بحران بصیرت کا امتحان ہوتا ہے اور دیانت کا بھی۔ چوبیس گھنٹے ٹی وی کی بدلتی سکرین اور اخبارات کے الٹتے صفحات گواہ رہیں گے کہ اس ملک کے اہلِ دانش اور اہلِ صحافت اس امتحان میں کتنے کامیاب رہے۔
خلیل ملک میرے دوست تھے۔ اہلِ صحافت میں، مَیں نے کم لوگ دیکھے ہیں جو سیاسی تجزیے میں ان جیسی گہرائی کا مظاہرہ کرتے ہوں۔ قلم کے بھی دھنی تھے۔ 12 اکتوبر 1999ء کے پس منظر میں ملک کے ایک بڑے اخبار کے مدیر کا ذکر کیا اور مجھ سے کہا: اگر 13 اکتوبرکو اخبارکے صفحہ اول پر وہ اداریہ لکھتے کہ ہمیں یہ تبدیلی قبول نہیں تو اس قوم کی تقدیر کچھ اور ہوتی۔ اسی جرأت کا مظاہرہ اگر 6 جولائی 1977ء کو کیا جاتا تو 12 اکتوبر ہماری تاریخ کا ایک غیر اہم دن ہوتا۔ میں دس دن سے ٹی وی دیکھ رہا ہوں اور اخبارات پڑھ رہا ہوں۔ ہر روز خلیل ملک کو یاد کرتا ہوں۔
ہفتے عشرے سے پاکستان ایک بحرانی کیفیت میں مبتلا ہے۔ بے یقینی اور اضطراب نے سماج کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ دو گروہ سڑکوں پر ایک ہیں۔ ایک کا کہنا یہ ہے کہ ملک کا نظام ناکارہ اور بدعنوان ہے جسے انتخابی عمل سے نہیں بدلا جا سکتا، اس کے لیے بے رحم احتساب ضروری ہے۔ پھر میں ہی یہ فیصلہ کروں گا کہ کب اور کیسے انتخابات ہونے ہیں۔ وہ اس سوال کا جواب نہیں دیتے کہ انہیں یہ حق کس نے دیا ہے۔ بزعمِ خویش وہ کروڑوں عوام کے تنہا نمائندہ ہیں۔ دوسرے صاحب کا ابتدائی مقدمہ یہ تھا کہ موجودہ حکومت اور اسمبلیاں دھاندلی کی پیداوار ہیں، اس لیے ان کی کوئی قانونی اور اخلاقی حیثیت نہیں۔ انہیں ختم ہونا چاہیے۔ اس میں صرف اس حکومت اور ان انتخابی نشستوں کو استثنا حاصل ہے‘ جہاں سے تحریکِ انصاف کامیاب ہوئی۔ دس دن میں یہ مقدمہ کئی ارتقائی مراحل سے گزرا۔ تادمِ تحریر اس کا جو ایڈیشن ہمارے سامنے ہے، اس کے مطابق اس ملک کے تمام مسائل کی جڑ ایک شخص نواز شریف ہے۔ یہ ایسا بے پناہ آدمی ہے جو عدالتوں کو خرید لیتا ہے۔ پورے الیکشن کمشن کا سودا کر لیتا ہے۔ سیاست دان بشمول قائد حزبِ اختلاف اس کے کارندے ہیں۔ انتظامیہ اس کے گھر کی لونڈی ہے۔ اس نے اپنے مخالفین کے لیے تمام دروازے بند کر دیے ہیں۔ قانون اور آئین کے تحت تو اس کے ساتھ معاملہ کرنا ممکن نہیں۔ اس سے نجات کے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا، اس لیے ہم ایک دھرنا دیں گے اور جب تک یہ استعفیٰ نہیں دیتا، ہم اسلام آباد ہی میں بیٹھیں گے۔ اگر کسی حکومتی ادارے نے ان کے راستے میں آنے کی کوشش کی تو وہ انہیں نہیں چھوڑیں گے۔ مر کر بھی ان کا پیچھا کریں گے۔ ان سے بھی یہ سوال نہیں پوچھا جا سکا کہ ان کو یہ حق کس نے دیا ہے؟ بین السطور وہ اس کا یہ جواب دے چکے ہیں کہ وہ کروڑوں لوگوں کی تنہا نمائندگی کر رہے ہیں۔
یہ دونوں مقدمات اتنے دو ٹوک اور واضح ہیں کہ کسی تشریح اور کسی شارح کے محتاج نہیں۔ ان میں کہیں اگر ہے اور نہ مگر۔ موقف اور حکمتِ عملی، دونوں ابہام سے پاک ہیں۔ اس موقف کے ساتھ میں دو ایسی زمینی حقیقتوں کو شامل کرتا ہوں‘ جن پر اجماع ہے۔ ایک یہ کہ آئین میں حکومت کی تبدیلی کا طریقہ کار موجود ہے۔ وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے، لیکن اگر وہ انکار کریں تو انہیں بزور مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ یہ استحقاق صرف پارلیمان کے پاس ہے کہ وہ انہیں ہٹا دے۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ ایسا مطالبہ کرنے والے اقلیت میں ہیں۔ پارلیمان وزیر اعظم پر ایک بار پھر اعتماد کا اظہار کر چکی‘ جو رائے عامہ کی نمائندہ ہے۔ ان حقیقتوں پہ مستزاد ان لوگوں کے تضادات ہیں‘ جو اس وقت حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کی اخلاقیات بھی زیر بحث ہیں لیکن یہ باتیں اس وقت میرا موضوع نہیں۔
