مو جودہ حکومت کے خدوخال اگرچہ سیاسی ہیں لیکن اُس کا طرزِ عمل اس کی تصدیق نہیں کرتا۔ آج حکومت کا سامنا سیاست دانوں سے نہیں، احتجاج پسندوں (agitators) سے ہے۔ یہ لوگ سیاسی اخلاقیات پر یقین نہیں رکھتے۔ طاہرالقادری صاحب اصلاً سیاست دان نہیں۔ ان کی خود پسند طبیعت ہے جو اظہارِ ذات کے لیے کوئی کام کر سکتی ہے۔ ان دنوں سیاست ان کی اس خواہش کے لیے میدانِ سعی و جہد ہے، ماضی میں مذہب تھا۔ عمران خان بھی مزاجاً سیاست دان نہیں۔ ایک خود پسند‘ جس کا خیال ہے کہ انسان اس کے ساتھ محبت کے لیے پیدا کیے گئے ہیں، وہ کسی کے ساتھ محبت کا پابند نہیں۔ ایسی شخصیت یہ چاہتی ہے کہ فیصلے اس کی مرضی سے ہو نے چاہئیں‘ یہ بات غیر اہم ہے کہ کس اصول کے تحت۔ ایک سال کے بعد حکومت کی تبدیلی کا مطالبہ کسی آئینی یا اخلاقی ضابطے کے مطابق نہیں، اسی افتادِ طبع کے تحت کیا جا رہا ہے۔ اس مقدمے کو سیاسی طور پر مخاطب بنایا جاتا تو میرا خیال ہے کہ حکومت اس اضطراب کا شکار نہ ہوتی جس میں وہ آج مبتلا ہے۔ چند کام جو ایک سیاسی حکومت کو کرنے چاہئیں، وہ نہیں کیے گئے۔ میں یہاں چند باتوں کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں۔
1۔اس وقت حکومت اور عوام کے مابین کوئی موثر رابطہ موجود نہیں۔ایک سال گزر چکا اور وزیر اعظم صاحب نے ایک بار بھی قوم سے باقاعدہ اور تفصیلی خطاب نہیں کیا۔ حکومت کیا کر رہی ہے،اس بارے میں عوام کو اعتماد میں لینے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔یہ لازم تھا کہ وزیر اعظم اپنا منصب سنبھالنے کے بعد قوم سے خطاب کرتے، ملکی مسائل کی صحیح تصویر عوام کے سامنے رکھتے اور پھر بتاتے کہ ان پر قابو پانے کے لیے حکومتی حکمتِ عملی کیا ہے۔ وہ قوم کو بتاتے کہ کون سے نتائج ہیں جو ایک سال بعد سامنے آئیں گے، کون سے دو سال بعد اور پانچ سال بعد کیا ہونے والا ہے۔ ایک سال بعد وہ پھر قوم کو مخاطب کرتے کہ ان کی پیش رفت کیا ہے۔ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ وزیر اعظم صاحب نے عوام سے کوئی براہ راست رابطہ نہیں کیا۔ پارلیمنٹ‘ کہ جس ادارے کی حاکمیت کا وہ اعلان کرتے ہیں، ان کی زیارت کے لیے ترستی رہتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آج حکومت جس ادارے کو مسائل کے حل کا اصل فورم قرار دے رہی ہے، اس کی نظر میں اس اعزاز کا کتنا مستحق رہا؟
2۔ حکومت کی کوئی میڈیا پالیسی بھی اب تک سامنے نہیں آ سکی۔ یہ پالیسی دفتر کی فائل میں نہیں، اخبارات کے صفحات اور ٹی وی کی سکرین پر دکھائی دینی چاہیے۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ تنہا شیخ رشید حکومت سے زیادہ وقت لے لیتے ہیں۔ حکومت کا کوئی مقدمہ (initiative) زیرِ بحث نہیں۔ وہ صرف احتجاج پسندوں کے قائم مقدمات کا جواب دیتی دکھائی دیتی ہے۔ اگر حکومت کا طرزِ عمل سیاسی ہوتا تو اس کا رو یہ برعکس ہوتا۔ میڈیا کے معاملات جن حکام کے ہاتھ میں ہیں‘ ہم جانتے ہیں کہ ان کی تربیت انتظامی ہوتی ہے، سیاسی نہیں۔ سیاسی حکومتوں میں پی آئی او، سیکرٹری اطلاعات، پریس سیکرٹری، اہلِ صحافت اور قلم کاروں سے براہ راست رابطہ رکھتے تھے۔ اب ایسا نہیں ہے۔ یہاں بھی معاملہ معکوس ہے۔ اہلِ صحافت رابطہ کرتے ہیں اور یہ ان کی مرضی پر ہے کہ جواب دیں یا نہ دیں۔ ٹی وی اینکر جتن کرتے ہیں کہ کوئی قادرالکلام شخص حکومت کی نمائندگی کے لیے میسر آ جائے اور بالعموم ناکام رہتے ہیں۔ صدیق الفاروق صاحب نے خود کو اس کے لیے وقف کر رکھا ہے اور ان پر اب تک حکومت کا کوئی دروازہ نہیں کھل سکا۔ وہ بطور خدائی خدمت گار یہ ذمہ داری سرانجام دیتے ہیں۔ میڈ یا کو تو چوبیس گھنٹے اپنا پیٹ بھرنا ہے۔ اگر حکومت کے پاس کہنے کو کچھ نہیں یا میڈیا کو مصروف رکھنے (engage) کی کوئی حکمتِ عملی نہیں تو اس کے لیے احتجاج پسندوں سے بہتر کون ہو سکتا ہے جو ٹی وی سکرین کو اپنی پیش گوئیوں سے متحرک رکھنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔
3۔ مسلم لیگ بطور سیاسی جماعت کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ یہ خیر نواز شریف صاحب کا دیرینہ مسئلہ ہے۔ انہوں نے ن لیگ کو ایک متحرک سیاسی جماعت بنانے کی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ اس کی زیادہ سے زیادہ افادیت اقتدار کے لیے ایک سیڑھی کی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج عوامی سطح پر حکومت کا مقدمہ پیش کر نے کے لیے کوئی موجود نہیں۔ آج اگر ن لیگ سیاسی میدان میں موجود ہوتی تو تحریک انصاف کو وہ جگہ (space) نہ مل سکتی جس سے وہ فائدہ اٹھا رہی ہے۔ کوئی جلسہ، کوئی جلوس کوئی عوامی عدالت، ن لیگ کہیں دکھائی دینی چاہیے تھی۔ اگر حکومت کی سوچ سیاسی ہوتی تو 14 اگست کو مینار پاکستان یا دوسرے شہروں میں بڑے اجتماعات منعقد ہو رہے ہوتے۔ کسی اپوزیشن کی اس سے بڑی کامیابی کیا ہو سکتی ہے کہ میڈیا کے پاس اس کی سرگرمی کے علاوہ، عوام کو دکھانے کے لیے کچھ ہے ہی نہیں۔ کیا مضحکہ خیز صورتِ حال ہے کہ ایک عوامی لہر کے مقابلے کے لیے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر حکمتِ عملی طے ہو رہی ہے اور وہ بھی انتظامی۔
4۔ حکومتی وزرا نے اپوزیشن کے جواب میں جو طرزِ عمل اختیارکیا، وہ بھی بچگانہ تھا۔ یہ طرزِ عمل کیا تھا؟ نعرہ بازی اور استدلال سے محرومی۔ یہ موقع تھا کہ عوام کے سامنے ایک تقابل آتا کہ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو سنجیدگی سے ملک و قوم کی خدمت کرنا چاہتے ہیں اور دوسری طرف احتجاج پسند۔ حکومت اس فرق کو نمایاں نہیں کر سکی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ فرق کہیں موجود بھی تھا؟
5۔ قوم اس وقت آپریشن ضربِ عضب کے دور سے گزر رہی ہے۔ یہ ایک مضبوط مقدمہ ہے کہ کوئی قوم جب اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہو تو اس وقت حکومت یا موجود نظام کو ہدف بنانا قوم اور ملک کے مفاد میں نہیں۔ ضیاالحق صاحب جیسے آ مر نے افغانستان کی جنگ کو بہت کامیابی کے ساتھ اپنے شخصی اقتدار کے لیے استعمال کیا۔ یہ عجیب بات ہے کہ آج ملک کی کئی اہم جماعتیں حکومت کی ہم نوا ہیں۔ دوسری سب سے بڑی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی، سب سے بڑی مذہبی جماعت جمعیت علمائے اسلام، اے این پی اور ایم کیو ایم اس معاملے میں حکومت کے ساتھ ہیں۔ حکومت اتنی بڑی تائید کو اپنے حق میں استعمال نہیں کر سکی۔ ایک حکومت کے غیرسیاسی ہونے کی اس سے بڑی دلیل کیا ہو سکتی ہے؟
6۔ حکومت کو یہ کوشش بھی کرنی چاہیے تھی کہ عمران خان اور طاہرالقادری صاحب کے مابین قربت نہ ہوتی۔ مجھے ایسی کسی کوشش کا ابھی سراغ نہیں ملا۔
7۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات ایک الگ مقدمہ ہے۔ اس باب میں بھی بہت کچھ کیا جا سکتا تھا‘ جو سیاسی ہوتا لیکن مجھے لگتا ہے کہ فریق ثانی کہیں زیادہ سیاسی ثابت ہوا‘ جس نے اپنے حق میں ایک بڑی عوامی تحریک منظم کر لی۔ حکومت ایسا نہیں کر سکی اور مفاہمت پر مجبور ہوئی۔
میرے نزدیک احتجاج پسندوں کا مقدمہ اور طرزِ عمل، دونوں اخلاقی اور سیاسی بنیادوں سے محروم ہیں۔ یہ استحکام کی طرف لوٹتے معاشرے کو ایک نئے اضطراب میں مبتلا کرنے کے مترادف ہے۔ عمران خان نے چند دن پہلے فرمایا: طالبان سے مذاکرات کرنے چاہئیں۔ مجھے حیرت ہے کہ اس مرحلے پر کوئی سنجیدہ آ دمی یہ مشورہ بھی دے سکتا ہے‘ لیکن اس کا کیا علاج کہ اس کے مدمقابل کوئی مقدمہ ہی نہیں ہے۔ واقعہ یہ کہ اقتدار کی نفسیات مختلف ہوتی ہے۔ آ دمی خیال کرتا ہے کہ مجھ سے بڑھ کر زیرک کو ن ہو سکتا ہے جو ان ایوانوں تک پہنچ گیا، مشورہ دینے والے اگر اتنے عقل مند ہوتے تو یہاں بیٹھے ہوتے۔ یہ زعم جب اقتدار کے ایوانوں میں سرایت کر جائے تو پھر خیر کی صرف دعا کی جا سکتی ہے۔