عمران خان کو جب میں جلسۂ عام میں خطاب کرتے دیکھتا ہوں تو جذبات پر منوں اوس پڑ جاتی ہے۔ بھٹو صاحب امریکہ کو للکارا کرتے تھے۔ آج وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار اور انقلاب کے ایک داعی کی ذہنی سطح یہ ہے کہ ایک فرد کو شکست دینے چلا ہے ۔ ماضی میں مقاصد جلیل اور خواہشیں قلیل ہوتی تھیں۔ اب ترتیب الٹ گئی ہے۔ انقلاب تو آ چکا، معلوم نہیں، اب کس کی جستجو ہے! کیا ریاست کی باگ ڈور ایسے طفلان سیاست کے ہاتھ میں دی جا سکتی ہے؟ برادرم اظہارالحق صاحب کا تجزیہ صائب ہے کہ اس رویے سے بدترین فسطائیت ہی جنم لے گی۔
ہر کام کے لیے رجالِ کار ہوتے ہیں۔ انتخاب میں غلطی ہو جا ئے تو نتائج بھگتنا پڑتے ہیں۔ برسوں پہلے اسلامی نظریاتی کونسل میں ایک مباحثہ تھا۔ مولانا محمد خان شیرانی کے دور کا آ غاز تھا۔ پاک فوج کے ایک سابق سربراہ کے ساتھ ایک دوسرے محترم جنرل (ر) بھی شریک تھے۔ برادرم سلیم صافی اور مجھ جیسے طالب علم بھی مدعو تھے۔ ان بزرگوں کے خیالات سنے تو ایک ریٹائرڈ میجر یاد آئے‘ جو خلیج کی جنگ کے دنوں میں بطور 'دفاعی تجزیہ نگار‘ شہرت رکھتے تھے۔ موصوف نے خلیج کے معرکے میں امریکی شکست کی پیش گوئی کی۔ ان کے دلائل بڑے دلچسپ تھے۔ مثال کے طور پر امریکی ،صحرا کے ماحول سے واقف نہیں۔ عراق کے صحراؤں میں سرِ شام ایک ہوا چلتی ہے‘ اس سے امریکی توپوں میں ریت گھس جائے گی۔ یوں ان کا اسلحہ ناکارہ ہو جائے گا۔ میں کونسل کی عمارت سے باہر نکلا تو اللہ کا شکر ادا کیا کہ ہم اِن بزرگوں کے دور میں جنگ جیسی کسی آزمائش سے محفوظ رہے۔ فوج جیسے شاندار ادارے کی قیادت بھی اگر جنرل یحییٰ خان اور پرویز مشرف جیسے لوگوں کے ہاتھ آ جائے تو اس کے نتائج ادارے کے ساتھ پوری قوم کو بھگتنا پڑتے ہیں۔ یہی معاملہ سیاسی جماعتوں کا بھی ہے۔ قرآن مجید نے کیا اچھی نصیحت کی: امانتیں ان کے اہل لوگوں کے سپرد کرو (4:58)۔
کیا اقتدار کی امانت عمران خان کو سونپی جا سکتی ہے؟ لیڈر کی پہلی نشانی یہ ہے کہ اس کا کوئی وژن ہو۔ وژن کے لیے فکری ریاضت ناگزیر ہے۔ بھٹو صاحب ریاضت کرتے تھے۔ انہیں کتاب سے محبت تھی۔ غالباً 'مائی فرینڈ زلفی‘ کے مصنف پیلو مودی نے لکھا ہے کہ بھٹو لیٹے ہوتے اور ان کے دونوں جانب کتابوں کا ڈھیر ہوتا۔ ایک طرف وہ کتابیں جو پڑھی جا چکیں، دوسری طرف وہ جو پڑھی جانی ہیں۔ سابق سیکرٹری خارجہ تنویر احمد خان نے مجھے ایک بار بتایا کہ وہ اپنی ملازمت کے دوران میں ایک مغربی ملک کے پاکستانی سفارت خانے میں تعینات تھے کہ انہیں بھٹو صاحب کا فون آیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ بہت دنوں سے کسی کتب خانے نہیں جا سکے‘ وہ انہیں بتائیں کہ کون کون سی نئی کتابیں آئی ہیں۔ اگر ہٹلر پر کوئی نئی کتاب چھپی ہو تو وہ انہیں بھجوا دیں۔ بھٹو صاحب کے بارے میں معروف ہے کہ عالمی رہنماؤں کے سوانح سے انہیں خاص دلچسپی تھی۔ 'ایک موہوم آزادی‘ کے مصنف کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔ بھٹو صاحب اگر ناکام ہوئے تو اس کا سبب تہذیبِ نفس کی کمی تھی، ورنہ ان کی نظری سطح ایک رہنما کی تھی۔ کامیاب ترین مغل بادشاہ اکبر ان پڑھ تھا۔ اس نے اپنے دربار میں ایک اہل کار کو یہ ذمہ داری سونپ رکھی تھی کہ وہ نئی نئی کتب دریافت کرے اور اسے پڑھ کر سنائے۔ یہ بات اکبر بھی جانتا تھا کہ حکمرانی ایک وژن چاہتی ہے اور وژن علم کے بغیر نہیں آتا۔ اُن دنوں علم کتابوں میں مستور تھا یا پھر اہلِ علم کی مجالس میں۔ اکبر نے اپنے دربار کو دونوں سے محروم نہیں رکھا۔