یہ مقدمات درست ہیں یا غلط؟ اس سوال کا کوئی متعین جواب ہو گا مگر وہی جواب دینے سے اہلِ دانش اس وقت گریزاں ہیں۔ چوبیس گھنٹے نشریات جاری رہتی ہیں۔ اخبارات کے صفحات کے صفحات ہر روز تجزیوں سے سیاہ کیے جاتے ہیں، اس کے باوصف ابہام ہے کہ ختم نہیں ہوتا۔ میرے نزدیک یہ مقدمات اول و آخر غلط ہیں۔ مقدمہ غلط ہے اور حکمتِ عملی بھی۔ ان کے غلط ہونے کے دینی، آئینی، اخلاقی اور سیاسی دلائل موجود ہیں۔ میں کئی دنوں سے مسلسل اس موضوع پر لکھ رہا ہوں اور ان پہلوئوں کو واضح کر رہا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا فیصلہ کن موڑ ہے۔ اس وقت حکومت کی تبدیلی کے باب میں دو نقطہ ہائے نظر (narratives) ہیں۔ ایک وہ جس کی نمائندگی طالبان کرتے ہیں۔ جمہوریت ایک بے معنی شے ہے۔ جمہوریت سے ان کی مراد مو جودہ پارلیمانی یا صدارتی نظام ہے‘ جو بالغ رائے دہی کی اساس پر کھڑا ہے۔ حکومتی نظام چلانے کا حق نیک افراد کوحاصل ہے جن کا انتخاب کچھ صاحبانِ رائے کریں گے۔ اس کے لیے سماج کے صالحین پر مشتمل ایک جماعت ہی فیصلہ کرنے کی مجاز ہے۔ دوسرا نقطہ نظر وہ ہے جس کے تحت اس وقت ملک کا نظام چل رہا ہے۔ عمران خان اور طاہرالقادری صاحبان کا نقطہ نظر طالبان ہی کے موقف کی توسیع محسوس ہوتا ہے۔ دوسرے موقف کی نمائندگی دیگر تمام سیاسی جماعتیں کر رہی ہیں۔ اس ساری بحث میں وزیراعظم نوازشریف یا عمران خان کے نام بے معنی ہیں۔
بعض اہلِ دانش کا مخمصہ یہ ہے کہ وہ طالبان کی مذمت کرتے ہیں اور عمران خان کی تائید۔ ان کے ہاں قادری صاحب اور عمران میں بھی فرق کیا جا تا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری غلط ہیں اور عمران خان درست۔ اگر عمران درست ہیں تو ڈاکٹر طاہرالقادری غلط کیسے ہو گئے؟ میرے نزدیک تو قادری صاحب کا موقف زیادہ واضح ہے۔ عمران خان صاحب کے ہاں تو تضادات کا انبار ہے۔ میں یہ نہیں جان سکا کہ چوہدری نثار صاحب کی جگہ غلام سرور خان کو زمام کار سونپنے سے کون سے تبدیلی آ جائے گی؟ آج نواز شریف صاحب کے خلاف جو فردِ جرم مرتب کی جا رہی ہے، اس میں جو شریکِ جرم تھے وہ آج طاہرالقادری صاحب کے ساتھ کھڑے ہیں یا عمران خان کے ساتھ۔ سپریم کورٹ پر حملے کے وقت چوہدری صاحبان، شیخ رشید اور جاوید ہاشمی کس کے ساتھی تھے؟ جس اقربا پروری کی آج دہائی دی جا رہی ہے، یہ تو اس وقت بھی تھی جب شیخ رشید ان کے وزیر تھے۔ یہ تب انہیں اس لیے دکھائی نہیں دی کہ انہیں اقتدار سے حصہ مل رہا تھا۔ آج نہیں ملا تو یہ خاندانی حکومت بن گئی۔ اس لیے جن لوگوں کا خیال ہے کہ نواز شریف کی جگہ عمران خان کو اقتدار سونپنے سے ملک کے نظام میں کوئی جوہری تبدیلی آ جائے گی، انہیں پاکستان کی سیاسی تاریخ اور کے پی کی حکومت کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ جوہری تبدیلی سماجی تبدیلی سے مشروط ہے۔ جب تک سماج نہیں بدلے گا، یہ دھرنے جذبات کی نمائش گاہوں سے زیادہ کچھ نہیں۔ آج قوم کے سامنے سوال یہ نہیں کہ عمران خان ہوں یا نواز شریف، سوال یہ ہے کہ جو بھی ہو، آخر کس ضابطے کے تحت ہو؟ اگر عدلیہ، انتظامیہ اور ہر فرد قابلِ فروخت ہے تو کون سی تحقیقات اور کیسا احتساب؟ ظاہر ہے کہ اس کا جواب صرف طالبان کے پاس ہے جن کا موقف الفاظ کے الٹ پھیر کے ساتھ مارچ کرنے والے ایک فریق نے اختیار کر لیا ہے۔ قوم کو خطرناک راستے پر ڈال دیا گیا ہے۔ اہلِ دانش کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے یکسُو کریں اور بتائیں کہ نظامِ ریاست میں اصلاح تدریجاً ہوتی ہے۔ اس کے لیے سب آمادہ ہیں۔ اگلے انتخابات کہیں بہتر ہوں گے۔ بزور حکومتوں کی تبدیلی اس ملک کو طالبان کے راستے پر ڈالنے کے مترادف ہے۔ اس فیصلہ کن موڑ پر قوم کو دوٹوک رہنمائی کی ضرورت ہے۔ اہلِ دانش اور اہلِ صحافت کی گواہی اخبارات ہی نہیں، تاریخ کے صفحات پر بھی ثبت ہو رہی ہے۔