یہ محض خاکوں کا مجموعہ نہیں،معاصر اردو ادب،سماج اور سیاست کی تاریخ بھی ہے۔قلم مو رخ کا نہیں، ایک افسانہ نگار کا ہے۔یوں اسلوب میں وہ چاشنی ہے کہ تحریر دماغ سے پہلے دل پر دستک دیتی ہے۔'کھیل کھیل میں پڑھائی‘ اسی کو کہتے ہیں۔یہ ڈاکٹر طاہرمسعود کی کتاب ہے،''کوئے دلبراں‘‘۔
خا کہ نگاری کیاہے؟ایک فرد کی وہ تصویر جسے لکھنے والا پردۂ ذہن سے صفحۂ قرطاس پر منتقل کر دے۔یوں یہ ایک فرد کا تاثر ہے۔شخصیت اگرمعروف ہو تو پڑھنے والے کی دلچسپی بڑھ جا تی ہے۔قلم شگفتہ ہو اور زیرِموضوع فرد میں بھی لوگ دلچسپی محسوس کرتے ہوں توایسے خاکے ادبی تاریخ کا مستقل حصہ بن جا تے ہیں۔کون ہے جو نور جہاں کی رنگین شخصیت کی اقلیم میں اترنا نہ چاہتاہو ؟اگر نو رجہاں کو منٹو کا قلم میسر آ جائے تو پھر وہ تحریر'سرورِ جہاں‘بن جا تی ہے۔قائد اعظم کی کہانی تو خیر مسلم ایشیا کے ہرباسی کے دل پر رقم ہے،لیکن''میرا صاحب‘‘ کا قائد اعظم کسی قدر مختلف بھی ہے۔یہ 'اختلاف‘ منٹو کے قلم نے پیدا کیا ہے۔اب شریف المجاہد صاحب اور منٹو کا قائد اعظم ایک جیسا تو نہیں ہو سکتا۔ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ خاکہ نگاری دراصل لکھنے والا کا تاثر ہے۔یوں اس صنفِ ادب میں، ہم زیرِ تحریر شخصیت ہی سے نہیں،صاحبِ قلم سے بھی ملاقات کرتے ہیں۔
منٹو،رشید احمد صدیقی،سید سلیمان ندوی اور مولا نا عبدالماجد دریابادی کی شخصیات میں فرق ہے۔ان کے لکھے خاکے ان کے سماجی اورعلمی پس منظر، تربیت، ذوق اور رجحانات کا عکس ہیں۔ یہ فرق شخصیات کے انتخاب سے بھی واضح ہے۔سلیمان ندوی آخر
نورجہاں پر کیا اور کیوں لکھیں گے؟زاہدِ خشک کیا جانے کہ درونِ مے خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا۔یہ تو چراغِ راہ گزر ہی بتا سکتا ہے اور اس کوچے کاچراغ منٹو سے زیادہ کون ہو سکتا ہے۔ ندوی صاحب تویہی بتا سکتے ہیں کہ شبلی کون تھے؟'حیاتِ شبلی‘ پرآٹھ سو صفحات لکھ دیے مگر عطیہ فیضی پر دو صفحے نہ لکھ سکے۔ امام حمید الدین فراہیؒ پر لکھا تو قلم توڑ دیا۔اب منٹو کو کیا دلچسپی کہ ان کے ہم عصر لوگوں میں کوئی فراہی بھی تھے۔پھر مو لا نا دریابادی قلم اٹھائیں گے تو اپنے معیار پر۔مو لانا مودودی ہوں یا کوئی اور،اُن کے کچھ طے شدہ خیالات ہیں جس پر وہ لوگوں کو پر کھیں گے۔ یہ سب شخصیات وقیع ہیں لیکن باایں ہمہ کسی خاص میدان کے شہ سوار۔ابوالکلام اور اقبال کامعاملہ تواستثناکاہے ۔
طاہر مسعود کا معاملہ مختلف ہے۔میں کسی تقابل کے بغیر عرض کر تا ہوں کہ انہوں نے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے متعلق افراد کا انتخاب کیا اوران کے بارے میں اپنا تاثر بیان کیا۔اردو ادب بلا شبہ ایک غالب شعبہ ہے لیکن انہوں نے اداکار محمد علی کا خاکہ لکھا ہے، مو لانا عبدالرشیدنعمانی اور مو لا نا حسن مثنیٰ جیسے روایتی علما اور میر خلیل الرحمن اور محمد صلاح الدین جیسے اہلِ صحافت پربھی قلم اٹھا یا ہے۔عبدالستار ایدھی سے ملاقات کا حال قلم بند کیا ہے۔محمد خان جونیجو اور الطاف حسین جیسے اہلِ سیاست کو موضوع بنا یا ہے۔ اور ہاں!''سلطنتِ مغلیہ کا آخری چشم وچراغ‘‘ استاد محبوب نرالے احمد،
کا ذکر بھی اس کتاب میں موجود ہے۔اس طرح یہ صرف ادبی نہیں، ہماری سماجی اور سیاسی تاریخ بھی ہے۔ہر آ دمی کی زندگی میں والدین اور عزیزو اقارب کی جو اہمیت ہے،اس کا کسی عمومی شہرت سے کوئی تعلق نہیں۔طاہر مسعود نے ''اباجان‘‘ اور ''دادا ابا کی یاد میں‘‘ جو کچھ لکھا،وہ ایک شخصی معاملہ ہو سکتا ہے لیکن یہ تحریریں ہیں بہت دل گداز۔یوں بھی ابا جان اور دادا ابا،شخصی تجربات کا موضوع ہونے کے باوجود،ہماری روایت میں تو اجتماعی وجود بھی رکھتے ہیں۔ ہمارے سامنے ایک فرد اپنے باپ کو یاد کرتا ہے تو آنسو ہماری آنکھوں سے روا ںہو جا تے ہیں۔ہم نے اس کے باپ کو نہیں دیکھا ہوتا لیکن ہم اپنے باپ سے تو واقف ہوتے ہیں۔ایک شخصی واردات جب اجتماعی تجربہ بن جائے توتہذیب وجود میں آتی ہے۔'کوئے دلبراں‘ اسی تہذیب کے احوا ل بتاتی ہے۔
