انقلاب جدید دنیا کے لیے ایک متروک تصور ہے۔قصۂ پارینہ، بھولی بسری داستان۔انسان اب جمہوریت کے عہد میں جی رہا ہے۔پس ماندہ ذہن اور سماج کا معاملہ البتہ دوسرا ہے۔ترقی یافتہ اور پس ماندہ کے مابین ایک صدی کا فاصلہ تو ہمیشہ رہا ہے۔میں نے اپنے ٹی وی پروگرام میں کتاب بینی کے کلچر کو موضوع بنایا تو میرے مہمان، شاعرخوش نوا حارث خلیق نے گلہ کیا: آپ اپنے معاشرے کو سمجھنے کے لیے مغرب کی مثال دیتے ہیں۔اس بات کو نظر انداز کرتے ہیں کہ درمیان میں صدیاںحائل ہیں۔میں سوچتا ہوں: ممکن ہے ابلاغ کی تبدیل شدہ دنیا اس فاصلے کو سمیٹ دے۔
میں اپنے مقدمے سے کچھ دیر کے لیے صرفِ نظر کرتا ہوں۔ انقلاب کے مردہ خیال کوزندہ فرض کر لیتا ہوں۔اب دنیا کا معروف تصورِ انقلاب کیا ہے؟'سٹیٹس کو‘ کاخاتمہ کہ عوامی حقوق کا غاصب ہو تا ہے۔یہ سماج کے وہ روایتی طبقات ہیں ،اقتدار اور وسائل جن کے ہاتھوں میں سمٹ آتے ہیں۔ جاگیر دار،روایتی سیاست دان، سر مایہ دار اور اہلِ مذہب وخانقاہ۔ان کے درمیان اشتراکِ عمل بھی ہو تاہے۔بظاہر وہ ایک دوسرے کے مخالف ہو سکتے ہیں لیکن درپردہ سٹیٹس کو‘ کو مضبوط کرتے ہیں کہ سب کی بقا اس کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے۔اب ذرا 'انقلابی چہروں‘ پہ ایک نظر ڈالیے:تحریک انصاف کے دوسرے بڑے راہنما شا ہ محمود قریشی ہیں۔وہ جاگیر دار ہیں۔خانقاہی نظام کے نمائندہ۔ روایتی سیاستدان ہیں کہ آبائو اجداد سے سیاسی وابستگیاں تبدیل کرتے آئے ہیں۔ فوجی آ مریت کا ساتھ دیا اور پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ میں بھی شامل رہے ۔یہ دیگ کا ایک دانہ ہے۔ہم چاہیں تو ان لوگوں کی ایک طویل فہرست مرتب کر سکتے ہیں جو کسی نہ کسی طرح سٹیٹس کو کے نمائندہ اورتحریکِ انصاف کا حصہ ہیں۔
دوسرے انقلابی طاہر القادری صاحب ہیں۔روایتی مذہب کے نمائندہ۔ نئی نسل کومطمئن کرنے کے لیے اسلوب میں جدت لائے ہیں۔اس کے سوا کچھ نیا نہیں ہے۔تفصیلات جزئیات کے ساتھ سامنے آ چکیں۔ان کو دہرانا تحصیلِ حاصل ہے۔عقیدت اندھی ہوتی ہے اور اگر مذہبی ہو تو سونے پر سہاگہ۔مریدوں کو کچھ کہتے رہیں،مان کر نہیں دیتے۔جہاں دلیل کی سرحد ختم ہو تی ہے وہاں سے عقیدت کی حد شروع ہو تی ہے۔مذہبی استحصال ،استحصال کی قدیم ترین اور مکروہ ترین صورت ہے۔اس دنیا میں لوگ ان نفوس ِ قدسیہ کا نام استعمال کرتے ہوئے ذرا نہیں شرماتے،عام آ دمی کی زبان،جن کا نام لینے سے پہلے سو بار وضو کرتی ہے۔
یہ آج کی انقلابی قوتیں ہیں۔سب سٹیٹس کو کی نمائندہ۔توپھر یہ کس کے خلاف انقلاب لانا چاہتی ہیں؟جاگیر دار بھی یہ اور سرمایہ داربھی۔پیر بھی یہ اور روایتی سیاست دان بھی یہ۔ آخر ان کا ہدف کون ہے؟اگر انقلاب کے قدیم تصور کو زندہ مان لیا جا ئے تو جن طبقات کے خلاف انقلاب آنا چاہیے، وہ سب انقلاب کا علم اٹھائے ہو ئے ہیں۔یہ سعی وجہد اس کے سوا کچھ نہیں کہ ان ہی طبقات کے نئے چہروں کو سامنے لا یا جائے جو پہلے سے برسرِ اقتدار ہیں۔یہ وہ ہیں جن کا خیال ہے کہ ابھی ان کا پیٹ نہیں بھرا۔کیا حقیقت پسندانہ بات ایک 'صاحبِ دانش ‘نے کہی تھی۔جناب محمد علی درانی کوان کا قولِ زریں یاد ہو گا۔جب 'پاسبان‘ جماعت اسلامی سے الگ ہوئی تو درانی صاحب اور ان کے احباب نے سوچا کہ اب کیا کر نا چاہیے۔اس کے لیے مشاورت کی گئی۔مشاورتی اجلاس میں درانی صاحب کے فکری مرشد نے سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ''آپ اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ ظلم کے خلاف جد وجہد کر نے جارہے ہیں۔آپ کونئے ظالم پیدا کرنے ہیں۔وہ جو پرانوں کی جگہ لیں گے‘‘۔آج ہم جس انقلاب کی نوید سن رہے ہیں، اس کی حقیقت بھی یہی ہے۔ یہ اس ملک کی سیاسی تاریخ کا نچوڑ ہے۔جو چھوٹے موٹے فائدے پر اکتفا کرتا ہے ،وہ پرانے ظالموں کا ساتھی بن جا تا ہے۔جو لمبا ہاتھ مارنے کا خواہش مندہے، وہ نئے ظالم پیدا کر نا چاہتا ہے۔
