مایوسی اور خوف کا حصار ہے ،آئے دن جس کی گرفت مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔ مایوسی خدا سے نہیں، مخلوقِ خدا سے۔خوف وہ جو ظلم سے پھوٹتا ہے اور اس کی نسبت بھی ابنِ آدم کی طرف ہے۔
میں مسلمان ہوں اور اس پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔اللہ تعالیٰ کے ان گنت احسانات میں سے، سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے ہدایت کی دولت کسی محنت کے بغیر عطا کر دی۔ایک مسلمان گھرانے میں پیدا کیااور پھر ان لوگوں کی صحبت نصیب کی جنہوں نے اسے ایک شعوری عقیدے میں بدل دیا۔اس کے باوصف، میں اس خوف میں مبتلا ہوں کہ نہ جانے کب اور کون مجھے توہینِ مذہب کا مجرم بنا دے۔میں پاکستانی ہوں اور اس پر بھی اپنے رب کا شکرگزار۔ایک ایسی سرزمین میرا وطن ہے جس پر قدرت کی نوازشات کا شمار نہیں۔یہاںاس نے میری مادی اور جمالیاتی تسکین کے لیے غیر معمولی اہتمام کیا ہے۔فطرت کا بے پناہ حسن اور ثمرات کی فراوانی۔علم وفن کی دنیا میں ایسی نادرِ روزگار شخصیات نے یہاں جنم لیا جس کی کوئی نظیر کسی معاصر زبان میں موجود نہیں۔تفسیر سے لے کرنظم اور غزل تک،موسیقی سے لے کر مصوری اور خطاطی تک،اس خطے کا ادب اورآرٹ میری جمالیاتی تسکین کا وہ سامان ہے جو مجھے آسودہ رکھتا ہے۔اس سرزمین سے میرا پیار فطری ہے۔اس کے باوجودمجھے خوف رہتاہے کہ نہ جانے کب غدار قرار دیا جاؤں اوربستی کے اوباش میرا گھر سے نکلنا دوبھر کردیں۔میں اس اجمال کی تفصیل کر تا ہوں۔
ایک عرصے سے مذہب میری دلچسپی کا میدان ہے۔گزشتہ تیس سالوں میں، میں نے جس موضوع پر سب سے زیادہ پڑھا ،وہ مذہب ہے۔مجھے جن علمی شخصیات کا قرب ملا،ان میں اکثریت علما اور دینی سکالرز کی رہی۔میں نے سب سے زیادہ جن مو ضوعات پر قلم اٹھا یا وہ مذہبی ہیں۔ظاہر ہے کہ میں نے اسلام کا مقدمہ اپنے فہم کے مطابق بیان کیاہے۔میں نے کوشش کی ہے کہ اس دین کی کوئی خدمت کر سکوں تاکہ اپنے رب کے حضور میں کسی رعایت کا مستحق قرار پاؤں۔اس پس منظر کے باوجود میں اب مذہبی مو ضوعات پر قلم اٹھاتے ہوئے ڈرتا ہوں۔یہ خوف دامن گیر رہتا ہے کہ نہ جانے کب کوئی میرے کسی جملے سے توہینِ مذہب برآمد کر لے۔ میرے الفاظ کو وہ معانی پہنا دے جو میرے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں۔میں ایک جملہ لکھتا ہوں اور پھر اسے چھ بار پڑھتا ہوں۔مذہب کے باب میں ان گنت مو ضوعات ہیں جن پر کلام کرنے کی ضرورت ہے۔میں دین کی تجدید اور احیا پر یقین رکھتا ہوں۔اس کے لیے ناگزیر ہے کہ پہلے سے قائم شدہ آراء زیرِ بحث آئیں اور ان پر نقد ہو۔میں اب ان پر کلام کرتے ہوئے ڈرتا ہوں کہ مبادا کوئی انہیں 'شریعت‘ قرار دے اورپھر... بس اس سے آگے میں سوچ نہیں سکتا کہ ایک خوف مجھے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔پھر مجھے ڈاکٹر فاروق خان یاد آتے ہیں۔وہ سرتاپا خیر ہی خیر تھے لیکن مارڈالے گئے کہ تجدید واحیائے دین کے قافلے میں شامل تھے۔
مجھے اپنا قومی مفاد عزیز ہے، ہر اُس فرد اور ادارے کی طرح جو اس کا دعویٰ رکھتا ہے۔تاہم بعض اوقات مجھے 'قومی مفاد‘ کی اس تعریف سے اتفاق نہیں ہو تا جو اس سماج پر بزور مسلط کی جاتی ہے۔میرا کہنا یہ بھی ہے کہ قومی مفاد ریاضی کا کوئی سوال نہیں جس کا صرف ایک جواب ممکن ہے۔قومی مفاد کی ایک سے زیادہ تعریفیں ممکن ہیں اوراس کے حصول کے لیے ایک سے زیادہ راستے ہو سکتے ہیں۔قومی تاریخ کے ہر موڑ پر یہ اختلاف مو جود رہا ہے۔