لوگوں کے پاؤں اپنے ہی دام میں الجھتے جا رہے ہیں۔میڈیا کے ایک حصے نے جس مذہبی تعبیر اور رویے کی آب یاری کی ،آج خود اس کا ہدف ہے۔طالبان کو تخلیق کرنے والے پریشان ہیں کہ ان کی تلواریں آج اپنے خالقوں کے لیے بے نیام ہیں۔کہا گیا:مودی نے دوقومی نظریہ زندہ کر دیا۔ بجا ارشاد لیکن مودی کو کس نے زندہ کیا؟ فطرت کی تعزیریں بلا شبہ سخت ہو تی ہیں مگر کم لوگ سوچنے پر آمادہ ہیں۔ازل سے ایسا ہی ہے اور شاید ابد تک ایسا ہی رہے۔
قوم ،رسول ؑکا انکار کر دے تو اللہ کا عذا ب لازم ہوجا تا ہے۔سید نا نوح ؑکا بیٹا اس کا ادراک نہیں کر سکا۔کہا ''میں جودی پہاڑ پہ چڑھ جاؤں گا‘‘۔وہ یہ نہ جان سکا کہ اللہ کا عذاب آ جائے تو زمین کی پاتال ہویا پہاڑوں کی بلندی،ہر پست و بالا اس کی گرفت میں ہو تا ہے۔اللہ کا یہ قانون نافذ رہا،یہاں تک کہ رسالت و نبوت کا باب بند ہوااور آخری رسولﷺ تشریف لائے۔قرآن نے بتا دیا کہ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور آپ کا غلبہ اللہ کا فیصلہ ہے۔اہلِ قریش کے لیے کوئی انتخاب،اس کے سوا نہیں کہ آپ پر ایمان لائیں یا پھر عذاب کے مستحق ٹھہریں۔اللہ کی کتاب نے تاریخی شہادتوں کے انبار لگا دیے۔لوگوں نے مان کر نہیں دیا،سیدنا نوح ؑکے بیٹے کی طرح۔ پھر وہی ہوا جو اللہ کا فیصلہ تھا۔ازل سے ایسا ہی ہے۔لوگ مان کر نہیں دیتے یہاں تک کہ خود اسی تجربے سے گزرتے ہیں۔
اس سماج کی تربیت کا کوئی اہتمام نہیں ہوا۔ہمیشہ ہیجان برپا رہا۔جذبات کی حکمرانی۔مذہب، ملک، رشتے، تعلقات، ہر باب میں جذبات ،فیصلہ کن رہے۔جذبات کی نفی مطلوب نہیں لیکن اگر اُن کی تہذیب نہ ہوتو افراط و تفریط معاشرے کا روگ بن جا تے ہیں۔سید نا مسیح ؑکے باب میں یہودو نصاریٰ اسی میں مبتلا ہوئے۔ایک روایت کے مطابق، آپؐ نے فرمایا:دین میں غلو سے بچو۔پچھلی امتیں دین میں غلو کے باعث ہلاک ہوئیں۔(النسائی، ابن ماجہ(کتاب المناسک، مسندِ احمد)۔ارشاد ہوا:فتنہ سویاہوا ہے۔اُس شخص پر اللہ کی لعنت جس نے سوئے فتنے کو جگایا۔اللہ کی کتاب نے ہدایت کی:نادانوں سے اعراض کرو (الاعراف7 :199)۔ یہ سب کیا ہے؟انسانی رویے کی تہذیب۔ مذہب،ملک،خاندان۔انسان عصبیت میں مبتلا ہو جا تا ہے۔یہ عصبیتیں فطری ہیں، جبلی تقاضوں کی طرح۔دین جبلت کی تہذیب کر تا ہے اور عصبیت کی بھی۔نکاح،حرام کمائی سے گریز،یہ سب تعلیمات، جنس و شکم کے جبلی تقاضوں کی تہذیب ہے۔اسی طرح دین یہ سکھاتا ہے کہ دین اور وطن کے معا ملے میں بھی انسانی مزاج کی تہذیب ضروری ہے۔اس باب میں بھی اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسولؐ، دونوں نے انسان کوراہنمائی سے محروم نہیں رکھا۔
ہم کیا کرتے ہیں؟ہم دام پھیلاتے ہیں کہ دشمن کو کمزور کر نا مطلوب ہو تا ہے۔اس دام کی بنُت اخلاقیات سے نہیں، مفاد کے تاروں سے ہوتی ہے۔ایک مر حلے میں ہم کا میاب ہو جاتے ہیں۔اگلے مر حلے میں معلوم ہو تا ہے کہ ہمارے اپنے ہاتھ پاؤں اس دام کی گرفت میں ہیں۔ہم بھی اُسی جال میں پھنس چکے۔امریکہ نے افغانستان میںمذہب کو استعمال کیا۔تاریخ نے کروٹ بدلی اور یہ اس کے گلے کا پھندا بن گیا۔ملک غیر سرکاری عسکری گروہ بناتے ہیں۔ایک وقت آتا ہے کہ ان کا رخ اپنے خالقوں کی طرف ہوتا ہے۔ سر تاج عزیز صاحب کا بیان اپنے دامن میں عبرت کے کئی درس سمیٹے ہوئے ہے۔ کہا:''پاکستانی سرحد سے ملحق افغان علاقوں میں طالبان کی عمل داری پاکستان کے مفاد میں نہیں۔اس سے یہ علاقہ پاکستانی طالبان کے لیے محفوظ پناہ گاہ بن سکتاہے‘‘۔ اب اس بنیادی نکتے پر کون غور کرے کہ دوسرے ممالک کے معاملات میں اگر آپ دخل دیں گے تو کوئی'دوسرا‘آپ کے معاملات میں بھی دخیل ہو گا۔ہم جو بوتے ہیں وہی کاٹتے ہیں۔مگر کوئی اس پر غور نہیں کر تا۔نہ امریکہ نہ پاکستان کے ٹی وی چینل نہ کوئی اور۔
