سیاسی ہیجان کی اس فضا میں جماعت اسلامی کا نقطہ نظر سنجیدہ، متین اور متوازن ہے۔اگر یہ اس متانت اور سنجیدگی کی بازیافت کا نقطہ آغاز بن سکے، برسوں جماعت جس کے لیے ممتاز رہی ہے تو فی نفسہ یہ ملکی سیاست کے لیے نیک شگون ہے۔
ملکی سیاست کا چلن آج کیا ہے؟ صفِ اول کے رہنماؤں کے ارشادات ملاحظہ کیجیے: ''اگر پولیس والے کسی کے گھر گھسیں تولوگ جتھے بنا کر پولیس والوں کے گھروں میں گھس جائیں‘‘۔ ''مجھے نظر بندکیا گیا تو پورا پاکستان بند کر دیا جائے گا‘‘۔ ''پولیس والوں کو اپنے ہاتھوں سے پھانسی دوں گا‘‘۔ معاملہ افراد کا نہیں، اس اسلوبِ سیاست کا ہے جسے فروغ دیا جارہا ہے۔ معلوم ہو تا ہے جیسے ملک کی سیاسی جماعتیں اختلاف نہیں کر رہیں، دو دشمن فوجیں آمنے سامنے ہیں۔ مہذب دنیا میں اہلِ سیاست اس اسلوب میں کلام نہیں کرتے۔ بند گلی میں راستہ کھولنا ہی سیاست ہے۔ سب کو ہانک کر بند گلی میں لے جانے کو کوئی اور نام دیا جا سکتا ہے، اسے سیاست نہیں کہا جا سکتا۔ میں ایسے لوگوں کو احتجاج پسند کہتا ہوں۔ کوئی چاہے تو ایسے کرداروں کو کوئی اور نام دے سکتا ہے لیکن انہیںسیاست دان کہنے کے لیے بہر حال دلیل کی ضرورت ہوگی۔
جماعت اسلامی اپنی تاریخ میں بدترین حالات سے گزری۔اکتوبر 1963ء میں اس کے پرامن اجتماع پر فائرنگ ہوئی اور ایک کارکن کی جان چلی گئی۔ اللہ بخش کے جسدِ خاکی پر چادر ڈال دی گئی اورمو لانا مو دودی کا خطاب جاری رہا۔ اس کے بعد شہر میں کوئی توڑ پھوڑ نہیں ہوئی۔ لاہور جماعت کا مدعو بن چکا تھا۔ اس کے بعد جماعت نے بنیادی انسانی حقوق اور عوام کو براہ راست ووٹ کا حق دینے کے لیے ایک مہم چلائی۔ ڈھاکہ میں اسمبلی کا اجلاس ہوا تو اس موقع پر عوامی دستخطوں پر مشتمل نو میل طویل محضر نامہ پیش کیا گیا ۔ جماعت اسلامی کو خلاف ِ قانون قرار دیا گیا تو عدالتوں کے دروازے پر دستک دی گئی۔ سپریم کورٹ نے جماعت کو بحال کیا تو رہنما گرفتار کر لیے گئے۔ عزیمت کی داستان جاری رہی لیکن کوئی ایک واقعہ ایسا پیش نہیں آیا جب قانون کو ہاتھ میں لیا گیا ہو۔ اسی کا نام سیاست ہے ، اس لیے آج جب جماعت اسلامی احتجاج پسندی کے مقابلے میں اعتدال اورسیاسی جد وجہد کی بات کرتی ہے تو میں اسے اسی روایت کی یازیافت کہتا ہوں۔
جماعت اسلامی کی قیادت نے جو فرق واضح کیا ہے، اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مسئلہ نوازشریف کی حکومت کا نہیں، نظام کا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہاں فیصلے کسی قانون اور ضابطے کے تحت ہوں گے یا قوت کے ساتھ؟اگر کوئی فرد یا جماعت ایک گروہ کو سڑکوں پر جمع کر نے کی صلاحیت رکھتا ہے تو کیا اسے یہ حق دے دینا چاہیے کہ وہ نظام کو خطرے میں ڈال دے؟دلیل یہ دی جا تی ہے کہ احتجاج جمہوری اور آئینی حق ہے۔ میں بھی یہی کہتا ہوں ، لیکن دنیا میںکوئی حق غیر مشروط نہیں ہوتا۔ عبادت میرا بنیادی اور آئینی حق ہے لیکن اگر میں بیچ چوراہا جائے نماز بچھا لوں گا تو یہ حق کا سوئے استعمال ہوگا۔ اگر گرین بیلٹ پر مسجد بنا ؤں گا تو علمااس کے ناجائز ہو نے کا فتویٰ دیں گے۔ احتجاج ہر کسی کا حق ہے لیکن جس حکومت کو آئین پانچ سال تک اقتدار میں رہنے کا حق دیتا ہے اس کے خلاف ایک سال بعد احتجاج یا نئے انتخابات کا مطالبہ بھی اسی طرح بیچ چوراہا جائے نماز بچھانا ہے۔کہا جا سکتا ہے کہ پانچ سال کا حق بھی غیر مشروط نہیں۔ مجھے اتفاق ہے لیکن اگر کوئی حکومت اس کا حق کھوتی ہے تو اس کی کوئی بنیاد ہو نی چاہیے۔کیا یہ بنیاد میسر ہے؟اس کا فیصلہ عدالت کرے گی، گلیوں اور بازاروں میں، انبوہ نہیں۔ اگر حکومتیں بنانے اور بگاڑنے کا کام اداروں کے بجائے سڑکوں پر ہونے لگے تو دنیا کا کوئی نظام باقی نہیں رہ سکتا۔ اس لیے سیاست جیسا سنجیدہ کام اہلِ سیاست کے ہاتھوں میں رہنا چاہیے، احتجاج پسندوں کے ہاتھ میں نہیں دینا چاہیے۔
