یوں بھی ہو تا ہے کہ ماہ و سال گزر جاتے ہیںمگر آ دمی وہیں کھڑا رہ جاتا ہے۔
عشق کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام
چار سال بعد ،میں اپنے استاذِ گرامی کے حضور میں تھا۔میرے پاس کیا تھا۔وہی جس کے ساتھ میں پچیس سال پہلے اس درس گاہ میں پہلی بارحاضر ہوا تھا... چند طالب علمانہ سوال۔اس بارگاہ کا دستوربھی بدلا نہیں تھا... وہی شفقت اور علم کا بہتا دھارا۔طبیعت سیراب تو ہو تی ہے، سیر نہیں ہوتی۔کچھ دیر گزری تو احساس ہوا کہ میرا وجود زمان و مکان کی گرفت سے نکل آیا ہے۔وقت کی ایک کڑی دوسری کے ساتھ اس طرح جڑ ی کہ دوری کے چار برسوں کا کہیں ذکر نہیں تھا۔ اپنے پروردگار کا وعدہ یاد آیا۔باغِ بہشت سے نکا لا ہوا جب ایک بارپھر اس شہرِ مراد میں جا بسے گا تو کلفتِ خاطرکے لاکھوں سال اسی طرح بے معنی ہو جا ئیں گے۔کسی نے اگر درمیاں کے دنوں کا شمار پوچھ لیا تو اس کا جواب کیا ہوگا؟وہی جو اصحابِ کہف نے دیا تھا: 'ایک دن یا پھراس سے بھی کم‘۔
ایک سوال بار ہا ہونٹوں سے لو ٹتا رہا،اس خیال سے کہ پرانے زخم ہرے نہ ہو جائیں۔آخر مزاحمت نہ کر سکا۔پوچھا:ہجرت کے دن کیسے کٹے؟ربع صدی کا مشاہدہ اور تجربہ میرے سامنے تھا۔میں ان کی افتادِ طبع سے کسی حد تک واقف ہوں۔میں جا نتا ہوں کہ وہ صاحبِ دل ہیں مگران کے دل کی طرف جانے والا ہر راستہ دماغ سے گزر کے جاتا ہے۔وہ گریہ کے آ دمی نہیں ہیں۔ گفتگو کے دوران میں، مخاطب کی آنکھ میں نمی دیکھ لیں تو مو ضوع بدل دیتے ہیں۔
جانتا ہوں ایک ایسے شخص کو میں بھی منیر
غم سے پتھر ہو گیا لیکن کبھی رویا نہیں
سوال کے جواب میں کہا:''پاکستانی سفارت خانے نے یومِ پاکستان کی تقریب میں مدعو کیا۔جب قومی ترانے کی آواز کانوں سے ٹکرائی تو دل لہو سے بھر گیا۔میںپھوٹ پھوٹ کے رو دیا‘‘۔ میں نے اس لمحے غالب کو یاد کیا۔
انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں
گزرے تین عشروں میں اس ملک پر جو قیامت ٹوٹی،اس کی بر بادی کا ہمیں ابھی تک اندازہ نہیں ہو سکا۔کوئی شاخِ تمنا ہری نہیں رہی۔ریاست کا کیا رونا کہ سماج کی ہر قدر اس کی نذر ہو گئی۔ایک نفسیاتی عارضے نے ہمیں گھیر لیا۔ایسا عارضہ جس میں کرداروں کی صورتیں تبدیل ہو گئیں۔دوست دشمن اور دشمن دوست دکھائی دینے لگا۔بربادی کے نقیب مسیحا بن گئے اور زندگی کی خوش خبری سنانے والے معتوب۔یہی نہیں،ہمارا دین بھی ایک تحریف کا شکار ہوا کہ جو دنیاا ور آ خرت کے لیے خوش خبری اور سلامتی کاپیغام تھا، اس کے ساتھ ایک وحشت منسوب ہوگئی۔ دعوت کے امکانات معدوم ہونے لگے۔ہماری دنیا بر باد ہوئی ۔ آخرت کی کسے خبر؟
پاکستان یہ صلاحیت رکھتا تھا کہ عالمِ اسلام کا فکری قائد ہوتا۔ بیسوی صدی اس کی گواہ ہے۔تفسیر، علمِ حدیث اورفقہ ہی نہیں،کلام اورسماجی علوم میں بھی،اس خطے کے اہلِ علم نے جو کام کیا، اس کی کوئی نظیر مسلم دنیا میں مو جود نہیں۔سر سید، شبلی، اقبال، ابوالکلام، سید مو دودی،امین احسن اصلاحی،تمنا عمادی،ظفر احمد عثمانی،عمر احمد عثمانی،ڈاکٹر حمید اللہ ،ڈاکٹر فضل الرحمٰن، میں ان گنت شخصیات کے نام گنوا سکتا ہوں، جن میں سے کسی ایک کا مثیل شاید ہی معاصر مسلم دنیا میں تلاش کیا جا سکے۔پھر اس سرزمین میںتنوع کو سمیٹنے کی بے پناہ صلاحیت ہے۔تہذیبوں اور مذاہب کے بہت سے رنگوں نے مل کر اس کی تمدنی منظر کشی کی۔اسی تنوع کے سبب،جمہوریت سے ہمیں فطری مناسبت ہے۔جمہوری رویوں سے وہ سماج تشکیل پاتا ہے جو فطری ارتقا کو یقینی بنا تا ہے۔نئے خیالات کی آ ب یاری ہو تی ہے اور نخلِ خیال پر نئے پھول کھلتے ہیں۔یہ سلسلہ اکیسویں صدی میں بھی جاری رہ سکتا تھا۔اقبال، مودودی،فراہی و اصلاحی اور دوسرے اہلِ علم نے جو بنیادیں رکھ دی تھیں، ان پر عظیم الشان عمارتیں کھڑی کی جا سکتی تھیں۔ میں نے اپنی آ نکھوں سے دیواریں اٹھتی دیکھی ہیں۔مگر پھر ایک بھونچال آیا اور چاروں طرف بربادی پھیل گئی۔وہ خطہ جس نے عالمِ اسلام کی فکری راہنمائی کر نا تھی، آج دنیا کو شکوہ ہے کہ اس سرز مین سے اٹھنے والا فساد مشرقِ وسطیٰ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔
استادِ گرامی کی مجلس میں اسی المیے کا ذکر تھا۔بیس پچیس سال پہلے یہ مجلس مگر ایسی نہیں تھی۔اس وقت مو ضوعات کچھ اور تھے۔ شاگرد آتے تو اپنی علمی پیچیدگیوں کے ساتھ۔کوئی تفسیر کا مسئلہ حل کر نا چاہتا۔کسی کو روایات میں تطبیق کی تلاش ہو تی۔کو ئی استنباطِ احکام کی بات کر تا۔کسی کو مستشرقین کی پھیلائی الجھنوں کو سلجھانا ہوتا۔ ہم سرشامِ'جاوید نامہ‘ لے کر بیٹھ جاتے اوراستاد سے اقبال کو سمجھنے کی کوشش کرتے۔ اقبال نے جن رجال کا انتخاب کیا ہے، اس کا سبب کیا ہے؟مسیحیت کی نمائندگی ٹالسٹائی سے کیوں؟ قرۃ العین طاہرہ کی اتنی تعریف ؟یہ نوائے سروش کس کی ہے؟ سوالات اٹھتے اورذہنوں پہ اقبال کی عظمت نقش ہو تی چلی جا تی۔پھر مختلف مکاتبِ فکر کے علما تشریف لاتے۔گفتگو ہوتی۔چائے پی جاتی۔ لوگ اپنے مسلک کے ساتھ آتے اور اُسی کے ساتھ لوٹ جاتے۔کبھی یہ گمان نہ ہوتا کہ کوئی 'غیر‘ آیا تھا۔سب اپنے دکھائی دیتے تھے۔
