تشدد کی آنچ سے پنجاب جھلس گیا ہے۔اس آگ کو بھڑکا نے میں طاہر القادری صاحب کی شعلہ گفتاری نے جو کردار ادا کیا، وہ مذہبی سیاست کا ایک الم ناک باب ہے۔انہوں نے ایک بار ثابت کیا کہ سیاست کے لیے مذہب کا استعمال کیسے خوفناک نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔عملاً انہوں نے وہی کچھ کیا جو طالبان نے کیا۔دونوں نے ریاست کے وجود کا انکار کیا ہے۔
طاہر القادری صاحب کی کتابِ زندگی کا ہرورق، تشکیک کی سیاہی سے لکھا گیا ہے۔پیش گوئیوں میں لپٹی اپنی جنم کہانی سے لے کر، ماضی قریب میں، امام ابو حنیفہؒ سے'بطریقِ منام‘ استفادے تک،انہوں نے 'بزبانِ خود‘جو کچھ فر ما یا ہے،اسے صوفیانہ روایت کے تناظر میں رکھ کر دیکھا جا سکتا تھا کہ یہ روایت اس سے زیادہ ناقابلِ یقین داستانوں سے مملو ہے ،اگر وہ سیاسی زندگی کا مو جود ہ پُرتشدد باب رقم نہ کرتے۔اب انہوں نے جو کچھ کیا،یہ تو اس روایت کے لیے بھی اجنبی ہے۔کوئی صوفی اس طرح اقتدار کی حریفانہ کشمکش میں فریق نہیں بنا۔اور پھر تشدد کا تو صوفیانہ روایت میں کبھی گزر نہیں ہوا۔صوفیا میں جہاد کی روایت ملتی ہے لیکن اس کا ہدف کبھی مسلمان سماج یا اس کے حکمران نہیں رہے۔ میرے نزدیک قادری صاحب کا معاملہ سیدھا سادہ معاشیاتِ مذہب (Economics of Religion) کا مقدمہ ہے۔
مذہب انسان کی فطری ضرورت ہے۔اسی ضرورت نے مذہبی طبقے کو جنم دیا۔یہ معاملہ جب تک پیغمبروں اور نیک لوگوں کے ہاتھ میں رہا،یہ ایک رضاکارانہ سرگرمی تھا۔انہوں نے سماج سے کبھی معاوضہ طلب نہیں کیا۔قرآن مجید نے رسالت مآب ﷺ کے الفاظ میں یہ کہلوایا کہ آپ فرما دیجیے، میںتم سے کسی اجر کا طالب نہیں،یہ تو حقِ قرابت ہے جو میں ادا کر رہا ہوں(شوریٰ:23)۔ انبیاؑ کی اس سنت پر عمل کرتے ہوئے، نیک لوگ جب دین کی دعوت دیتے ہیں تو اپنی ذات کے لیے کوئی مطالبہ نہیں کرتے۔ تاہم سماج سے دین کا یہ مطالبہ ہوتا ہے کہ وہ دین کی نصرت کرے۔ دعوتِ دین کے لیے اگر کوئی ادارہ بنتا ہے تو اس کی معاونت کرے۔اسی اصول پر مختلف معاشروں میں مذہبی ادارے اور جماعتیں وجود میں آتی رہی ہیں۔مذہب کے ساتھ چو نکہ عقیدت وابستہ ہو جاتی ہے، اس لیے لوگ اس مقصد کے لیے بے پناہ مالی ایثار کرتے ہیں۔ایک مطالعہ بتا تا ہے کہ امریکہ میں، صرف 1995ء میں لوگوں نے خیرات کے نام پر 64 بلین ڈالر دیے۔ان میں سے پچاس فی صد، چرچ اوراس کی سرگرمیوں کے لیے تھے۔
