تجزیہ جذبات کی شاعری کا نام نہیں۔ کم از کم اُن لوگوں کو تو اس بات کا ادراک ہو نا چاہیے جو سماجی علوم اور ادب کا پس منظر رکھتے ہیں۔
انبیا ؑ کے بعد، انسانوں کی ایک جماعت ایسی ہے کہ عالم کا پروردگار جب اُس کے بارے میں کلام کرتا تو اس کی محبت کا پیمانہ چھلک اٹھتا ہے۔ یہ اللہ کے آ خری رسولﷺ کے اصحابؓ ہیں۔ حسرت سے سوچتا ہوں کہ اس پیمانے سے گرنے والے چند قطرے بھی ہمیں نصیب ہو جائیں تو ہمارا مقدر چمک اٹھے‘ لیکن یہی جماعت جب اُحد کے معرکے میں ایک مشکل صورت حال سے دوچار ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے اُس کی کارکردگی کا تجزیہ کیا۔ اِس تجزیے کا اسلوب اتنا غیر جذباتی اور حقیقت پسندانہ ہے کہ پڑھتے وقت آ دمی سہم جا تا ہے۔ کوئی اس کو سمجھنا چاہے تو آل عمران کی آیات (152 تا 175) کا صرف ترجمہ پڑھ لے۔ یہ صحابہ کے ساتھ محبت کی نفی نہیں، اس کا اثبات تھا۔ خیر خواہی کا تقاضا یہی ہوتا ہے۔ وہ لوگ پہاڑ جیسی غلطی کے مرتکب ہوئے‘ جنہوں نے تجزیے کے غیر جذباتی پہلو کو نظر انداز کرتے ہوئے، اس نقد کو منفی معنی پہنائے اور اسے صحابہؓ پر تنقید کا جواز سمجھ لیا۔
تجزیہ اور جذبات نگاری کے فرق کو سمجھنے کے لیے اسالیبِ کلام کا تنوع پیشِ نظر رہنا چاہیے۔ نفسِ مضمون اسلوبِ کلام کو بدل دیتا ہے۔ ادب کا ہر طالب علم اس فرق سے واقف ہے۔ مو لانا ابوالکلام آز اد ''غبارِ خاطر‘‘ میں جذبات کی شاعری کرتے ہیں۔ ''ترجمان القرآن‘‘ کا مصنف ایک جلیل القدر عالم کی شان کے ساتھ کلام کرتا ہے۔ ''مضامینِ آزاد‘‘ میں تجزیہ ہے اور یہاں ان کا اسلوب استدلال کا رنگ لیے ہوئے ہے۔ ''الہلال‘‘ کے ابتدائی دور میں جب وہ داعی بن کر قلم اٹھاتے ہیں‘ تو لوگ ایک مختلف ابوالکلام کو خامہ فرسا دیکھتے ہیں۔ جو لوگ شاعر اقبال اور نثر نگار اقبال میں فرق کرتے ہیں، وہ بھی اس بات کو نظر انداز کرتے ہیں کہ شاعری سے اقبال جو مقصد حاصل کرنا چاہتے تھے اس کے لیے لبادہء شعر ہی مناسب تھا‘ نثر سے کچھ اور مطلوب تھا، اس لیے اظہار کا پیرایہ بدل گیا۔
جب میں لکھتا ہوں کہ اس نظام سے مستفید ہونے والا انقلابی طبقہ دراصل اقتدار و اختیار میں اپنا حصہ چاہتا ہے تو یہ تجزیہ ہے جسے غیر جذباتی انداز میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اختیار میں حصہ چاہنا فی نفسہ کوئی منفی خواہش نہیں‘ جسے توہین کہا جائے۔ کسی سماج میں جب عوام ووٹ کا حق مانگتے ہیں تو وہ اقتدار میں اپنا حصہ چاہتے ہیں۔ یورپ میں جمہوریت کا آغاز دراصل اس نعرے سے ہوا کہ 'اقتدار میں نمائندگی نہیں تو ٹیکس بھی نہیں‘ (No taxation without representation)۔ اختیار کی خواہش ارسطو و افلاطون اور نطشے و فرائیڈ سے لے کر عہدِ حاضر کے اہلِ علم تک، سماجی علوم کا ایک اہم موضوع ہے۔ دورِ جدید میں اس کے لیے‘ اثرورسوخ (influence) کا لفظ بھی مستعمل ہے۔ کم و بیش ہر آدمی دوسرے کو متاثر کرنا چاہتا ہے۔ یہ کام اختیار کے بغیر نہیں ہوتا۔ انسان کی اس خواہش کا ظہور اس کی ذہنی سطح اور سماجی ماحول کے لحاظ سے ہوتا ہے۔ ایک آدمی ابتداً گھر میں اقتدار چاہتا ہے۔ جیسے جیسے اس کا دائرہ کار بڑھتا چلا جاتا ہے، اقتدار کی یہ خواہش بھی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ وہ دکان دار ہے تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ انجمن دکان داراں کا صدر بن جائے۔ کوئی گاؤں کی سطح پر کونسلر بن کر مطمئن ہو جاتا ہے اور کوئی ملک کا وزیر اعظم بننا چاہتا ہے۔ یوں بھی ہوتا ہے کہ اقتدار کی یہ خواہش وقت کے ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو پنجاب اسمبلی کا رکن نواز شریف تین بار ملک کا وزیر اعظم نہ بنتا۔ گیارہ کھلاڑیوں کا کپتان بیس کروڑ کا قائد بننے کی خواہش نہ پالتا۔
ایک نظام میں جب زیادہ سے زیادہ لوگ مختلف سطحوں پر فیصلہ سازی کے عمل میں شریک ہوتے ہیں‘ تو اس کا ایک منطقی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خود کو اس میں حصہ دار سمجھنے لگتے ہیں۔ جدید اصطلاح میں اسے 'اونرشپ‘ (ownership) کہا جاتا ہے۔ جمہوریت کی روح یہی ہے۔ ووٹ کا حق دراصل عام آ دمی میں 'اونرشپ‘ کا احساس پیدا کرتا ہے۔ وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ کسی نہ کسی درجے میں، وہ شریکِ اقتدار ہے۔ جو سماج اکثریت میں یہ احساس پیدا کر دیتا ہے، وہ مستحکم ہو جاتا ہے۔ اس کی ایک صورت انتخابات کا نظام ہے۔ جن معاشروں میں زیادہ سے زیادہ افراد سیاسی عمل کا حصہ بنتے ہیں‘ وہاں ایک مستحکم سیاسی نظام قائم ہو جاتا ہے۔ ضلعی حکومتیں اور بلدیاتی ادارے اسی شراکت کے مظاہر ہیں۔ میں جب بلدیاتی اداروں کی بات کرتا ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ میں ایک مکمل فہرست دے رہا ہوں۔ لیبر یونینز، طلبا یونینز، انجمن دکان داراں... یہ جمہوری اداروں کی ایک طویل فہرست ہے جو زیادہ سے زیادہ لوگوں میں یہ احساس پیدا کرتی ہے کہ وہ فیصلوں میں شریک ہیں۔
جب لوگ شریکِ مشاورت ہوتے ہیں تو اس کے دو فوائد ہوتے ہیں۔ ایک یہی اونرشپ کا احساس۔ دوسرا یہ کہ وہ نظام سے آگاہ ہوتے ہیں اور انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ ایک نظام کیسے کام کرتا ہے اور اس میں اگر کوئی تبدیلی آ سکتی ہے تو کیسے۔ باہر بیٹھ کر جب لوگ ہتھیلی پر سرسوں جماتے ہیں تو اکثر اس کی وجہ لاعلمی ہوتی ہے یا بددیانتی۔ سابق حکمران جب آج کی حکومت پر تنقید کرتے ہیں تو اس سوال کو دانستہ نظر انداز کرتے ہیں کہ اگر تبدیلی اتنا آسان کام تھا تو وہ کیوں نہیں لا سکے؟ ہمارے ہاں چونکہ لوگ جذبات کی شاعری اور تجزیہ میں فرق نہیں کرتے اس لیے وہ اکثر اس نوعیت کے سوالات کو نظرانداز کرتے ہیں۔ میں نے یہ سوال پہلے بھی اٹھایا تھا اور آج پھر دہراتا ہوں کہ تحریکِ انصاف کے پی اور تحریکِ انصاف پنجاب کے رویے میں آخر فرق کیوں ہے؟ سب جانتے ہیں کہ خیبر پختون خوا کی تنظیم اس نظام کے خلاف کسی ایڈونچر کی حامی نہیں۔ دوسری طرف پنجاب میں ایک ہیجان برپا ہے۔ اس کا کوئی جواب، اس کے سوا نہیں دیا جا سکتا کہ کے پی کی تحریکِ انصاف اس نظام سے مستفید ہو رہی ہے اور پنجاب میں محروم ہے۔ وہ یہاں بھی اس محرومی کا ازالہ چاہتی ہے۔
وال سٹریٹ پر قبضے کی تحریک چلی تو اس کا نعرہ بھی یہی تھا کہ 'ہم‘ جو 99 فی صد ہیں، محروم ہیں اور ایک فیصد وسائل پر قابض ہے۔ اس تحریک کا کیا انجام ہوا اور اس میں ہمارے انقلاب پسندوں کے لیے، کیا سبق ہے، ِاس وقت یہ میرا موضوع نہیں۔ سرِ دست مجھے یہ کہنا ہے کہ اس تحریک کے لوگ بھی دراصل اختیار اور وسائل میں اپنا حصہ مانگے تھے۔ جب لوگوں میں یہ احساس پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ اقتدار اور فیصلہ سازی کے عمل میں شریک نہیں ہیں تو انہیں مطمئن کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کہا گیا کہ پنجاب حکومت اس لیے بلدیاتی انتخابات نہیں کرا رہی کہ اسے تحریکِ انصاف کے جیتنے کا خوف ہے۔ میرا بھی یہی کہنا ہے کہ ہمارا برسر اقتدار طبقہ کم ظرف ہے اور دوسروں کو اختیار میں شریک نہیں کرنا چاہتا۔ اسی سبب سے اضطراب پیدا ہوتا ہے۔ یہ صرف پنجاب میں نہیں ہے، کے پی کی حکومت بھی اب بلدیاتی انتخابات کا نام نہیں لیتی۔ پرویز خٹک صاحب بھی وزیر اعلیٰ ہاؤس چھوڑنے پر تیار نہیں۔
اس وقت پاکستان میں جذباتی شاعری کی نہیں، سنجیدہ تجزیے کی ضرورت ہے۔ سماجی علوم اور تاریخ کے پس منظر میں عوام کی تعلیم لازم ہے۔ میں کم از کم ان لوگوں سے ضرور اس کی توقع کروں گا‘ جن میں معاشرتی علوم اور ادب کا شعور کسی نہ کسی سطح پر موجود ہے۔ رہی میری بات تو گالی اور توہین کے الفاظ میری لغت میں نہیں۔ جو مجھ سے یہ بات منسوب کرتا ہے، وہ مجھ سے واقف ہے نہ تجزیے کی اسلوب سے۔ تجزیہ، میں عرض کر چکا کہ جذبات کی شاعری نہیں ہوتا۔