اعتزاز احسن کا ظرف بہت جلد چھلک اٹھا۔انہوں نے پہلے پیپلزپارٹی اور پھر پورے پارلیمان کو اپنی انا کی لپیٹ میں لے لیا۔چوہدری نثار علی خان کا ظرف بڑا نکلا۔انہوں نے اپنے مزاج کے بر خلاف ایک موقف اپنا یا۔دوسروں کی طرح میرا گمان بھی یہی تھا کہ وہ درگزر نہیں کریں گے۔افتادِ طبع کے برخلاف قدم اٹھانے کے لیے طویل ریاضت کی ضرورت ہوتی ہے۔اس کے لیے تزکیہِ نفس کے بہت سے مرا حل سے گزرنا پڑتا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ اپنی ذات سے لڑنا دنیا کا سب سے مشکل کام ہے۔چوہدری نثاریہ کام کر گزرے۔انہوں نے اپنے وقار میں اضافہ کیا اور دوسروں کو بھی ایک راہ دکھائی۔
اعتزاز احسن کو عظمت چھو کر گزر گئی۔چوہدری نثار سے پہلے اِس نے اعتزاز صاحب کے دروازے پر دستک دی تھی۔وہ چاہتے تواس کا استقبال کرتے۔خورشید شاہ صاحب کی تقریرکے بعد جب وزیراعظم نے سہ بارمعذرت کی توپھر خاموشی ہی میں عزت تھی۔اوراگرکچھ کہنا ضروری تھا توانہیں وہی بات اپنے انداز میں کہہ دینی چاہیے تھی جو چوہدری نثارصاحب نے کہی۔اگر وہ ایسا کرتے تو اس وقت اُن کا ذکر کسی دوسرے اسلوب میں ہوتا۔ لوگ ان کی خوش ذوقی کے ساتھ، ان کی خوش اخلاقی کی داد دے رہے ہوتے۔پھر انہیں اپنی تعریف پرپارلیمان کا اتنا وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہ ہوتی۔اپنے منہ میاں مٹھو اسی وقت بنا جاتا ہے جب دوسرے اس کام سے معذرت کرلیں۔ان کی تقریر سن کے اندازہ ہوا کہ انہیں اپنی ذات سے بلند ہونے کے لیے ابھی طویل ریاضت کی ضرورت ہے۔میرا احساس یہ ہے کہ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے ان کی پہلی تقریر بھی بے محل تھی۔دونوں تقریروں میں انہوں نے عمران خان کو برحق قرار دیا۔اگر ان انتخابات میں اسی طرح دھاندلی ہوئی جیسے وہ بیان کر رہے تھے،تو ان کی جگہ پارلیمان کے اندر نہیں ،باہر ہے۔
ایسا پہلی دفعہ نہیں ہواکہ عظمت نے ان سے گریز کیا۔اعتزاز احسن کی سیاست ویسی رہی نہیں، جیسا وہ دعویٰ کرتے ہیں۔آج وہ ماڈل ٹاؤن کے حادثے پر بڑے دکھ کا اظہار کرتے ہیں۔یہ ہر حساس آ دمی کا دکھ ہے۔ لیکن اس ملک کے عوام ان بے گناہوں کو نہیں بھولے جنہیں1989ء میں سلمان رشدی کی ہفوات کے خلاف احتجاج کے جرم میں مار ڈالا گیا۔جب اسلام آباد کی سڑکوں پہ ان کا لہو بہا یا گیا تو اعتزاز احسن اس وقت وزیر داخلہ تھے۔ان بے گناہوں کے خون کاکسی نے حساب دیا؟کسی کے خلاف مقدمہ چلا؟ ان پر گولی چلانے کاحکم کس نے دیا تھا؟اعتزاز احسن کو ان کی روحوں نے کبھی بے قرار نہیں کیا؟یہ سوالات پچیس سال سے جواب کے منتظر ہیں۔
بے نظیر بھٹو شہیداور زرداری صاحب کے ساتھ بھی ان کے معاملات مدو جزر کا شکار رہے۔کیا اس کی وجہ اصول تھے؟درون خانہ کی خبر رکھنے والے تو ایک دوسری کہانی سناتے ہیں۔جب پہلی بار ان سے کہا گیا کہ وہ زرداری صاحب کا مقدمہ لڑیں توانہوں نے مبینہ طور پر فیس طلب کی۔انہیں جواباً کہا گیا کہ آپ کو ایل پی جی کے جوتین لائسنس ملے اور آپ نے بیچ دیے ،ان کے تین لاکھ روپے روزانہ آپ کو مل رہے ہیں۔وہ آخر کس مد میں ہیں؟روایت ہے کہ اس سے تعلقات میں بھی دراڑ پڑ گئی۔تعلقات میں بال آجائے توبرسوںنہیں جا تا۔2007ء میں بی بی سے ملنے لندن گئے توبے نظیرملنے پرآمادہ نہیں تھیں۔بڑی مشکل سے رسائی ملی۔بابر اعوان نے جس طرح بے جگری کے ساتھ بے نظیر صاحبہ کے مقدمات لڑے اورساتھ دیا، اس نے اعتزاز صاحب کے لیے محترمہ کے ساتھ قربت کے راستے مزید بندکردیے۔ یہ تلخی تادیر پیچھا کرتی رہی،یہاں تک معاملات زرداری صاحب کے ہاتھ میں آ گئے۔اب حسبِ توقع بابر اعوان وزیر قانون تھے۔یوسف رضا گیلانی صاحب بابر اعوان سے خائف تھے کہ پنجاب میں اگر پیپلزپارٹی کے لہجے کی سیاست کوئی کر سکتا ہے تو وہ بابر اعوان ہی ہے۔گیلانی صاحب اور اعتزازصاحب کومشترکہ خوف نے جمع کردیا۔اس کی قیمت پنجاب پیپلزپارٹی کو ادا کر نا پڑی۔صدارت سے فارغ ہونے کے بعد زرداری صاحب لاہور پہنچے تو اعتزاز صاحب نے بلند آہنگ نعرے لگائے۔تلاوت بھی خود کی،یہ الگ بات کہ سورہ اخلاص بھی غلط پڑھی۔پنجاب پیپلزپارٹی کومگر وہ دبنگ لہجہ نصیب نہیں ہو سکا، جو اس کی ضرورت تھی۔ آج پارٹی کا حال سب کے سامنے ہے۔
