"KNC" (space) message & send to 7575

رمضان اور تصورِ مذہب

رمضان کا آغاز ہو چکا۔اس کے مظاہر ہمیں مساجد میں نظر آئیں گے یا پھرکچوریوں اور سموسوں کے لیے، دکانوں کے سامنے لگی لمبی قطاروں میں۔اس کا ظہور ہو گا مگر صرف کلچر کی سطح پر۔روزے کا مقصود تقویٰ ہے۔ کیا تقویٰ یہی کچھ ہے؟
رمضان کی دستک سنائی دیتی ہے تو گرانی بازاروں کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔عام آ دمی اس طرف کا رخ کرتے ہوئے گھبرا تا ہے۔جیسے جیسے رمضان کے دن قریب آتے ہیں،کھانے پینے کی اشیاء عوام کی پہنچ سے دور بھاگنے لگتی ہیں۔قیمتیں جیسے آ سمان کو چھوناچاہتی ہیں۔جوتاجر اس کا ذمہ دار ہے، نماز ِ تراویح کے لیے سب سے پہلی صف میں بیٹھا ہو تا ہے۔مسجد کے لیے چندہ بھی وہی سب سے زیادہ دیتا ہے۔ مدارس اسی کے دم سے آ باد ہیں۔وہ جب مسجد سے نکلتا ہے تواس کا رخ دین سے دنیا کی طرف ہو تا ہے۔وہ دکان میں بیٹھتا ہے تو اس کی نظر صرف منافع پر ہو تی ہے۔اس کی خواہش ہوتی ہے کہ سال بھر کی آ مدن اس ایک مہینے میں ہو جا ئے۔کبھی آپ نے سوچا ایسا کیوں ہو تا ہے؟
اس کا تعلق ہمارے تصور مذہب سے ہے۔اہلِ مذہب نے اس تاجر کو کچھ مصدقہ کچھ غیر مصدقہ باتیںیاد کرا دی ہیں۔ان سے وہ یہ سیکھتاہے کہ نجات کے لیے یہ لازم نہیں کہ انسان زندگی کے ہر روپ میں اور ہر دن مسلمان ہو۔وہ اگرتمام عمر میںنیکی کا کوئی ایک کام کر دیتا ہے تو یہ اس کی بخشش کے لیے کا فی ہے۔مثال کے طور پر اگراس نے اپنے ایک بچے کو قرآن مجید حفظ کرا دیا تو قیامت کے روز نہ صرف اس کی نجات ہو جا ئے گی بلکہ اسے سونے کا تاج بھی پہنا یا جا ئے گا۔یا جس نے مسجد میں ایک اینٹ لگائی، جنت میں اس کا محل بن جا ئے گا۔یہ سب باتیں، اسے مسجد کا امام اور مدرسے کا مہتمم سنا تا ہے۔اس طرح وہ یہ سمجھ لیتا ہے اس کے بعد اب وہ آزاد ہے، چاہے تو نا جائز منا فع کمائے چاہے توگناہ کا کوئی اور کام کرے۔اب وہ ایک بچہ مدرسے کے حوالے کر دیتا اور یہ خیال کرتاہے کہ بخشش کا سامان ہو گیا۔اس کا دوہرا فائدہ ہے۔ مدرسے اور تاجر کا کاروبار دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ تاجر مطمئن ہے کہ اس نے اپنی نجات کا اہتمام کر لیا۔اس وقت اگر ہمارے مدارس کا نظام قائم ہے تو اسی تاجر کے دم سے۔
مسجد کی تعمیر میں حصہ لینا بلا شبہ نیکی ہے اور اس کا اجر بھی ہے۔اسی طرح بچوں کو حافظِ قرآن بنا نا بھی نیکی ہے۔لیکن یہ نیکی کرنے کے بعد بھی،ایک انسان اپنے اعمال کے لیے اسی طرح جواب دہ رہتا ہے جس طرح وہ آدمی جس نے اپنے بیٹے کو حافظ نہیں بنا یا۔اگر وہ ناجائز منافع کماتا ہے تو اسے اس جرم کی سزا بھگتنی ہے۔قر آن مجید اس بارے میں دو اور دو چار کی طرح واضح ہے۔ اللہ کے آ خری رسول ﷺ نے بھی یہ بات سمجھا نے میںکوئی کمی نہیں چھوڑی۔ہمارے محدثین نے روایت کو پرکھنے کے باب میں یہ اصول بتا دیا کہ اگر کسی روایت میں ایک چھوٹی نیکی کا بڑا اجر یا کسی چھوٹے جرم کی بڑی سزا بتائی گئی ہے تو وہ مو ضوع ہے۔یعنی گھڑی ہوئی ہے۔ نیکیوں کے درجات ہیں اور برائیوں کے بھی۔ ایک بات البتہ واضح ہے۔اللہ تعالیٰ یہ چاہتے ہیںکہ انسان تادمِ مرگ اللہ کا بندہ بن کر جئے۔ اس کے ذمہ کچھ فرائض ہیں جو اس نے بہر صورت ادا کرنے ہیں، جیسے نماز۔یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک آ دمی نماز نہ پڑھے اور یہ خیال کرے کہ چو نکہ اس نے بیٹے کو حافظ بنا دیا ہے، اس لیے قیامت کے روز سونے کا تاج اس کا حق ہو گیا۔ ایک شخص ایک کاروبار کرتے وقت کسی اخلاقی ضابطے کو کام میں نہ لائے۔یہ کیسے ممکن ہے کہ اس طر ح حا صل کی گئی دولت سے وہ رمضان دستر خوان سجا دے تو اس کی بخشش کا سامان ہو جا ئے گا۔ وہ ناجائز طریقے سے پانچ کروڑ کمائے اور پھر ایک کروڑ غریبوں پر خرچ کر کے یہ گمان کرے کہ یہ ناجائز کمائی اب جائز ہو گئی ہے۔اس نے انسانوں پر جو ظلم کیا، اس کی تلافی ہوگئی ہے۔
بد قسمتی سے اس وقت غالب تصورِ دین یہی ہے۔ایک تاجر رمضان کے مہینے میں ناجائز منافع خوری سے دو لاکھ کماتا اور پھر مسجد میں دینی تقریب کے لیے دو ہزار دے کر یہ خیال کرتا ہے کہ اس نے لوگوں کو لوٹنے کا جو جرم کیا تھا، اب معاف ہو جا ئے گا۔افسو س لوگ اس دینی بصیرت سے صرفِ نظر کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے حقوق کے معاملے میں بہت حساس ہے۔ اللہ کی شریعت حقوق اللہ کی پامالی کو گناہ کہتی ہے لیکن جرم نہیں‘ کہ دنیا کے نظامِ تعزیرات میں اس کے لیے کوئی سزا لکھ دی گئی ہو۔ حقوق العباد کا معاملہ یہ نہیں ہے۔ اگر کسی انسان کا حق پامال ہوا تو وہ گناہ بھی ہے اور جرم بھی۔ گویادنیا میں سزا ملے گی اور آ خرت میں بھی۔پھر یہ بھی ہے کہ حقوق اللہ کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی ہو جا ئے تو اس کی تلافی اللہ کے بندوں کے ساتھ نیکی ہے۔روزہ اللہ کا حق ہے۔ اگر چھوٹ جا ئے تو اللہ کا حکم ہے کہ ساٹھ غریبوں کو کھا نا کھلا دیا جائے۔جب غلامی کا نظام مو جود تھا تو اللہ تعالیٰ نے غلام کو آ زاد کرانے کو بہت سی کوتاہیوں کے لیے تلافی بنا دیا۔ 
ہم نے دین کے باب میں ترتیب کو الٹ دیا۔قرآن مجید کو روایت اور فقہ پر حاکم ہوناچاہیے تھا۔ ہم نے روایت اور فقہ کوقرآن پر حاکم بنا دیا۔ حقوق اللہ کی تلافی بندوں کی خدمت میں تھی، ہم نے حقوق العباد کی تلافی دوسری نیکیوں میں تلاش کر نا چاہی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مذہب اپنی روح سے خالی ہو گیا۔اکثریت کے لیے وہ چند رسوم کا مجموعہ ہے یا چند غلط فہمیوں کا۔ایک بڑی غلط فہمی کا میں نے ذکر کر دیا جو رمضان کے ساتھ ہے۔غور کیجیے تو ایسی کئی غلط فہمیاں ہیں جو ہماری زندگی کا احاطہ کئے ہو ئے ہیں۔لوگ مذہب سے الگ نہیں ہو نا چاہتے لیکن خواہش یہ رکھتے ہیں کہ وہ ان کی ضروریات، تعصبات یا خواہشات کے تابع ہو جائے۔یوں مذہب کے نام پر ایسی ایسی تعبیرات معاشرے میں مقبول ہونے لگتی ہیں جن میں سب کچھ ہو تاہے لیکن مذہب نہیں۔' ،مذہبی شخصیت‘ ہر چیز کا سراغ دیتی ہے لیکن نہیں دیتی تو پروردگار کا۔
یہ صرف پاکستان کا معاملہ نہیں، ہم مسلمانوں کا عالمگیر مسئلہ ہے۔شریعت و طریقت سے لے کرشریعت و آئین کی بحث تک،تصورِ جہاد سے تصورِ عبادت تک،مذہب تفہیمِ نو کا متقاضی ہے۔ وہ تفہیم جو قرآن مجید اور اسوۂ پیغمبر کی گہری بصیرت سے پھو ٹتی اور روحِ عصر کے مطالبات کو جانتی ہو۔رمضان میں دینی درس کے حلقے متحرک ہو جا تے ہیں۔کاش اس کا اہتمام ہو کہ یہ غورو فکر کے حلقے بن جا ئیںاوردین کے باب میں پھیلی غلط فہمیوں کا کسی حد تک ازالہ ہو۔رمضان میں لوگ یہی جان لیں کہ ناجائز منافع کمانا جرم ہے۔ یہ اللہ کے بندوں کے ساتھ ظلم ہے۔اس کی تلافی مدرسے کو چندہ دینے سے نہیں ہو سکتی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں