دھرنے میں بیٹھے لوگوں کو میری طرف سے عید مبارک۔
سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا... عربوں کی فصاحت وبلاغت کا مظہر یہ جملہ،اہلِ ہندنے مو لا نا ابوالکلام آز ادکی زبان سے پہلی بارسنااور پھر یہ ضرب المثل بن گیا۔
عید مسلمانوں کا تہوار ہے۔دل چاہتا ہے کہ اسے اپنوں کے ساتھ گزارا جائے۔ رزق کی تلاش میں اہلِ خانہ سے بچھڑنے والے سارا سال اس دن کا انتظار کرتے ہیں کہ یہ ان کے لیے ملن کا پیغام لے کر آتا ہے۔وزیرستان کاباسی کراچی سے چلتا ہے کہ ماں کی آنکھوں میں ایک سال سے بیٹے کا انتظارڈیرے ڈالے بیٹھا ہے۔جمعہ کو میں لاہور میں تھا۔سرِ شام اپنے شہر راولپنڈی کے لیے روانہ ہونا چاہا تو معلوم ہوا کہ پبلک ٹرانسپورٹ میں جگہ ملنے سے رہی۔ایک دوست کی ان تھک کوششوں سے یہ ممکن ہوا کہ شب ساڑھے بارہ بجے روانہ ہوں۔لاری اڈے پر پہنچا تو ایسا لگا جیسے سارا شہر عازمِ سفر ہے۔یہ صرف پاکستان میں نہیں ہو تا۔کل اخبار میں ایک تصویر دیکھی۔بنگلہ دیش کے بڑے شہروں سے ریل گاڑیاں لوگوں کولے کر ان کی آ بائی بستیوں کو روانہ ہورہی ہیں۔یہ سب اپنوں کے ساتھ عید منا نے چلے تھے۔ منظر یہ تھا کہ مسافر جیسے ٹرینوں سے چھلک رہے ہیں۔ اندر باہر، چھت، دروازہ، ریل گاڑی نہیں صرف مسافر دکھائی دیتے تھے۔ یہ ملن کی خواہش بھی کتنی منہ زور ہوتی ہے۔لوگ جان ہتھیلی پہ رکھ لیتے ہیں۔
ایک منظر یہ ہے اور دوسرا وہ جو ہم اسلام آباد میں دیکھ رہے ہیں۔کچھ لوگ ہیں جو کم وبیش دو ماہ سے، گھر ہوتے ہوئے بھی بے گھرہیں۔ان کی آنکھوں میں ایک خواب بسایا گیا تھا جوکب کا بکھر چکا۔وہ حقیقی زندگی کی طرف لوٹنا چاہتے ہیں لیکن قیادت کی آنکھوں میں ابھی امید کا چراغ روشن ہے۔وہ ابھی اس مخلوق کوجسے عوام کہتے ہیں، اس چراغ کا روغن بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔کچھ کو تو آ زادی مل گئی لیکن بہت سے ابھی قیدِ آرزو میں ہیں۔آرزو کسی کی،ا سیری کسی کی۔کیا ان کا کوئی گھر در نہیں؟ کیا ان کا دل نہیں چاہتا ہوگا کہ عید اپنوں کے ساتھ منائیں؟ کیایہ اپنے گھروں کو لوٹنا نہیں چاہتے ؟ان سوالوں کے جواب تو ہوں گے۔واقعہ یہ ہے کہ لوگوں کی محرومیوں کو اگر مذہبی عقیدت کالبادہ پہنا دیا جائے تو بدترین استحصال وجود میں آتا ہے۔اسلام آباد میں اس کے مظاہر ان دنوں بکھرے ہوئے ہیں۔ اقتدار کسی مذہبی پیش وا کا یا مراعات یافتہ طبقے کے کسی فرد کا،کشتہ ء ستم عام شہری اور مرید۔سچ ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہو تا۔
دھرنے کی یہ طوالت،اس میں اب کوئی شبہ نہیں کہ عمران اور قادری صاحب کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔خیا ل یہی تھا کہ یہ دنوں کا کھیل ہو گا۔منصوبہ ساز سیاسی حرکیات کے تما م پہلوپیشِ نظر نہیں رکھ سکے۔ بعض صورتوں میں آ دمی معلومات سے دور ہو جا تا ہے۔یوں اندازے بھی غلط ہو جاتے ہیں۔اس بار ایسا ہی ہوا۔ دھرنا اپنے اہداف حاصل نہ کر سکا اور طویل ہو تا گیا۔طاہر القادری صاحب کے برخلاف جنہوں نے ابتداًسیاسی اعتکاف ہی پراکتفا کیا، عمران خان ادھر ادھر ہاتھ پاؤں مارنے لگے۔انہوں نے اچھاکیا کہ کامیاب جلسوں نے بجھتے دیے کی لو کو کچھ دیر کے لیے تھام لیا۔قادری صاحب بھی بالآخر اسی نتیجے پر پہنچے۔اب وہ انتخابات میں حصہ لیں گے اور سیاسی جلسوں میں بھی۔انہوں نے بھی اچھا کیا۔اگر وہ ایک نیکی ان مظلوموں کے ساتھ بھی کریں جو یہاں یرغمال بنے بیٹھے ہیں تو اور اچھا کریں گے۔اگر وہ دھرنوں کے باضابطہ خاتمے کااعلان بھی کردیتے توکم از کم ان مظلوموں کی دعا ضرور ان کے شاملِ حال ہو جا تی۔