بدقسمتی سے ماضی میں بھی یہ کوشش کی گئی کہ ایک مخصوص رائے یا موقف سے مختلف ہر بات کو قومی مفاد کے منافی کہا جا ئے اور ایسی رائے رکھنے والوں کی حب الوطنی کو مشکوک بنا دیا جائے۔توہینِ مذہب کی طرح، اس معاملے میں بھی بہت آسان ہے کہ کسی کو بھارتی ایجنٹ قرار دے دیا جائے یا ملک کے ساتھ اس کی وفا داری کے سامنے سوالیہ نشان بنادیا جائے۔ اس کے بعد اس کے لیے عرصہ حیات کا تنگ ہو جا نا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ اس لیے میں اب اس معاملے میں بھی اختلاف کرتے ہوئے ڈرتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ قومی مفاد کے لیے کھلی بحث ہو نی چاہیے۔ملک کو درپیش چیلنج بدلتے رہتے ہیں اور اجتماعی بصیرت اُسی وقت مو ثر ہو سکتی ہے جب آزادیٔ رائے مو جود ہو۔یہ ممکن ہے کہ میرا موقف سامنے آئے اور رد کر دیا جائے۔ میں تو بس اتنی آزادی چاہتا ہوں کہ جان و مال کا خوف رکھے بغیر اپنی بات کہوں۔مجھے اس پراصرار نہیں ہے کہ ہر صورت میری بات مانی جائے۔اس وقت ملک میں ایسی فضا ہے کہ مجھے مختلف بات کہتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔میرے ذہن میں ان گنت باتیں ہیںلیکن شاید کبھی سامنے نہ آسکیں۔ایک خوف اظہار کے راستے میں حائل ہو گیا ہے۔
میں کوئی امیر آ دمی نہیں۔ہزاروں سے آگے، مجھے گنتی آتی ہے نہ میرے آجروںکو۔اس کے با وجود مجھے 'اغوا برائے تاوان‘ کاخوف چین نہیں لینے دیتا۔میرے شہر میں کوئی ایسا قانون ہے نہ طاقت جو کسی مجرم کو روک سکے۔ سنگ پابگِل اور سگ آزاد۔ پولیس ممکن ہے تھانوں میں ہوتی ہو، میری حفاظت کے لیے تو نہیں ہے۔میری گاڑی چوری ہوئی۔ایک سال اور آٹھ مہینے ہوگئے۔چوری کے بعد میں ایس پی شہر سے ملا۔ انہوں نے فرمایا:دعا کریں۔ایس پی صاحب نے جوذمہ داری جواباً میرے کندھے پر ڈالی، میں خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کررہا ہوں۔گاڑی کی اب تک کوئی خبر نہیں۔میرے دونوں پڑوس میں ڈاکے پڑ چکے۔محلے والوں نے اپنے طور پر محافظ(Guard)کا اہتما م کر رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے توفیق دے اور مجرموں کو بے توفیق رکھے۔میں شہر میں بننے والے
میٹرو کے منصوبے کو دیکھ کر خوش ہو تا ہوں لیکن آپ سے سچ عرض کر تاہوں کہ یہ میرے خوف کا مداوا نہیں۔میٹرو کیا اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کو روک سکتی ہے؟
یہ سب داخلی خوف ہیں، خارجی ان پر مستزاد۔ ایک آزاد ملک کا شہری جب اتنے اندیشوں میں گھرا ہو تو کیا اسے آزاد کہا جا سکتا ہے؟اصل آز ادی داخلی ہو تی ہے۔ یہ خوف سے نجات کے بغیر نہیں مل سکتی۔مجھے ان اندیشوں سے کون نجات دلا سکتا ہے؟ میرا خیال ہے کہ اس ملک میں سوچنے سمجھنے والوں کی اکثریت انہی اندیشہ ہائے دوردراز میں مبتلا ہے۔کوئی اظہار کرتا ہے اور کوئی نہیں۔ان اندیشوںسے آزاد وہی ہے جو زورآوروں کا ساتھی ہے۔جو ان کی پناہ میں ہے۔اس میں بھی لیکن ایک مسئلہ ہے۔خوف کا مر کز ایک نہیں ہے۔اگر کوئی ایک کی پناہ میں ہے تو اسے دوسرے کا خوف ہے۔اکثریت کوچونکہ کوئی پناہ گاہ میسر نہیں اس لیے، اس کاخوف دوچند ہے۔میں بھی اسی اکثریت کا ایک حصہ ہوں۔ اگر اسے قومی مفاد کے منافی نہ سمجھا جائے تومیں ڈرتے ڈرتے ایک سوال اٹھاتا ہوں : اس خطے میں بسنے والا مسلمان اگست 1947ء سے پہلے زیادہ اندیشوں میں گھرا تھا یا آج کا مسلمان؟
ہم سب سے مایوس ہو سکتے ہیں لیکن اپنے پرور دگار سے نہیں۔صرف اس کی رحمت کا حصار ہمیں تمام اندیشوں سے نجات دلا سکتا ہے۔زندگی اور موت، عزت اور ذلت ہی نہیں، سارا خیراس کے ہاتھ میں ہے۔اس کے لیے اللہ پر پختہ ایمان ضروری ہے۔میں اپنے رب سے اسی ایمان کی دعا کرتا ہوں۔