جہاں اتنا پیسہ ہوتا ہے، وہاں اخلاقی مسائل جنم لیتے ہیں۔ چرچ کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ان گنت اخلاقی اور مالی سکینڈلز نے اہلِ مذہب کو گھیر لیا۔یہی نہیں، اہلِ مذہب امیر ہوئے تو انہوں نے اقتدار سے بھی اپنا حصہ وصول کر نا چاہا۔ایک وقت آیا کہ انہوں نے بادشاہ کو بھی اپناتابع ِ فرمان بنا لیا۔یورپ کی تاریخ پر لکھی کی گئی ان گنت کتابیں،اہلِ کلیسا کے سیاسی اثرورسوخ کی داستانیں بیان کر تی ہیں۔اہلِ مذہب کے ان مظالم کے ردِ عمل میں اصلاحِ مذہب کی تحریک اٹھی۔مذہب کے خلاف شدید ردِ عمل ہوا اور اسے کلیسا کی چار دیواری میں مقید ہو نا پڑا۔اس سے یہ تو ہوا کہ مذہب سیاسی زندگی سے نکل گیا، لیکن لو گوں کی زندگی سے نہیں نکل سکا کیونکہ یہ ان کی فطری ضرورت تھا۔کلیسا نے سیکولرازم کوقبول کرتے ہوئے، اپنے کردار پر نظر ثانی کی۔اس سے مذہبی طبقہ باقی رہا۔ آج سیاست کی حریفانہ کشمکش میں و ہ فریق نہیں، لیکن سیاست پر بھی اس کے اثرات ہیں۔اس نے اپنی سماجی اورمعاشی بنیادیں مستحکم کر لیں۔آج مغرب میں چرچ کا شمار امیر ترین اداروں میں ہوتا ہے۔ویٹیکان کا اپنا بینک ہے اورمختلف اداروں میں اس کی سرمایہ کاری ہے۔اس کا شاخسانہ مالی سکینڈل ہیں۔مو جودہ پوپ فرانسس نے چرچ کی مالی اور اخلاقی اصلاح کو اپنی ترجیح بنا یا ہے۔یہ ان کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔
مذہب کی فطری ضرورت کے تحت، مغرب میں جو مذہبی طبقہ پیدا ہوا،اس کے مطالبات نے مذہبی مطالبات پر غلبہ پا لیا۔اب اس طبقے کا معاشی مفاد تھا جو مذہب سے وابستہ تھا۔اسی سے مذہبی استحصال نے جنم لیا۔ ماضی میں پادری پیسے لے کر نجات کے پر وانے بانٹتا اور لوگوں کے مذہبی جذبات کا استحصال کر تا تھا۔ مارٹن لوتھر نے جب بندے اور خدا کے مابین چرچ کے واسطے کو چیلنج کیاتو اہلِ کلیسا کے لیے استحصال کر نا مشکل ہو گیا۔ تاہم اس نے اپنا وجود بر قرار رکھا اور اپنے معاشی وسائل کا تحفظ کیا۔آدم سمتھ نے اپنی معرکہ آرا کتاب ''دولتِ اقوام‘‘ میں اسے بھی مو ضوع بنا یا ہے۔اس کا کہنا تھا کہ شخصی مفاداہلِ مذہب کے لیے اسی طرح بطور محرک کام کر تا ہے جس طرح کسی غیر مذہبی طبقے میں۔بعد کے ادوار میں جب لوگوں نے کلیساپر تحقیق کی توانہوں نے دو ماڈلز کی بنیاد پر اپنے نتائجِ فکر بیان کیے۔ایک چرچ بطور کلب اور دوسرا چرچ بطور ایک کاروباری ادارہ۔جن لوگوں نے دوسرا ماڈل اختیار کیا،ان کا کہنا ہے کہ جو چرچ اس ماڈل کو اپناتا ہے،اس کی حکمتِ عملی بھی کاروباری ہوتی ہے۔ایک نتیجہِ فکر یہ ہے کہ انیسویں صدی میں، امریکہ میں مسیحیت میں دو فرقے Methodist اور Baptist زیادہ پھیلے اور اس کی وجہ ان کی بہتر مارکیٹنگ تھی۔