اور عمران خان کا دربار؟ کیا کوئی پڑھا لکھا آدمی اُن کے قرب کا دعویٰ کر سکتا ہے؟ میں بلاواسطہ معلومات کی بنیاد پر یہ عرض کرتا ہوں کہ انہوں نے علامہ اقبال اور مہاتیر محمد کا نام سن رکھا ہے لیکن وہ ان دونوں کو نہیں جانتے۔ میں نے ایک مرتبہ توجہ دلائی کہ تحریکِ انصاف کا کوئی وژن ہونا چاہیے۔ انہوں نے کچھ بتانے کی کوشش کی۔ کہنے لگے کہ میرے پیش نظر چین کا ماڈل ہے۔ میں نے پوچھا‘ کیا آپ چینی سماج کو جانتے ہیں؟ اس کی ساخت ہمارے معاشرے سے یک سر مختلف ہے۔ مثال کے طور پر چین کی سماجی بُنت میں مذہب کہیں نہیں ہے۔ ہمارے ہاں مذہب سماجی تشکیل کی بنیادی اکائی ہے۔ وہاں کا ماڈل یہاں کیسے کامیاب ہو سکتا ہے؟ بات یہاں پر ختم ہوئی کہ آپ یہ وژن لکھیں۔ میں جانتا تھا کہ اہلِ سیاست جان چھڑانے کے لیے یہی کرتے ہیں۔ اگر میں لکھ بھی دیتا تو کسی ردی کی ٹوکری میں پڑا ہوتا۔ پھر کس کے پاس اتنی فرصت کہ وژن اٹھائے ان کے پیچھے پھرتا رہے کہ 'وژن لے لو وژن لے لو‘۔
ان کی کتاب میں نفسیات کے ایک ماہر (صوفی) کا بہت ذکر ہے۔ ان کی صحبت نے عمران خان کی زندگی پر مثبت اثرات مرتب کیے۔ ان کی کامیابیاں اسی کا ثمر ہیں۔ جیسے جہدِ مسلسل اور کسی شکست کے منفی اثرات سے خود کو محفوظ رکھنا۔ اس سے لیکن وژن تو نہیں آتا۔ سیاست میں ان کا اثاثہ یہی تھا اور اس پر مستزاد ان کی شہرت اور کرشماتی شخصیت۔ ان کی دیانت پر بھی لوگ بھروسہ کرتے ہیں۔ شوکت خانم کا منصوبہ گواہ ہے کہ وہ بددیانت نہیں ہیں۔ سیاست میں وہ اس اثاثے کے ساتھ نمودار ہوئے۔ ابتدا میں مسترد ہوئے لیکن بعد میں اسی جہدِ مسلسل کی بدولت اور کچھ اہلِ سیاست کی ناکامی کے سبب، نمایاں ہو گئے؛ تاہم اس سیاسی کامیابی کے لیے، انہیں بہت کچھ گنوانا پڑا۔ انہوں نے اپنی سیاسی کامیابیوں کی ایک قیمت ادا کی۔ یہ قیمت آئیڈیل سے انحراف اور موقع پرست حقیقت پسندی کی بطور حکمت عملی قبولیت تھی۔ اب ان کے پاس معلوم ہوتا ہے کہ اقتدار کی خواہش کے سوا کچھ باقی نہیں بچا۔ وژن سے محرومی کا لازمی نتیجہ احتجاج کی سیاست ہے۔ جب کہنے کو کچھ نہ ہو پھر ہنگامہ آرائی ہی بہتر سیاسی حکمتِ عملی ہے۔ معلوم ہوتا ہے یہ بات انہوں نے شیخ رشید سے سیکھی ہے۔ بغیر کسی سیاسی اثاثے کے، سیاست میں زندہ رہنے کا فن ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔
وژن نہ ہو تو پھر وہی کچھ ہوتا ہے جو ہو رہا ہے۔ایک ٹی وی چینل پر ایک خاتون اینکر نے عمران خان سے نامناسب سوال کیے۔ عمران اس وقت مجھے اخلاقی طور پر بہتر جگہ پر کھڑے نظر آئے۔ جلسۂ عام میں، مگر جب وہ کسی کو للکارتے ہیں تو اخلاقی برتری کسی اور کی ہوتی ہے۔ بات صرف اخلاق کی نہیں، حکمتِ عملی کی بھی ہے۔ حکمتِ عملی طے کرتی ہے کہ آپ کس سطح کے رہنما ہیں۔ بھٹو صاحب پھر یاد آئے۔ ایک سیاسی رہنما نے ان پر تنقید کی۔ بھٹو صاحب کا خیال تھا کہ ان کا قد کاٹھ ایسا نہیں کہ وہ جواب دیں۔ ایک اخبار نویس نے سوال کیا تو کہا: Who is she? (یہ خاتون کون ہیں؟)۔ بھٹو صاحب کے اس ایک جملے نے ان کے ناقد کو سیاست کے کوڑا دان میں پھینک دیا۔ ہمارے خان صاحب نے اگر سیاست یا سیاسی شخصیات پر کوئی کتاب پڑھی ہوتی تو شاید جان پاتے کہ اپنے ناقدین سے کیسے معاملہ کیا جاتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو اسد عمر اور شیریں مزاری جیسے لوگوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے لیکن ثانوی درجے پر۔ یہ لوگ کسی وژن کو پالیسی میں ڈھال سکتے ہیں لیکن وژن نہیں دے سکتے۔ وژن لیڈر دیتا ہے، وہ نہیں جو اخباری مالکان کو جلسوں میں للکارتا ہو۔