قاضی حسین احمد صاحب پر لکھی گئی کتاب کے لیے یہی عنوان موزوں تھا۔
مولانا مودودی دنیا سے رخصت ہوئے تو الطاف گوہر نے انہیں ''عزیزِ جہاں‘‘ قرار دیا۔ مولانا اپنی علمی وجاہت کے باوصف‘... بلکہ درست تر الفاظ میں... 'کے سبب‘ ایک متنازع شخصیت تھے۔ اہلِ علم کا معاملہ ہر دور میں یہی ہوتا ہے۔ قاضی صاحب کے ساتھ یہ نہیں تھا۔ ان کے 'حلقۂ محبت‘ کا پھیلاؤ جماعت اسلامی کی سرحدوں کو عبور کر گیا۔ جماعت اسلامی کی یہ سرحدیں کیا تھیں؟
جماعت اسلامی ''الجماعۃ‘‘ کے اندر 'الجماعۃ‘ ہے۔ سادہ لفظوں میں مسلمانوں کے نظمِ اجتماعی میں رہتے ہوئے بھی اپنی ایک الگ اجتماعی شناخت رکھتی ہے۔ از راہِ امتیاز یا پھر از راہِ تفنن دوسرے اسے ''صالحین‘‘ کی جماعت کہتے ہیں۔ اس امتیاز کی اساس خود جماعت اسلامی کے لٹریچر میں ہے۔ مولانا مودودی کے تصورِ دین میں نسلی مسلمان اور شعوری مسلمان میں فرق ہے۔ وہ نسلی مسلمانوں کی تربیت کر کے انہیں ''صالحین‘‘ میں شامل کرنا چاہتے تھے‘ اس لیے ایک عام مسلمان کبھی جماعت اسلامی کی رکنیت کا مستحق نہیں ٹھہرا۔ اس 'اعزاز‘ کے لیے کسی مسلم گھرانے میں جنم لینا یا زبان سے کلمہ پڑھ لینا کافی نہیں۔ اس کوہِ ہمالیہ کو سر کر نے کے لیے تربیت کے کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس طرح اراکین اور متفقین کا جو گروہ وجود میں آتا ہے، وہ 'الجماعۃ‘ کے اندر ایک جماعت بن جاتا ہے۔ اس اندازِ نظر کا اظہار سماجی روّیوں میں ہوتا اور اس کے نتیجے میں ایک ''تحریکی حلقہ‘‘ وجود میں آتا ہے۔ اب شادی بیاہ، تجارت، کاروبار اور دیگر معاملات میں ''تحریکی رشتہ‘‘ ترجیح بن جاتا ہے۔ اس رویے کے جو سماجی اثرات جماعت اور پھر اِس معاشرے پر مرتب ہوئے، وہ اس وقت میرا موضوع نہیں۔ میں یہاں بطور امرِ واقعہ اس کا ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ جماعت اسلامی کی اس سماجی شناخت کے ساتھ ایک فرد زاہد، عابد، صالح، سب کچھ ہو سکتا ہے، مگر ''عزیزِ جہاں‘‘ نہیں ہو سکتا۔ قاضی حسین احمد امیر جماعت ہونے کے باوجود اگر ''عزیزِ جہاں‘‘ بنے تو کیوں؟
قاضی صاحب نے مذہبی، سیاسی اور سماجی، تینوں حوالوں سے خود کو ''صالحین‘‘ کے امتیاز سے بلند کر دیا اور یہ چاہا کہ جماعت اسلامی بھی اس طرح بلند ہو جائے۔ ان کے ذاتی تعلقات صرف تحریکی حلقے تک محدود نہیں تھے۔ میں دوسری جماعتوں کے کئی افراد سے ملا جن کا کہنا تھا کہ قاضی صاحب کے ساتھ ان کے ''گھریلو‘‘ تعلقات ہیں۔ ہمارے سماجی پس منظر میں یہ بہت قریبی سماجی رشتے کا استعارہ ہے۔ جماعت اسلامی کے حلقے سے قرب کے باعث میں جماعت کے کسی ذمہ دار کو نہیں جانتا جو یہ کہہ سکے کہ جماعت کے حلقے سے باہر کسی سے اس کے گھریلو تعلقات ہیں‘ الا ماشااللہ۔ رشتہ داری ایک الگ معاملہ ہے۔ میں سماجی تعلق کی بات کر رہا ہوں۔ مذہبی حوالے سے بھی وہ مولانا مودودی کی فکر کے اسیر نہیں تھے۔ مولانا زاہدالراشدی اس کی تفصیل بیان کر چکے کہ کس طرح روایتی علما اور مذہبی طبقے کو قریب لانے کے لیے وہ مولانا کی آراء سے 'جماعتی رجوع‘ پر آمادہ تھے۔ دیو بندی پس منظر ہونے کے باعث اس حلقے سے ان کا تعلق خاطر ظاہر و باہر تھا۔ اسی طرح جماعت اسلامی کا کوئی ذمہ دار اس قربت کے بارے میں سوچ نہیں سکتا جو انہیں مولانا شاہ احمد نورانی کے ساتھ تھی۔ سید منور حسن ذاتی تجربات کے باعث شاید اس کا خواب بھی نہ دیکھتے ہوں۔ جب ملی یک جہتی کونسل بنی تو قاضی صاحب اہل تشیع سے بھی قریب ہو گئے۔ انقلاب ایران کے لیے ان کی محبت ڈھکی چھپی نہیں تھی۔ جہاں تک سیاست کا معاملہ ہے تو وہ تمام جماعتوں کے ساتھ اتحاد کر سکتے تھے اور کرتے رہے۔ یہ قاضی صاحب کا وصف تھا کہ وہ سارے جہاں کو ساتھ لے کر چل سکتے تھے۔ کیا جماعت میں کوئی اور ان جیسا تلاش کیا جا سکتا ہے؟ ان کے جانشین سید منور حسن کا معاملہ تو یہ رہا کہ وہ سارے جہاں کو کیا ساتھ لے کر چلتے، خود جماعت کو بھی اپنا ہم سفر نہیں بنا سکے۔