عیدنے عمران خان اور قادری صاحب کو اس کے لیے ایک موقع فراہم کر دیا تھا۔وہ یہ کہہ سکتے تھے کہ اب ان کی جد وجہد دوسرے مر حلے میں داخل ہو گئی ہے۔عمران خان نے اپنی ناکامی کو ایک اور رخ دینا چاہا جب یہ کہا کہ نوازشریف نے استعفیٰ نہ دے کر اچھا کیا۔انہیں یہ موقع مل گیا کہ وہ اپنے پیغام کا ابلاغِ عام کر سکیں۔اس طرح کا جواز اب بھی گھڑا جا سکتا تھا۔ لوگ عید کرلیتے، دھرنے کی صفیں اس خاموشی سے سمٹ جاتیں کہ کسی کو ناکامی کا تاثر نہ ملتا۔تحریک جلسوں کے مرحلے میں داخل ہو جاتی۔معلوم ہو تا ہے کہ اس تحریک کی منصوبہ سازی اب بھی ایسے ہی ہاتھوں میں ہے کہ کوئی سیاسی ذہن یوں یک طرفہ طور پر نہیں سوچتا۔وہ سیاست کو ممکنات کا فن سمجھتا اورنئے راستے تلاش کرتا ہے۔اب قربانی سے پہلے قربانی کے بجائے، اگلے سال انتخابات کی بات ہو رہی ہے۔اگر سیاسی موقف میں رجوع گوارا ہے تو حکمتِ عملی میں کیوں نہیں؟
میرے بھائی بابر اعوان کے اونٹ نے دھرنے کو ایک نیا رنگ بلکہ نئی زندگی دے دی۔یوں کہنا چاہیے کہ دھرنے کو عید اور کسی حد تک 'حالاتِ حاضرہ‘ سے ہم آ ہنگ کر دیا۔اگر عید کے ایام میں دھرنے کی باگ اونٹ کی نکیل سے جڑی رہی توتفنن ِطبع کے ساتھ جہاں ایک واجب ادا ہو جائے گا وہاں' دھرنے اور قربانی‘ جیسے موضوع پرایک بر وقت خطبے سے حاضرین کو گرمایا بھی جا سکے گا۔بابر اعوان صاحب نے راستہ دکھا دیا ہے۔دیکھیے دھرنے کی قیادت کہاں تک فائدہ اٹھاتی ہے۔ قادری صاحب اور عمران خان‘ اگر ان کے ذہنِ رسا سے مدد لیتے تووہ انہیں آگے بڑھنے کے ایک سو ایک طریقے بتا سکتے تھے۔لیکن اس کا کیا علاج ذہین آ دمی سے ہر کوئی ڈرتا ہے۔ایسا نہ ہوتا تو پنجاب پیپلز پارٹی آج یوں خدشوں میں نہ گھری ہوتی۔میرا احساس ہے کہ اگر کوئی سیاسی ذہن اس کارِ عبث کے پس منظر میں کارفر ماہوتا تو اس سے بھی کوئی ایسا نتیجہ برا مد کر لیتا جسے ہم پیش رفت قرار دے سکتے۔ا ب تو محض رجعتِ قہقری ہے۔
بابر اعوان کے اونٹ سے عید کے دن تو گزارے جا سکتے ہیں لیکن اس سے آگے جانے کے لیے دھرنے والوں کوکسی 'مقامی جانور‘ کی ضرورت ہو گی۔میری دونوں جماعتوں کی قیادت سے دست بستہ گزارش ہے کہ وہ یہ کام ان مظلوم عوام سے نہ لیں جو ضرورت اور عقیدت کے مارے ان کے ہاتھ لگ گئے ہیں۔اونٹ اور انسانوں میں آ خر کوئی فرق ہو نا چا ہیے۔اب ان پر رحم کیا جائے۔عید کا دن آ پہنچا۔یہ موقع تو ہاتھ سے گیا۔ان لوگوں کو اب یہ اجازت ملنی چاہیے تھی کہ یہ اپنے گھروں کو لوٹیں۔یہ اب ان ہی کی نہیں، اس ملک اور اسلام آباد کی بھی ضرورت ہے۔یہ شہر ایک مقبوضہ بستی کامنظر پیش کر رہا ہے۔یہ عام شہر نہیں، پاکستان کا چہرہ ہے۔اس چہر ے کے خدوخال بہت حد تک بگاڑے جا چکے۔اب یہ بھی رحم کا طالب ہے۔دھرنا اگر کوئی خیر ہے تو اس پر دوسرے علاقوںبالخصوص خیبر پختون خوا کا بھی حق ہے۔اس صدقہ جاریہ سے ان کو بھی حصہ ملنا چاہیے۔ تحریکِ انصاف نے صوبے کو جہاں دیگر برکات سے مستفید کیاہے،وہاں دھرنے کی برکت بھی ان تک پہنچنی چاہیے۔ اگریہ کوئی اچھی چیز نہیں اور دوسرے علاقوںکو اس سے محفوظ رکھنا چاہیے تو پھر اسلام آ باد کے مکینوں کا کیا قصور ہے؟
عمران خان اور طاہر القادری کاش اسلام آباد کی سڑکوں پر بیٹھے لوگوں کے دلوں میں جھانک سکتے کہ آج کے دن ان کے جذبات کیا ہیں؟کاش وہ اپنی آرزوئوں کی اسیری سے نکل کرعامتہ الناس کی سطح پہ آ سکتے۔کاش کوئی کیمرہ ان کے دل کی تصویر دکھا سکتا۔ میں اس عیدپر افسردہ ہوں۔ دھرنے کے مکینوں کو میری طرف سے عید مبارک۔