سماج ہے یا بصیرت و اخلاق کا قبرستان؟ ہر واقعہ ایک نئی قبرکا اضافہ کرتا جا رہا ہے۔ طالبان کی تقسیم ایک نئی آزمائش ہے۔ یہ اظہارِ مسرت کا نہیں، اظہارِ تشویش کا موقع ہے۔
عسکری گروہ بہت ہوں تو معاملہ کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ہر کسی کا اپنا مطالبہ اور اپنی شرائط۔ ریاست کس کس کو خوش اور کس کس سے مذاکرات کرتی پھرے؟ پھر یہ ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ یہ عمل ایک سیل (unicellular) کے جاندار 'امیبا‘ کی طرح ہے۔ ایک سے دو، دو سے چار اور یوں نسل آگے بڑھتی رہتی ہے۔ ریاست یا سماج کے لیے خیر اس میں ہوتی ہے کہ اگر زیادہ گروہ ہوں تو ان کی تعداد کم کرنے کی کوشش کرے، اس سے معاملہ کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ افغانستان میں جب سوویت جارحیت کے خلاف مزاحمت شروع ہو ئی تو افغان جنگجوئوں کے ان گنت گروہ تھے۔ معاملات جب پاکستان کے ہاتھ میں آئے تو اس نے مجاہدین کو سات جماعتوں میں سمیٹ دیا، اس سے بہت آسانی ہوئی۔ تجربے سے مزید یہ معلوم ہوا کہ یہ تعداد بھی زیادہ تھی۔ سوویت یونین رخصت ہوا تو اقتدار اور مالِ غنیمت پر جھگڑا ہو گیا۔ مجاہدینِ افغانستان نے بیت اللہ میں معاہدہ کیا اور پھر مکر گئے۔ ایک دوسرے کی گردنیں ناپنا شروع کر دیں، یہاں تک کہ تاریخ کے قدموں کی دھول بن گئے۔ پھر یہ ذمہ داری طالبان نے سنبھال لی۔ 1996ء سے 2001ء تک پاکستان کے لیے آسانی رہی کہ معاملہ صرف ملا عمر سے تھا۔ اگر اس سے پہلے افغان مجاہدین کا ایک گروہ ہوتا تو شاید خانہ جنگی افغانستان کا مقدر نہ بنتی۔
حکیم اللہ محسود کے بعد، میرا خیال ہے کہ مشکلات میں اضافہ ہوا، کمی نہیں آئی۔ اس کا ایک بڑا سبب طالبان میں مرکزِ قیادت کا خاتمہ تھا۔ اب حکومت ایک گروہ سے جنگ کرے گی اور دوسرے سے مذاکرات۔ جو مذاکرات سے ناخوش ہو گا، اس کے پاس ایک متبادل موجود ہے کہ وہ اس سے جا ملے۔ پھر یہ کہ جو مذاکرات کر رہا ہے، وہ کون سا غیرمسلح ہونے پہ رضامند ہو گیا ہے۔ گویا اس کے پاس بھی یہ دوسرا راستہ موجود رہے گا کہ کسی وقت اپنے ہتھیاروں کا رخ ریاست اور اس کے عوام کی طرف کر دے۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ مذاکرات کا آغاز کرتے ہوئے، حکومت کو پہلا سوال یہ کرنا چاہیے تھا کہ کس سے مذاکرات؟ پہلے اپنے نمائندے طے کرو، پھر گفتگو ہو گی۔ بات بڑی حد تک اسی وقت کھل جاتی۔ امام ابو حنیفہؒ کے پاس ایک وفد آیا کہ فاتحہ خلف الامام کے مسئلے پر گفتگو کرنی ہے۔ کہا پہلے یہ طے کر لو کہ کون تم سب کی ترجمانی کرے گا۔ سب نے ایک پر اتفاق کر لیا۔ جواب دیا کہ پھر مسئلہ حل ہو گیا۔ یہی میرا مسلک بھی ہے۔ جب ایک امام پر اتفاق ہو گیا تو نماز میں وہی سب کی نمائندگی کرے گا۔ مذاکرات میں کامیابی، عام طور پر موقف کی صحت پر منحصر نہیں ہوتی، اس میں بنیادی بات یہ ہوتی ہے کہ آپ کا طرز استدلال کیا ہے۔ امام ابو حنیفہؒ ہی کے بارے میں کسی نے امام مالکؒ کی رائے پوچھی۔ کہا: یہ مسجدکا ستون تم دیکھ رہے ہو؟ یہ لکڑی سے بنا ہے، ابو حنیفہؒ دلائل دینے پر آئیں تو ثابت کر دیں کہ یہ سونے کا ہے۔ تم ان کی تردید نہ کر پاؤ گے۔ مجھے تو اس سارے معاملے میں طالبان زیادہ 'حنفی‘ دکھائی دیتے ہیں۔