قاضی صاحب کے اس طرز عمل سے جماعت اسلامی کو فائدہ پہنچا یا نقصان؟ یہ سوال اُن کے دور امارت میں اٹھا اور بعد میں بھی زیر بحث رہا۔ یہ سوال بھی اس وقت میرا موضوع نہیں۔ میں یہاں بطور امر واقعہ اس کا ذکر کر رہا ہوں جس کی صدائے باز گشت ''عزیز جہاں‘‘ کی تقریبِ رونمائی میں بھی سنی گئی۔ راجہ ظفرالحق، جاوید ہاشمی، امین شہیدی، سب تصدیق کر رہے تھے کہ ہماری قومی تاریخ میں قاضی صاحب ہی اس لقب کے مصداق تھے۔ جنرل حمید گل کے صاحبزادے نے بتایا‘ وہ ان کے تایا تھے۔ بچپن سے وہ سب بہن بھائی، انہیں اپنے باپ کی طرح، اپنے دل کے قریب سمجھتے تھے۔ ایک نوجوان نے کہا کہ وہ کبھی جماعت کا رکن نہیں بنے گا لیکن قاضی صاحب اس کے دل میں بستے رہیں گے۔ یہ سب گواہیاں بتا رہی تھیں کہ قاضی صاحب کیسے عزیزِ جہاں تھے۔ اس کتاب میں شامل مضامین سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہر جماعت، ہر فکر، ہر مسلک اور ہر گروہ کا فرد انہیں اپنے قریب سمجھتا تھا۔ جاوید احمد غامدی صاحب نے قاضی صاحب کی شخصیت کے اس پہلو کو چند جملوں میں لپیٹ دیا: ''قاضی صاحب نے جس شخصیت سے تربیت پائی، میں نے کچھ وقت ان کے ساتھ گزارا ہے... مولانا سید ابوالاعلیٰ صاحب مودودی۔ ان کا معاملہ بھی یہ تھا کہ فطرت کا جتنا کچھ بھی حسن (کسی) طبیعت میں ہو سکتا ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کی شخصیت کی تشکیل میں کام آ گیا ہے۔ یہ چیز قاضی صاحب کے ہاں بھی ان کی تربیت سے منتقل ہوئی۔ ہمارے نوجوانوں کو بھی (ان سے) یہ سیکھنا چاہیے کہ اختلاف کے آداب کیا ہیں؟ اگر آپ کو کسی نقطۂ نظر سے مختلف رائے قائم کرنے کا موقع ملا ہے تو اسے کیسے پیش کریں گے؟ تہذیب کے ساتھ، شائستگی کے ساتھ کیسے بات کی جاتی ہے؟ دوسرے کے نقطۂ نظر کو، اگر وہ بہت ہی مختلف ہو، تب بھی کس طرح سنا جاتا ہے؟‘‘ (صفحہ 272)۔ میرا خیال ہے‘ یہی بات ہے جو قاضی صاحب کو ''عزیزِ جہاں‘‘ بناتی ہے۔
فرخ سہیل گوئندی ایک ممتاز دانش ور اور کالم نگار ہیں۔ فکری اور سیاسی اعتبار سے قاضی صاحب سے کوسوں دور کھڑے ہیں۔ کتاب کی تقریب رونمائی میں انہوں نے بتایا کہ کیسے قاضی صاحب کی دل آویز شخصیت نظری اختلاف کو سماجی تعلق اور قرب میں حائل نہیں ہونے دیتی تھی۔ جناب سجاد میرکا ایک نظامِ فکر ہے۔ وہ واقعات کو اس کے سیاق میں دیکھتے اور بیان کرنے کا سلیقہ رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ قاضی صاحب، مولانا مودودی کے بعد دوسرے آدمی ہیں جنہوں نے جماعت کی فکری و تنظیمی ساخت کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ انہوں نے جماعت کے دامن کو وسیع کیا۔ انہوں نے جناب سراج الحق کے لیے بھی چند سوالات اٹھائے۔ بہتر یہی ہے کہ وہ خود ہی ان پر قلم اٹھائیں۔
ایک سوال البتہ میرے ذہن میں بھی ہے۔ جناب سراج الحق مولانا مودودی کی طرح ''متنازع‘‘ بنیں گے یا قاضی صاحب کی طرح ''عزیز جہاں‘‘؟ دونوں کی ایک قیمت ہے۔ وہ کون سی قیمت چکانے پر آمادہ ہوں گے؟ زبان حال اور زبان قال سے وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں، میں اس کی مدد سے اس سوال کا جواب تلاش کر سکتا ہوں‘ مگر اس بحث کو کسی اور کالم کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔ فی الحال تو ایک ''عزیزِ جہاں‘‘ کا ذکر ہے۔ ادارہ فکروعمل کے روح و رواں، برادرم آصف لقمان قاضی اور برادرم شاہد اعوان کی ایمل پبلیکیشنز نے اس کتاب کو جس اہتمام سے شائع کیا ہے، سچ یہ ہے کہ وہ قاضی صاحب کے شایانِ شان ہے۔ جمال عبداللہ عثمان کا حسنِ انتخاب بھی لائقِ تحسین ہے۔