جسٹس افتخار چوہدری صاحب کے ساتھ اعتزاز احسن کے ہجر ووصال کی داستان بھی پراسرار دھند کی لپیٹ میں ہے۔کاش کبھی کوئی محرم ِ راز یہ داستان بھی لکھ ڈالے۔اس سیاسی پس منظر کے ساتھ جب اعتزاز احسن نے اپنی ذات کے بارے میں اتنی حساسیت کا مظاہرہ کیا تو مجھے بہت حیرت ہوئی۔انہیں خود ہی اپنا قصیدہ کہنا پڑا۔اپنے آپ کو چاند اورپھراس پر تھوکنے کا انجام بتایا۔ محاورہ تو آفتاب کے بارے میں ہے اورآفتاب کو اپنا وجود ثابت کرنے کے لیے کبھی اپنا تعارف کرانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔آمدِ آفتاب ہی دلیلِ آفتاب ہو تی ہے۔پیپلزپارٹی کی قیادت چاہتی تو اس قضیے کو پارلیمان سے دور رکھ سکتی تھی۔جس دن پارلیمنٹ کا یہ ہنگامہ خیز اجلاس ہوا، اس سے پچھلی رات چوہدری نثار علی صاحب کے خلاف انتخابات لڑنے والے پیپلزپارٹی کے امیدوار نے زرداری صاحب سے ملاقات کی تھی۔ شاید انہوں نے بھی پرانا حساب بے باق کر نا چاہا۔ یوں یہ شخصی مناظرہ ایک قومی حادثے میں بدلنے لگا۔چوہدری نثار نے آگے بڑھ کر اسے روک دیا۔
چوہدری نثار پاکستانی سیاست کا ایک منفرد کردار ہیں۔اس میں کوئی شبہ نہیں انہوں نے سیاست ہمیشہ اپنی شرائط پر کی۔لوگ آج تک اس سوال کا جواب نہیں تلاش کر پائے کہ شریف خاندان کے ساتھ ان کی قربت کا سبب کیا ہے؟ان کا دامن ہر طرح کی مالی کرپشن سے پاک رہا۔اُن پر تو اس طرح کا کوئی الزام بھی نہیں لگا۔آج کے دور میں جب الزام تراشی ہماری سیاست کا روزمرہ ہے،یہ معمولی بات نہیں۔آج جس کے جی میں جو آئے ،دوسروں کے بارے میںکہہ دیتا ہے۔کسی ثبوت کی ضرورت نہیں۔اس ماحول میں اگر کسی کا دامن صاف ہے تواسے خان بہادر کا خطاب دینا چاہیے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کے اسلوبِ سیاست کے بارے میں سوالات اٹھتے رہے ہیں۔وہ بلاشرکتِ غیرے، حکومت کر نے کے قائل ہیں۔یہ تاثربھی ہے کہ مسلم لیگ کے دورِ اقتدار میں ان کی مرضی کے بغیر راولپنڈی ضلع میں چڑیا پر نہیں مار سکتی۔کسی کو ان کی اقلیمِ ذات تک رسائی نہیں۔خیر یہ تو افتادِ طبع کا معاملہ ہے۔اسی لیے اس معرکہ آرائی میں انہوں نے جو رویہ اپنایا، وہ سب لوگوں کے لیے حیرت کا باعث بنا۔
ایسے لوگوں میں مَیں بھی شامل ہوں۔میں نے ان کے حق میں کبھی ایک لفظ نہیں لکھا۔ہم دونوں ایک ہی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ میرے اور ان کے گاؤں میں چند کلو میٹرکا فاصلہ ہے۔ اس کے باوصف میری گزشتہ بیس سال میںان سے کوئی بالمشافہ ملاقات نہیں۔میں ان کے اسلوبِ سیاست کا ناقد رہا لیکن اس کے باوجود 1985ء کے انتخابات کے بعد ہمیشہ انہیں ووٹ دیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی انتخاب میں کوئی امیدوار مجھے ان سے بہتر دکھائی نہیں دیا۔میرا گمان یہی رہا کہ وہ ایک خود پسند آ دمی ہیں۔اس معرکے میں مگر انہوں نے جس اخلاقی بڑے پن کا مظاہرہ کیا،اس سے میرے دل میں ان کی قدر میں اضافہ ہوا ہے۔میں نے پہلی دفعہ محسوس کیا کہ وہ کسی بڑے مقصد کی خاطر اپنی ذات سے بلند ہوسکتے ہیں۔یہ تزکیۂ نفس کے بغیر ممکن نہیں۔سچ یہ ہے کہ اسی احساس نے مجھے یہ کالم لکھنے پر مجبور کیا۔اصل عزت یہی ہے کہ دوسرا بے ساختہ آپ کی تعریف کرے۔ اپنے منہ میاں مٹھو تو ہرکوئی بن سکتا ہے۔