ایک انقلاب البتہ آ چکا۔یہ زوال ِاخلاق ہے۔جو زبان اس وقت بولی جارہی ہے،جو لہجہ اپنا یا گیا ہے،وہ صرف شدت پسندی اور محاذآرائی کو جنم دے رہا ہے۔مہذب سیاست کے لیے یہ سب اجنبی ہے۔دورِجدید میں اگر کوئی اس کاا مام ہے تو وہ عمران خان ہیں۔ باقی سب مقتدی۔ان کی حمایت کے انداز بھی بہت دلچسپ ہیں۔عمران جس کی چاہیں، پگڑی اچھال دیں۔دوسرے جواب دیں تو 'کپتان کی کردار کشی‘۔عمران خان سیاست کو جس طرح تصادم کی طرف لے جارہے ہیں،میرے لیے مشکل سے مشکل تر ہو رہا ہے کہ میں ان کے بارے میں حسنِ ظن کو کسی درجے میں بھی باقی رکھ سکوں۔ طاہر القادری صاحب ایک مذہبی اور روحانی شخصیت ہیں۔'بطریقِ منام‘ امام ابوحنیفہ سے انیس سال استفادہ فرماتے رہے ہیں۔ایک دوسری روایت کے مطابق چودہ سال۔دونوں کے راوی وہ خود ہی ہیں۔وہ اپنے مخالفین کے بارے میں جس زبان اور لب و لہجے میں کلام کرتے ہیں،وہ اخلاق کے عمومی معیار پر بھی پورا نہیں اترتا۔یہ انقلاب تو آ چکا۔ افسوس کہ کسی کو اس کا شعور نہیں ہے۔اخلاقی پستی کی طرف سفر کی رفتارتیز ہو چکی۔واضح ہے کہ اس کے ساتھ کوئی خیر وابستہ نہیں ہے۔
سیاست میں کامیابی محض یہی نہیں ہے کہ کوئی اقتدار تک پہنچ جائے۔ کامیابی کی ایک صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ آپ سیاسی کلچر پر اپنے نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ہم آج مولانا مودودی، ممتاز دولتانہ، نواب زادہ نصراللہ خان کو یاد کرتے ہیں۔اِن کے دم سے شائستگی سیاسی کلچر کا حصہ بنی۔ہم نے جا نا کہ مہذب لوگ کیسے اختلاف کرتے ہیں۔ان کے ہاں بھی شدتِ بیان ہو تی تھی لیکن اس کے اظہار سے ان کی شخصیت جھلکتی تھی۔ سید نا علی ؓ نے فرما یا تھا:کلام کرو تاکہ پہچانے جاؤ۔یہ لوگ اپنی گفتگو سے پہچا نے جاتے تھے اور آج کے سیاست دان بھی اسی سے پہچانے جا رہے ہیں۔اس سیاسی کلچر کی ابتدا بھٹو صاحب نے کی۔لگتا ہے عمران خان انتہا کردیں گے۔ ورنہ قادری صاحب تو کرہی رہے ہیں۔ اب مقابلہ ان دونوں میںہے۔ دیکھیے میدان کس کے سر رہتا ہے۔
انتخابی نظام میں اصلاح کے پرامن امکانات پوری طرح مو جود ہیں۔پارلیمنٹ میں موجود سب جماعتیں اس کے لیے آ مادہ ہیں۔ وزیر اعظم سپیکر کو خط لکھ چکے اور مشاورت کا عمل شروع ہو چکا۔قوم اور سماج کو کسی عذاب اور خلفشار میں مبتلا کیے بغیر بھی یہ کام ہو سکتا ہے۔میں نہیں جا ن سکا کہ جس کام کے لیے حکومت آ مادہ ہے،اس کے لیے جلسے جلوسوں کا سہاراکیوں لیا جا ئے۔یہ ایسے ہی ہے کہ ایک گولی سے صحت کا امکان موجود ہے لیکن 'مریض‘ بضد ہے کہ آپریشن کیا جائے۔ عمران خان کے اس طرزِ عمل پر تنقید کا مطلب حکومت کی حمایت نہیں۔تنقید اس اسلوب ِ سیاست پر ہے جو فساد کا باعث بن رہا ہے۔نظام اور حکومت دونوں پر تنقیدہو نی چاہیے۔اگر اپوزیشن یہ کام نہیں کرتی تو یہ بد دیانتی ہو گی۔میر اکہنا صرف یہ ہے کہ اس کے لیے انقلاب جیسے بے معنی نعروں کے بجائے،اس جمہوری عمل کو توا نا بنا نا چاہیے جوسماج کو کسی فساد میں مبتلا کیے بغیر تبدیلی کا راستہ ہموار کر تا ہے۔ مکرر عرض ہے کہ انقلاب ایک متروک تصور ہے۔اگر اسے زندہ فرض کر لیا جائے توبھی یہ ان طبقات کے خلاف آنا چاہیے جن کے نمائندے انقلاب کا پرچم تھا مے ہو ئے ہیں۔انقلاب کے نتیجے میں اگر مذہبی پیشوائیت اور جاگیرداری کا پرا نا نظام قائم رہے تو یہ انقلاب نہیں، نئے ظالم پیدا کر نا ہے۔