پھر طالبان میں تقسیم کا حاصل کیا ہے؟ کیا عسکریت پسندی ختم ہو جائے گی؟ کیا ملک میں امن آ جائے گا؟ میرے نزدیک اس کا کوئی امکان نہیں۔ جب تک ریاست اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ قومی مفادکے لیے فوج کے علاوہ بھی عسکری گروہ بنائے جا سکتے ہیں اور غیر ریاستی گروہوں کے ہاتھ میں ہتھیار گوارا کیے جا سکتے ہیں، طالبان کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ انسان روبوٹ نہیں ہوتے، ان میں کچھ اپنے ذہن سے سوچنے لگتے ہیں اور یوں کبھی القاعدہ اور کبھی طالبان وجود میں آتے ہیں۔ جو غلطی امریکہ نے کی، ہم بھی اسے ہی دہراتے رہے اور اس پر استمرار بھی ہے۔ اس لیے یہ اصلاً عملی نہیں، نظری مسئلہ ہے۔ طالبان کے دس گروہ ہوں یا ایک، اصل سوال یہ ہے کہ کیا ریاست، غیر ریاستی سطح پر ہتھیار اٹھانے کو جائز سمجھتی ہے اور کسی کو یہ اجازت دینے پر آمادہ ہے؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو پھر یہ ممکن نہیں کہ طالبان کو ختم کیا جا سکے۔ طالبان، ہم جانتے ہیں کہ غیر ریاستی مسلح اجتماعیت کا استعارہ ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ ایک گروہ کے لیے ہتھیار اٹھانا جائز ہو جائے اور دوسرے کے لیے ناجائز۔ ایک طاغوت کے خلاف لڑنا جائز ہے اور دوسرے کے خلاف ناجائز۔ اگر ریاست ہتھیار اٹھانے کو جائز نہیں سمجھتی تو پھر ظاہر ہے کہ وہ ہر گروہ سے ایک بات ہی کہے گی کہ وہ ہتھیار پھینک دے۔ ریاست کے پاس مذاکرات کے لیے اس کے سوا نہ کوئی جواز ہے نہ مینڈیٹ۔ اس کے لیے حکمتِ عملی بنائی جا سکتی ہے۔ مسلح گروہوں کو سوچنے کے لیے وقت دیا جا سکتا ہے۔ علما کے وفود ترتیب دیے جا سکتے ہیں جو ان سے اس باب میں مذاکرات کریں۔ حکومت عام معافی کا اعلان کر سکتی ہے۔ ریاست ایسے لوگوں کو کوئی بھی رعایت دے سکتی ہے۔ یہ تمام معاملات ریاست کا صوابدیدی دائرہ ہے۔ اب ریاست جس بحث پر چل نکلی ہے، اس کی بظاہر کوئی منزل نہیں۔ یہاں تو ریاست کا کوئی موقف ہی نہیں، اگر ہے تو تضادات کا مجموعہ۔ داخلی قومی سلامتی کے لیے ایک پالیسی بنی تو کہا گیا کہ ایک قومی موقف (Narrative) تشکیل دیا جائے گا۔
اس کے ساتھ ریاست کو یہ بات عامۃ الناس کو بھی سمجھانی ہے کہ ریاست کے خلاف یا اس کی اجازت کے بغیر کوئی ایسی مسلح جدوجہد کامیاب نہیں ہو سکتی نہ اس کا کوئی جواز ہے۔ یہ اس وقت بھی ممکن نہیں ہوا جب ہتھیار اور اخلاق ہم رکاب تھے، جب لوگ دن کو بزم آرا ہوتے اور رات اپنے رب کے حضور میں سجدہ ریز۔ اس سرزمین نے یہ امتزاج آخری بار1831ء میں دیکھا۔ اس کی علامت بالا کوٹ کی خاک میں محوِ آرام ہے۔ لوگوں نے ہتھیاروں کو زندہ کر دیا۔ اخلاق اور تقویٰ ابھی تک سو رہے ہیں۔
اخلاق فراموشی کا ایک مظہر بھی ہم نے اسی مذاکراتی عمل میں دیکھا۔ جماعت اسلامی ہماری سیاست میں اخلاق کو سب سے زیادہ اہمیت دینے والی جماعت ہے۔ جب سجنا گروپ کے اعظم طارق صاحب نے طالبان کی اخلاقیات پر گفتگو کی تو پروفیسر ابراہیم صاحب کو معلوم ہوا کہ: ''طالبان کے کئی گروپ بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان میں ملوث ہیں‘‘۔ کیا کوئی ذی عقل یہ باور کر سکتا ہے کہ یہ بات پہلے ان کے علم میں نہیں تھی؟ اگر تھی تو انہوں نے طالبان کی وکالت کا ذمہ کیسے اٹھایا؟ اب تک وہ اکثر حکومت اور فوج ہی کو الزام دیتے رہے ہیں، اب جبکہ انہوں نے خود اعتراف کیا ہے، کیا اس کے بعد بھی وہ مذاکرات میں طالبان کی نمائندگی کریں گے؟ مذاکرات شروع ہوئے تو انہوں نے کہا: وہ ثالث بالخیر ہیں۔ کیا ثالت بالخیر ایسے ہو تے ہیں؟ مذاکرات میں کامیابی کیا ملتی، ہم بصیرت اور اخلاق کا اثاثہ بھی گنوا بیٹھے۔ مجھے مولانا سمیع الحق کے ردِ عمل کا بھی انتظار ہے؟ وہ اس وقت طالبان کے کس دھڑے کے ساتھ ہیں؟
متاعِ دین و دانش لٹ گئی اللہ والوں کی
یہ کس کافر ادا کا غمزۂ خوں ریز ہے ساقی