کس طرح ترتیب دینا چاہیے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے پاس کوئی اقبال نہیں۔ یوں خود رو پودوں کی طرح ہر طرف اداروں اور آوازوں کا شور ہے لیکن اس کا حاصل فکری پراگندگی کے سوا کچھ نہیں۔ مذہبی اداروں کی کمی ہے نہ صحافتی۔ سیاست دان بھی بہت ہیں اور علماء بھی۔ اس سب کچھ کے باوصف ڈور کا سرا کسی کے ہاتھ نہیں آیا۔ میرے نزدیک اس کی وجہ بڑی واضح ہے۔ ہم تجدیدواحیاء کی ضرورت کو محسوس کیے بغیر اصلاح چاہتے ہیں۔ یہ ممکن نہیں اور ہم اس کا شاخسانہ دیکھ رہے ہیں۔
مثال کے طور پر ہم چاہتے ہیں کہ مذہب ایک زندہ قوت بنے۔ یہ چاہت مبارک لیکن ہماری حکمت عملی یہ ہے کہ روایتی مذہب کی آبیاری سے یہ کام ہو سکتا ہے۔ ہمیں مذہب کے نام پر جو کچھ میسر ہے اس کا ہاتھ تھام کر اس سے رہنمائی چاہتے ہیں۔ اس کا حاصل کہیں طالبان ہیں، کہیں القاعدہ اور کہیں بوکوحرام۔ اس کی ایک صورت وہ ہے جو ہم ٹی وی چینلز پر دیکھتے ہیں۔ مجھے اس میں کوئی ابہام نہیں کہ اگر مذہب کو تجدیدواحیاء کے بغیر سماج کی ایک زندہ قوت بنانے کی سعی ہوئی تو اس کے رد عمل میں مذہبی بیزاری کی ایک تحریک اٹھ سکتی ہے جو بالآخر مذہب کے محدود کردار کے تصور میں ڈھل جائے۔ مغرب میں ہم یہ دیکھ چکے۔ سیاست بھی اگر اسی طرح بازیچۂ اطفال بنی رہی تو لوگوں کی مایوسی انہیں آمریت کا راستہ دکھا سکتی ہے۔ اہل سیاست اور جمہوریت کو الگ نہیںکیا جا سکتا۔ سیاست میں نفس مضمون اور اسلوب دونوں اہم ہیں۔ نفس مضمون سے مراد یہ ہے کہ سیاست کن مسائل کے گرد گھوم رہی ہے۔ اسلوب کا مطلب احتجاج اور دھرنے کا طریقہ ہے، کردار کشی ہے یا موجودہ ریاستی اداروں کو مضبوط بنانا ہے، جیسے پارلیمنٹ، جیسے عدلیہ۔
ذرائع ابلاغ کا معاملہ بھی یہی ہے۔ میرے نزدیک مارننگ شوز ایسے پروگرام فتنہ ہیں۔ تفریح کے نام پر بے ہودگی اور تماشہ بینی ہے۔ تہذیب کا کوئی شعور نہ فنون لطیفہ کا ذوق۔ یہ دوسری شادی کا تصور ہی کیسا سطحی ہے؟ اس وقت بحث ایک پروگرام پر ہے حالانکہ گفتگو اس پر ہونی چاہیے کہ ٹی وی چینلز پر مارننگ شو کے نام پر جوکچھ ہو رہا ہے،کیا ہوتے رہنا چاہیے؟ اگر یہ درخت رہے گا تو اس پر زہریلا پھل بھی لگے گا۔ نوشتۂ دیوار واضح ہے: یہ مذہب ہو یا صحافت، تجدید اور احیاء کے سوا کوئی راستہ نہیں۔