جاوید ہاشمی نے لنکاڈھا دی۔اسلام آبادکے سبزہ زاروں میں اس کے ٹکڑے جا بجا بکھرے ہوئے ہیں۔ان بکھرے سنگ و خشت سے کیا نیا جہان پیدا کیا جا سکتا ہے؟
اب تو لوگوں نے بچشمِ سر دیکھ لیا کہ یہ کوئی عوامی انقلاب نہیں تھا۔اس میں انقلاب تھا نہ عوام ۔یہ بے تابی کی حدوں کو چھوتی ہوئی،دو افراد کی خواہشِ اقتدار کا اظہارتھا۔یہ خواہش بے کنار ہوئی تو سڑکوں پہ بہ نکلی۔ خیال یہ تھا کہ چند ہزار افرادکو جادو کی چھڑی سے لاکھوں میں بدل دیا جائے گا۔آج کے دور میں یہ میڈیا کا جادو ہے جو سر چڑھ کے بول رہا ہے۔بد قسمتی سے وہ چند ہزار بھی میسر نہ آ سکے جنہیں لاکھوں میں بد لا جا سکتا تھا۔یوںجادو کی چھڑی بھی کام نہ آئی۔ہر گزرتے دن کے ساتھ،جو تھے وہ بھی سمٹنے لگے۔یکم ستمبر کی شب جب عمران خان تازہ دم ہوکر دھرنے میں واپس آئے توچند سو افراد نے ان کا استقبال کیا۔اس دھرنے کی اوقات بس اتنی ہی تھی۔
یہ ایسا انقلاب تھا جس کا کل حدود اربعہ چند سو گز سے زیادہ نہیں تھا۔یکم ستمبر کوبلیو ایریا اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں، مجھے ایک سیمینار میں شریک ہونا تھا۔گھر سے نکلنے لگاتوپی ٹی وی پر قبضے کی خبر سنی۔ارادہ متزلزل ہوا کہ اس انقلاب کی دھمک لازماً بلیو ایریا تک سنی گئی ہو گی جو پی ٹی وی سے چند فرلانگ کے فاصلے پر ہے۔سیمینار کے منتظمین کو فون کیاتو انہوں نے کسی انقلاب سے لا علمی کا اظہار کیا۔میں چونکہ وعدہ کر چکا تھا، اس لیے چلا گیا۔معلوم ہوا کہ سارا شہر پر سکون ہے۔انقلاب توچند ہزارافراد اور چندسو گز تک محدود تھا۔اسی طرح جب پورے ملک میں احتجاج کے لیے کہا گیا تو ہمیں معلوم ہے کہ یہ آواز چند علاقوںتک سنی گئی اور چند ہزارافرادہی نے اس پرلبیک کہا۔یہ احتجاج کسی ملک گیر عوامی تحریک میں ڈھل نہیں سکا۔
اگر یہ احتجاج کوئی عوامی تحریک نہیں بن سکا تو اس کا سبب واضح ہے۔عمران خان کے چار مطالبات میں کوئی ایک ایسا نہیں ہے جو عوامی ہو۔ نوازشریف کا استعفیٰ ایک غیر مقبول مطالبہ ہے۔ اسی طرح نئے انتخابات سے بھی عوام کو کوئی دلچسپی نہیں۔طاہرالقادری صاحب کے چندمطالبات ایسے ہیں جنہیں عوامی کہا جا سکتا ہے۔ان کا معاملہ بھی یہ ہے کہ وہ محض زیبِ داستاں کے لیے شامل کیے گئے اورسب کو معلوم ہیں کہ ناقابلِ حصول ہیں۔ جیسے ہر شہری کو گھر اورروزگار کی فراہمی۔ میرے نزدیک یہ حق مہذب ریاست میں سب کو ملنا چاہیے لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ایسا امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی ممکن نہیں۔قادری صاحب کو بھی معلوم ہے کہ اس مطالبے کی حقیقت جذباتی استحصال سے زیادہ نہیں‘ لیکن اس احتجاج کو عوامی بنانے کے لیے ضروری تھا کہ ایسا کوئی مطالبہ بھی شامل ہوتا۔میں اس بات کی نفی نہیں کر رہا کہا کہ عوام کو مسائل درپیش نہیں۔ میرا کہنا یہ ہے کہ یہ تحریک ان مسائل کے حل کے لیے تھی‘ نہ یہ کوئی انقلاب تھا۔
اب عمران خان کو کیا کر نا چاہیے؟میرے نزدیک اس کا جواب واضح ہے:باعزت واپسی کے لیے راستے کی تلاش۔ چند سو افراد کے ساتھ وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ کوئی آئینی بنیادرکھتا ہے نہ اخلاقی۔اب اگراس روش پر وہ مزید اصرار کریں گے تو خود کو مزیدبرباد کریں گے۔ان کا کہنا ہے کہ جو ہار نہیں مانتا ،اسے کوئی نہیں ہرا سکتا۔لیکن وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اوورز پورے ہو جائیں تو ہار ماننا پڑتی ہے۔انہیں مان لینا چاہیے کہ اوورز پورے ہو چکے۔ جاوید ہاشمی صاحب کے انکشاف کے بعد ،امپائر بھی فیلڈ سے باہر جا چکے۔ اب کوئی انگلی نہیں اٹھے گی۔اس لیے ان کا وقار اس میں ہے کہ وہ بھی فیلڈ چھوڑ دیں۔وہ اگر غور کریں تو ہاشمی صاحب نے ان کے لیے باعزت واپسی کا راستہ پیدا کر دیا ہے۔ انہیں اب دھرنے کے شرکا سے ایک بات کہنی ہے: ''میرا اصل اثاثہ میری دیانت اور مجھ پر عوام کاا عتماد ہے۔شوکت خانم ہسپتال کے لیے لوگ مجھے کروڑوں روپے دیتے ہیں تو اس لیے کہ وہ مجھ پر اعتماد کرتے ہیں۔جاوید ہاشمی کے الزامات نے میرے ارد گرد شکوک کے کانٹے بچھا دیے ہیں‘ میں ان پر چلنے کے لیے تیار
نہیں۔ اگر میں کامیاب ہوگیا تو بھی لوگ کہیں گے کہ یہ فلاں کی تائید سے ہوا ہے اور میں یہ الزام اپنے سر نہیں لے سکتا۔ ہمارا نعرہ تھا؛صاف چلی، شفاف چلی:تحریکِ انصاف چلی۔میں اس تحریک کو شفاف رکھنا چاہتا ہوں اور اسے شکوک سے آلودہ نہیں ہونے دوں گا۔ اس لیے میں اس دھرنے کے خاتمے کا اعلان کر تا ہوں۔ تھوڑے دنوں کے بعد میں اس نظام پر پھر یلغار کروں گااور ان لوگوں کو بھی ساتھ لوں گا جو ہمارے ساتھ تھے لیکن خاموش تھے۔پھر مجھے کوئی نہیں روک سکے گا‘‘اس نفسِ مضمون کی تقریر کے ساتھ میرا خیال ہے کہ ان کی باعزت واپسی ممکن ہے۔ پھر سیاست میںوہ ایک زیادہ فعال اورتعمیری کردار بھی ادا کرسکیں گے۔
اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو ریاست کو جو نقصان ہو گا، وہ ایک طرف، تحریکِ انصاف بھی ،دکھائی یہ دیتاہے کہ دو حصوں میں تقسیم ہو جائے گی۔جاوید ہاشمی کو اگر چند متحرک لوگ میسر آگئے تو ان میں اب بھی اتنا دم ہے کہ وہ ایک نئی جماعت کھڑی کر سکتے ہیں۔میں اس کے آثار دیکھ رہا ہوں۔تحریکِ انصاف کے ذمہ داران جس طرح،ان سے اظہارِ اختلاف کرنے لگے ہیں، یہ تحریکِ انصاف میں ایک بڑے خلفشار کی خبر دے رہا ہے۔عمران خان کوسمجھنا ہوگا کہ یہ سیاست ہے،کرکٹ کا میدان نہیں۔یہاں پسپائی بھی فتح ہو تی ہے،اگر آپ دوبارہ حملہ
کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔عمران کو مطالعے کی عادت ہوتی تو میں انہیں بڑے لوگوں کی سوانح عمری پڑھنے کا مشورہ دیتا۔ اصنافِ ادب میں یہ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی صنف ہے کیونکہ اس میں سیکھنے کا سب سے زیادہ مواد ہو تا ہے۔
طاہر القادری صاحب کو تو معلوم تھا کہ وہ اگرکچھ پا نہ سکے تو انہیں کھونا بھی کچھ نہیں۔مریدوں کی یہی خوبی ہوتی ہے کہ وہ سوال کرتے ہیں نہ دلیل مانگتے ہیں۔وہ تو پیر صاحب پر ایمان بالغیب کے قائل ہوتے ہیں۔اس نا کامی کے بعد بھی انہیں جو کچھ میسر ہے، وہ ضائع نہیں ہو گا۔مرید وہیں ہیں اور نذرانے بھی۔کینیڈا بھی کہیں نہیں بھاگا جا رہا۔سوالیہ نشان تو عمران کے سامنے ہے:
وہ تو خوشبو ہے، ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھول کا ہے، پھول کدھر جائے گا
تحریکِ انصاف ایک سیاسی جماعت ہے۔عمران خان کے کارکن مرید نہیں ہیں۔سیاسی جماعت میں آ مریت نہیں چل سکتی۔یہ واضح ہو چکا کہ ان کی اس حکمتِ عملی کے خلاف پارٹی کے اندر ایک موثر آواز مو جود ہے۔انہیں اس آواز پر کان دھرنا ہوں گے۔ سیاسی جماعتیں خود احتسابی سے گزرتی ہیں۔ اگر قیادت غلطی پر اصرار کر نے والی نہ ہو تونیا جہان آبادکیا جا سکتا ہے۔اگر اوورز ختم ہو نے کے بعد بھی عمران نے کھیل جاری رکھنے کی کوشش کی تو وہ تنہا رہ جائیں گے۔میرا خیال ہے 'نئے پاکستان‘ سے پہلے، انہیں 'نئی تحریکِ انصاف‘ کے بارے میں سوچنا چاہیے۔