جماعت اسلامی نے آج حکومت کی حمایت نہیں کی، نظام اور جمہوریت کی حمایت کی ہے۔اس کا فائدہ اگر مر کز میں ن لیگ کو پہنچے گا تو خیبر پختون خوا میں تحریکِ انصاف کو۔ تحریکِ انصاف جو
مطالبہ کر رہی ہے، اس کو اس نظام کو بر قرار رکھتے ہوئے بھی پورا کیا جا سکتا ہے۔ انتخابی نظام میں اصلاح کی ضرورت سے کس کو انکار ہو سکتا ہے۔ حکومت اس کے لیے آ مادہ ہے اور پارلیمان بھی۔ اس کے لیے سماج کو تہ وبا لا کر نے کی کوئی ضرورت نہیں۔ رہی بات گزشتہ انتخابات کی تو اس کے لیے عدالت سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ عمران خان کہتے ہیں کہ وہاں سے انصاف نہیں ملا۔ سوال یہ ہے کہ اگر کسی کو اس کی مرضی کا انصاف نہ ملے توکیا اسے متبادل راستے تلاش کر نے چاہئیں؟کیا عدلیہ کو مسترد کر دینا چاہیے؟ کیا اس سے کوئی سماج چل سکتا ہے؟جمہوریت میں یہ ضروری نہیں ہو تا کہ ہر بارہرکسی کے ساتھ من پسند انصاف ہو۔ پھر یہ انصاف بھی ایک مو ضوعی معاملہ ہے۔ ایک کے نزدیک انصاف دوسرے کے خیال میں نا انصافی ہو تی ہے۔ دنیا کے معاملات چلانے کے لیے اسی وجہ سے عمرانی معاہدے وجود میں آتے ہیں کہ فصلِ نزاع ہو جائے۔ ظاہر ہے کہ اس سے کوئی ایک فریق متاثر ہو تا ہے لیکن سماج کو پر امن رکھنے کی اس کے سوا کوئی صورت ممکن نہیں۔ جمہوریت بھی سیاسی معاملات میں تنازعات کو طے کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ اس میں خرابیاں بھی ہو تی ہیں لیکن اس کے سوا کوئی اور ایسا طریقہ مو جود نہیں جو سماج اور ریاست کو مستحکم رکھ سکے۔ یہ ایک اجتماعیت کی اتنی بڑی ضرورت ہے کہ اس کے لیے کچھ بھی قربان کیا
جا سکتا ہے۔ جماعت اسلامی کا اس ملک کی تاریخ میں ایک مثبت کردار یہ بھی ہے کہ اس نے انقلابی ہونے کا نعرہ لگا یا لیکن اپنے دستور میں یہ لکھ دیا کہ اس انقلاب کے لیے ملکی آئین سے ماورا کوئی حکمتِ عملی اختیار کی جائے گی نہ کوئی خفیہ سرگرمی۔ قاضی صاحب اور ما بعدکے ادوار میں اس اصول کی پوری طرح پاس داری دکھائی نہیں دیتی لیکن اس سے پہلے جماعت کی تاریخ یہی ہے۔ اس لیے اگر آج جماعت نے ایک ایک ایسا فیصلہ کیا ہے جو فساد کی بجائے ارتقا کی بات کرتا ہے تو میں اسے دورِ اول کی بازیافت ہی کہوں گا۔
آج سیاسی جماعتوں کو ایک بات پر اتفاق کر نا چاہیے کہ ملک میں جو تبدیلی آئے گی، وہ آئینی طریقے ہی سے آئے گی۔ اس کے لیے لازم ہے کہ آئینی ادارے مستحکم ہوں ، پارلیمان بحث و مباحثے کا فورم بنے ، عدلیہ آزاد ہو۔گزشتہ آئینی ترمیم میں جج صاحبان کی تعیناتی کا جو نظام وضع کیا گیا ، اس کے بعد حکومتی مداخلت کا امکان ختم ہو گیا ہے۔میڈیا توخیر پہلے ہی آزاد ہے ، اگر ہم انہیں کام کر نے دیں اور اس کی خرابیوں کو مشاورت سے دور کرتے رہیں تواسی میں سب کا بھلا ہے۔ احتجاج کی سیاست ایک طرف ملک میں عدم استحکام پیدا کرے گی جس کے اپنے سماجی اور معاشی نتائج ہیں اور دوسری طرف غیر جمہوری قوتوں کے لیے بھی راہ ہموار ہوگی۔ جماعت اسلامی نے ایک سنجیدہ راستہ اختیار کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اسے ایک سیاسی کلچر بنا نے کی ضرورت ہے۔ ہیجان میں فرد ہو یا اجتماع، نفسیاتی توازن قائم نہیں رہتا۔ آج ہمیں سب سے زیادہ شاید اسی بات کی ضرورت ہے، توازنِ فکر و عمل۔