ڈاکٹرطاہر مسعودکا اصل میدان ادب ہے ،اگرچہ سندان کے پاس صحافت کی ہے۔ان کے مطالعے کی وسعت اور تنوع حیرت انگیز ہے۔مجھے اس کا اندازہ ان کی کتاب ''یہ صورت گر کچھ خوابوں کے‘‘ پڑھ کرہوا۔معاصرادبی شخصیات کے انٹر ویوز پر مشتمل ایسا دلچسپ، معلومات افزا اور پُرمغز مجموعہ میری نظر سے نہیں گزرا۔وہ اس عہد کی نمائندگی کرتے ہیں جب ادب اور صحافت میں طلاق واقع نہیں ہوئی تھی۔مو لانا مو دودی جدید اردو نثر کے بانیوں میں سے ہیں لیکن پاسپورٹ میں ان کا پیشہ 'صحافت‘ لکھا گیا ہے۔طاہر مسعود بھی صحافت کے استاد ہیں لیکن ادب ہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی زندگی سلیم احمد اور مشفق خواجہ جیسوں کی صحبت میں گزری ۔ہمارے ادب کی یہ اتنی بڑی شخصیات ہیں کہ ہمارے پڑھے لکھے لوگ بھی کم ہی اس کا ادراک کر سکے ہیں۔ 'کوئے دلبراں‘میں سب سے طویل خاکہ خواجہ صاحب کا ہے۔یہ دراصل تین مضامین کا مجموعہ ہے۔میں یہ مضمون پڑھنے سے پہلے صرف 'خامہ بگوش ‘سے واقف تھا۔یہ خاکہ ان کی شخصیت کے مختلف پرت کھولتا ہے اور ہم اپنے عہد کی ایک غیر معمولی ادبی شخصیت کی اقلیمِ ذات میں ایک حد تک جھانک سکتے ہیں۔میں یہاں ایک اقتباس نقل کئے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا۔یہ خاکہ نگار اور خواجہ صاحب، دونوں کا تعارف ہے۔طاہر مسعود لکھتے ہیں: ''میری شادی پر انہوں نے سی ویواپارٹمنٹ میں ایک شاندار دعوت کا اہتمام کیا۔میرا رشتہ انہوں نے ہی طے کرایا تھا... جب بات چیت ہوگئی توایک دن خواجہ صاحب نے کہا:'بھئی آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔ہما(میری بیگم کا نام) نے کہلوایا ہے کہ آپ انہیں(یعنی مجھے) ضرور بتادیجیے کہ میں چشمہ لگاتی ہوں‘۔ اتنا کہنے کے بعد خواجہ صاحب رکے اور اپنے مخصوص انداز میں فرمایا:'فکر مند نہ ہوں،آپ کی ہونے والی بیگم تو صرف چشمہ لگاتی ہیں،میری بیگم تو شادی سے پہلے دوربین لگاتی تھیں...‘‘ طاہر مسعود کو قلق ہے کہ سلیم احمد کا خاکہ اس مجموعے میں شامل نہیں۔یہ قلق مجھے بھی ہے۔آج چند لوگ ہیں جو سلیم احمد پر قلم اٹھا سکتے ہیں۔ سجاد میر،احمد جاوید،سہیل عمر،ڈاکٹر ممتاز احمد یا پھر طاہر مسعود۔ سلیم احمد پر لکھنا ان سب پر قرض ہے۔
طاہر مسعود کا اسلوب بہت شگفتہ، رواں اور شائستہ ہے۔ان کی تربیت جن شخصیات کی صحبت میں ہوئی ہے،اس کا حاصل یہی ہو سکتا تھا۔خاکہ نگاری میں اگرانہیں کسی روایت میں رکھا جاسکتا ہے تو وہ رشید احمد صدیقی کی روایت ہے، منٹو کی نہیں۔ان کاقلم ایک شخصیت کے پرت کھولتا جاتا ہے اورہمارے ذہن کے پردے پر ایک تصویر ابھرتی جاتی ہے۔اس شخصیت کو بلا شبہ ہم ان کی عینک سے دیکھتے ہیں لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ وہ ان معلومات سے متصادم نہیں ہوتی جو ہمیں ان کے بارے میں دیگر ذرائع سے ملتی ہیں۔میرا کہنا تو یہی ہے۔'کوئے دلبراں‘کو پڑھنے کے بعد میرا تاثر یہ ہے کہ اگر آپ نے ان کی کتاب'یہ صورت گر کچھ خوابوں کے‘ پڑھ رکھی ہو تو اس کتاب کی لذت دو آتشہ ہو جا تی ہے۔ دوست پبلیکیشنز نے یہ دونوں کتابیں اہتمام کے ساتھ شائع کی ہیں۔ دھرنے کی طویل رپورٹنگ اورٹی وی چینلزپر دن رات دو رہنماؤں کی ایک ہی تقریر بار بار سن کر آپ کی آنکھیں اور کان دکھنے لگے ہوں توآپ کے لیے اس کتاب کا مطالعہ افاقے کا سبب بن سکتا ہے۔الشفا من عنداللہ۔