پاکستان میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے ۔ہم ابھی ان مراحل سے گزر رہے ہیں، مغرب جن سے گزر چکا۔ یہاں فطری ضرورت کے تحت ایک مذہبی ادارہ وجود میں آتا ہے۔ادارہ بنانے والا پہلے ہی،اس پرواضح ہوتا ہے کہ اس نے کیسے مذہبی جذبات کا استحصال کرتے ہوئے، اپنے معاشی اور سیاسی اختیار کو بڑھا نا ہے۔پہلے وہ اپنی روحانی ساکھ بناتا ہے۔جب یہ مستحکم ہوتی ہے توپھر مذہبی سرگرمیوں کے لیے وسائل جمع کر تا ہے۔جب یہ ہوجا تا ہے تو پھر اپنا معیارِ زندگی بہتر کر تا ہے۔اعیانی اور بر سرِ اقتدار گروہ میں اپنی مذہبیت اور وسائل کے سہارے اپنے لیے جگہ پیدا کر تا۔اسے عوام پر اپنے اثرورسوخ بڑھا نے کے لیے استعمال کرتا ہے۔پہلے وہ ان سے صرف پیسے لیتا ہے۔ پھر یہ کہتا ہے کہ اقتدار تک پہنچا نے کے
لیے اسے ووٹ بھی دو کہ یہ مذہب کا تقا ضا ہے۔صاحبِ اقتدار طبقہ جب حصہ نہ دے تومذہبی علم ِکلام کے زور پر خود کو حضرتِ حسین ؓ کا جانشین اور اہلِ اقتدار کو یزید کا جانشین ثابت کرتا ہے۔اکثر حکمران طبقہ مفاہمت کرتا اور حصہ دے دیتا ہے۔ نہ دے تو یہ مذہبی فرد یا گروہ لوگوں کو تشدد پر اکساتا اور ان سے خون طلب کرتا ہے کہ اسلام اب قربانی چاہتا ہے۔
پاکستان میں ایک مدت سے یہی ہوتا آرہا ہے۔مذہبی جماعتیں اسی طریقے پر حکمران طبقے سے اپنا حصہ وصول کرتی ہیں۔ سجادہ نشین اسی کے سہارے شریکِ اقتدار ہوتے ہیں۔ طاہرالقادری صاحب اس فہرست میں نیا اضافہ ہیں۔ان کی توقعات جلیل ہیں۔وہ چھوٹی موٹی وزارت پر اکتفا کے لیے آ مادہ نہیں۔ایسا ہوتا تو مجھے کوئی شک نہیں کہ آج وہ نوازشریف صاحب کی کابینہ کا حصہ ہوتے۔ کابینہ میں بٹھانا، کندھوں پہ سوار کرنے سے کہیں آسان ہے۔وہ زیادہ چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اب ان کے لیے سازگار ترین وقت ہے۔ایسے پُرجوش لوگ خارجی قوتوں کا بطور خاص ہدف ہوتے ہیں جو ان کی بے لگام خواہشات کے گھوڑے کوپاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ طالبان کے باب میں ہم دیکھ چکے۔میں طاہر القادری صاحب کے اعوان و انصار پر نگاہ ڈالتا ہوں توتشدد کی یہ ڈور کہیں اور سے ہلتی دکھائی دیتی ہے۔ملکی ایجنسیاں یقینا اس پہلو سے بھی معاملات کو دیکھ رہی ہوں گی۔طاہر القادری صاحب اپنے مقصد میں کامیاب ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔طالبان بھی نہیں ہوئے۔انسانی خواہش کا بے لگام گھوڑا لیکن دوڑتا رہے گا۔عوام اگرمعاشیاتِ مذہب کو سمجھ جائیں تو اس گھڑ سواری کو روکا جا سکتا ہے۔