اخلاقیات کا معاملہ ایک طرف رکھیے کہ اس کی اساس ما بعد الطبیعیاتی ہے۔جذبات،اخلاق کے تابع ہوتے تو رونا کیا تھا۔ہم انسانی عقل کی بات کر تے ہیں۔قانون کا تصور سماج اور ریاست میں کیوں آیا؟ایک نظم ِاجتماعی کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی؟اسی لیے کہ جزا و سزا کا معاملہ اگر افراد کو سونپ دیا جائے تو کوئی سماج باقی رہ سکتا ہے نہ ملک۔فیصلے اداروں کے بجائے سڑکوں پہ ہونے لگیں تو گلی گلی فساد پھیل جائے۔ انسانی مفاد اگر ضابطے سے آزاد ہو جا ئے تو سماج میں لوگ بھوکے مر نے لگیں۔دولت طاقت وروں کے ہاتھوں میں جمع ہو جائے اورافلاس پھیلنے لگے۔جب ہم کسی کے خلاف قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں تو ہم ایک راستہ کھول دیتے ہیں۔پھر ہمیں تیار رہنا چاہیے کہ کل کوئی دوسرا بھی ایسا کر سکتا ہے۔ہم جب کسی کے خلاف مہم اٹھاتے وقت انصاف نہیں کرتے تو ہمیں اس وقت کا انتظار کر نا چاہیے جب ہم بھی کسی ایسے ہی رویے کا ہدف ہو ں ۔ پاکستان میں آج جو فساد برپا ہے، وہ اسی رویے کا شاخسانہ ہے۔جس کے ہاتھ میں جو اینٹ پتھر ہے، دوسرے کو مار رہا ہے۔کوئی اخلاقی ضابطہ کوئی قانونی تقاضا اس کے راستے میں حائل نہیں۔نتیجتاًوہ صیاد بھی ہے اور صیدبھی۔ظالم بھی ہے اور مظلوم بھی۔1979 ء سے سماجی انحطاط کا جو سفر شروع ہو اتھا، وہ اپنے فطری انجام سے دوچار ہو نے والا ہے۔میڈیا، وکلا،اہلِ مذہب، صحافی، اہلِ سیاست،تاجر،ہر طبقے میں ہیجان ہے اور عامتہ الناس کے پاس اس کے سوا کیا راستہ ہے کہ ان کو راہنما مان لیں۔
مجھے تشویش ہے کہ ہم بہت تیزی کے ساتھ انارکی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔قانون ،جذبات کے ہاتھوں یرغمال بن چکا ہے۔مذہب اور وطن جیسے مسلمات کو لاقانونیت کے لیے ڈھال بنا لیا گیا ہے۔ریاست مجرموں کے سامنے بے بس ہے۔آج سے نہیں، برسوں سے۔جج پریشر گروپوں کی مرضی کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں دے سکتے۔حیرت یہ ہے کہ وکلا قانون کے نہیں، ان گروہوںکے طرف دار ہیں جو قانون کونہیں، جذبات کو حاکم ما نتے ہیں۔اس ما حو ل میں،مجھے کسی سمت سے کوئی ایسی آواز سنائی نہیں دیتی جو اس آگ پر پانی ڈال رہی ہو۔ہر کوئی موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتاہے۔ سیاست دان اس تاک میں ہیں کہ حکومت کو گرائیں۔کاروباری ادارے بھی اسی داؤ میں ہیں کہ حریف کو گھر پہنچا دیں۔حکومت کی خواہش ہے کہ موقع ملا ہے تو پرانے حساب بے باق کر دیے جائیں۔پاکستان کی تاریخ میں انتشار کی یہ صورت، اس سے پہلے شاید کبھی نہ دیکھی گئی ہو۔یہ سب اس پس منظر میں ہو رہا ہے جب بھارت میں مودی جیت چکے اور افغانستان میںعبد اللہ عبداللہ قصرِ صدارت پر دستک دے رہے ہیں۔ہیجان کی اس فضا میں عقل کی بات کون سنتا ہے؟اگر سنتا تو یہ ہیجان کیوں ہو تا؟
علاج صرف ایک ہے۔ قانون کی حکمرانی۔ہیجان سے گریز۔ اعتدال اور غلو سے پر ہیز۔رویوں کی تہذیب۔ہمیں ریاست اور سماج دونوں کو بچا نا ہے۔اس کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہم سماج میں جو بوئیں گے، ایک دن ہمیں کاٹنا پڑے گا۔مذہب، سیاست،تہذیب، کاروبار، ہم نے جن رویوں کی آ بیاری کی، آج ہم خود ان کا ہدف ہیں۔ایک ادارہ معافی مانگ رہا ہے لیکن نہیں جانتا کہ اس کا اصل جرم کیا ہے؟کوئی ہے جو اس نکتے پر غور کرے؟ تاریخ یہ ہے کہ کوئی غور نہیں کرتا۔یہاں تک کہ خود اس تجربے سے گزر نہ جائے۔ہمارا المیہ دوچند ہے کہ تجربے سے گزرنے کے بعد بھی غور نہیں کرتے ۔