آج وہی مجلس تھی۔ وہی استاد اور وہی شاگرد۔ موضوعات البتہ بدل چکے تھے۔تشویش، اضطراب اور بے یقینی۔کسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔استادِ گرامی نے مگر دیارِ غیر میں خود کو مایوسی سے دور رکھا۔معلوم ہوا کہ'البیان‘ مکمل ہو نے کو ہے۔قرآن مجید کا منفرد ترجمہ، جو تفسیر کی ضرورت سے بڑی حد تک بے نیاز کر دے گا۔دو جلدیں شائع ہو چکیں۔ان کے صفحات پر، قرآن مجید کے نظم کا حسن و جمال قاری اپنی آ نکھوں سے دیکھتا ہے۔ مجھ جیسے طالب علموں پر پہلی بار یہ رازیہیں کھلا کہ قرآن مجیدکی اس ترتیب میں کیا حکمت ہے۔اس کا توقیفی ہونا، اب محض عقیدہ کا معاملہ نہیں،ایک چلتی پھرتی حقیقت ہے جسے میں اپنی آ نکھوں سے دیکھ سکتا ہوں۔امام حمید الدین فراہی اور مو لا نا امین احسن اصلاحی نے جو کام تفسیر میں کیا، وہ اب ترجمے کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ظاہر ہے کہ اس میں استادِ گرامی کاچالیس سالہ تدبر بھی شامل ہو چکا۔اب یہ ایک مشہود حقیقت ہے کہ قرآن مجید متفرق اقوالِ زریں کا مجموعہ نہیں، ایک مربوط کلام ہے۔بقرہ کے بعد اگرآل ِ عمران ہے تو اس میں حکمت ہے۔ہر آیت دوسری سے ایسے ہی جڑی ہوئی ہے جیسے کڑی سے کڑی۔ایک کڑی نکل جائے تو سلسہ باقی نہیں رہتا۔ہم اپنی آ نکھوں سے دیکھتے ہیںکہ کیسے قرآن مجید نثر ہے نہ نظم۔یہ تو مکالمہ ہے ۔زبان و بیان کا ایک بے مثل شاہکار۔
استادِ گرامی علم کی دنیا کے آ دمی ہیں۔ ان کی منزل کھوٹی نہیں ہوئی لیکن مجھ جیسے طالب علم ان صحبتوں سے محروم ہوگئے جن میں ذہنی الجھنیں دور ہوتیں اورفکر ونظر کے نئے چراغ جلتے تھے۔یہ زمین اہلِ علم سے خالی نہیں ہو گی لیکن سچ یہ ہے کہ قرآن مجید کی یہ شان کہ وہ فرقان ہے اور روایت و فقہ پر اس کی حکومت ہے، شاید ہی کسی مجلس میں اس طرح ظہور کر تی ہو۔رہاقرآن مجیدکا نظم تو اس کے ذوق آ شنابس یہیں ہیں ۔
میں مجلس سے اٹھا تو ایک سوال جو ہونٹوں سے الجھا رہ گیا:پھر ملاقات کب ہوگی؟میں جانتا ہوں کہ اس کا جواب استادِ گرامی کے پاس نہیں تھا۔ شاید ہم میں سے کسی کے پاس نہیں۔جس دن ہم نے اس کا جواب ڈھونڈ لیا،مجھے یقین ہے کہ ہماری قومی زندگی کے تین عشرے اُسی طرح ہوا ہو جا ئیں گے جیسے استاد کی مجلس میں میرے فرقت کے چار سال۔گارشیا ماکوئیزنے تنہائی کے سو سالوں کا قصہ لکھاہے۔ جی چاہتاہے میں اپنی تنہائی کے ان چار سالوں کی کہانی لکھ ڈالوں۔ ایک شہرآشوب۔شاید کبھی!