"KNC" (space) message & send to 7575

سراج الحق صاحب کا تصورِ تاریخ

امیرِ جماعت منتخب ہونے کے بعد، یہ سراج الحق صاحب کی پہلی تقریر تھی جو میں نے سنی۔ اِس تقریر نے مجھے الجھن میں ڈال دیا۔
قاضی حسین احمد صاحب کی یاد میں ایک جلسہ ہوا۔ سراج الحق صاحب نے بتایا کہ جماعت اسلامی ایک تاریخی روایت کی حامل جماعت ہے اور قاضی صاحب بھی اسی کا حصہ تھے۔ یہ روایت شاہ عبدالقادر جیلانیؒ جیسی شخصیات سے ہوتی ہوئی، مختلف مراحل سے گزر کر قاضی حسین احمد تک پہنچی۔ شیخ احمد سرہندی، شاہ ولی اللہ، مو لانا سید حسین احمد مدنی، علامہ اقبال، قائد اعظم اور مولانا مودودی اس کے مختلف پڑاؤ تھے۔ وہ اب اسی روایت کے امین ہیں۔23 ستمبر کو مولانا مودودی کے یومِ وفات پر بھی قومی اخبارات میں ان کا ایک مضمون شائع ہوا‘ جس میں انہوں نے یہ بات دہرائی۔ میری الجھن یہ ہے کہ ایسی کون سی روایت ہے جو شاہ عبدالقادر جیلانیؒ کے وحدت الوجود اور مولانا مودودی کے تصورِ تزکیۂ نفس کو یکجا کر سکتی ہے؟ جو علامہ اقبال کی مسلم قومیت اور مولانا مدنی کی متحدہ قومیت کو ایک ساتھ لے کر چل سکتی ہے؟ کیا سراج الحق صاحب نے مولانا مودودی کی ''تحریکِ آزادیء ہند اور مسلمان‘‘ کا مطالعہ نہیں کیا؟ کیا انہیں معلوم نہیں کہ مولانا مدنی نے مولانا مودودی کے بارے میں کیا لکھا؟
میں ابھی اس الجھن ہی میں تھا کہ انہوں نے ایک بار پھر حیران کر دیا۔ چند دن پہلے انہوں نے جماعت اسلامی کی سوچ رکھنے والے ایک محترم کالم نگار سے گفتگو کی۔ یہ گفتگو انہوں نے اپنے کالم میں نقل کی۔ آپ بھی یہ مکالمہ سنیے؛ ''میں نے سراج الحق سے پوچھا کہ خوشحال پاکستان کے لیے ان کا وژن کیا ہے تو انہوں نے کہا کہ وہی وژن جو قائد اعظم محمد علی جناح کا تھا۔ جس کا قائد اعظم تحریکِ پاکستان کے دوران بار بار تذکرہ کرتے رہے اور پھر جس وژن کی انہوں نے 14 دسمبر 1947ء کو پاکستان مسلم لیگ کونسل کے کراچی اجلاس میں تجدید کی تھی‘‘۔ یہ پڑھنے کے بعد، میں یہ سوچ رہا ہوں کہ جماعت اسلامی کا وژن اگر وہی ہے جو قائداعظم کا تھا تو مولانا مودودی نے یہ جماعت کیوں بنائی؟ 
میرے نزدیک جماعت اسلامی کی قیادت مدت سے ایک مخمصے میں مبتلا ہے۔ وہ اپنی اجتماعی ہیئت میں ایک جوہری تبدیلی سے گزر چکی۔ اس تبدیلی کے بعد جماعت ا سلامی کے لیے یہ مشکل ہو رہا ہے کہ وہ خود کو اپنے دورِ اول کے ساتھ ہم آہنگ کرے۔ بایں ہمہ، پاکستان میں رائج الوقت تصورِ تاریخ وہی ہے جو تحریکِ پاکستان کے تناظر میں مرتب کیا گیا اور جس سے انحراف کے بعد، عوامی پزیرائی کا امکان باقی نہیں رہتا۔ سیاست کرنے والی کوئی جماعت اس کی مخالفت کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ جماعت اسلامی نے اس کا حل یہ نکالا کہ ایک طرف عوامی‘ مذہبی و تاریخی تصورات کو قبول کر لیا جائے اور دوسری طرف یہ ثابت کیا جائے کہ جماعت مسلم لیگ ہی کا تسلسل ہے۔ یہ چونکہ خلافِ واقعہ ہے، اس لیے اس حیلے نے کوئی فائدہ پہنچانے کے بجائے، جماعت کو ایک نئے ابہام میں مبتلا کر دیا ہے۔ میری الجھن بھی یہی ہے۔
جماعت اسلامی اصلاً تجدید و احیائے دین کی ایک ہمہ گیر تحریک تھی‘ جو رائج مذہبی تصورات اور مروجہ سیاسی و سماجی رویوں میں ایک جوہری تبدیلی کی علم بردار تھی۔ مولانا مودودی کے نزدیک فلسفہ و تصوف سے لے کر فقہ و ثقافت تک، مسلمانوں کی علمی و تہذیبی روایت تشکیلِ نو کی متقاضی تھی۔ انہوں نے اس پر بہت لکھا۔ کوئی اس کا خلاصہ دیکھنا چاہے تو ان کی مختصر کتاب ''تجدید و احیائے دین‘‘ کا مطالعہ کفایت کرے گا۔ اسی طرح ہندوستان کے مسلمانوں کو درپیش مسائل کے جو حل مسلم لیگ اور کانگرس پیش کر رہی تھیں، مولانا کو ان سے بھی اتفاق نہیں تھا۔ دونوں پر مولانا کی تنقید ''تحریکِ آزادیِ ہند اور مسلمان‘‘ کی دو جلدوں میں محفوظ ہے۔ جماعت اسلامی کا قیام دراصل مسلمانوں کے مروجہ مذہبی و سیاسی تصورات سے اعلانِ برأت تھا۔ میں جب جماعت اسلامی کی اس تاریخ کو سامنے رکھتا ہوں تو مجھے سراج الحق صاحب کی باتوں سے الجھن ہوتی ہے اور میں سمجھ نہیں سکتا کہ اس پس منظر کے ساتھ جماعت اسلامی شاہ عبدالقادر جیلانیؒ، مو لانا حسین احمد مدنی اور قائد اعظم کی روایت کی ایک ساتھ امین کیسے ہو سکتی ہے؟
تجدید و احیائے دین کی تحریک اور اقتدار کی کشمکش میں فریق ایک سیاسی جماعت میں جوہری فرق ہوتا ہے۔ تجدید و احیا کا لازمی نتیجہ مروجہ خیالات پر تنقید ہے۔ ایسے لوگ عوام کی نظر میں، کم از کم اپنی زندگی میں، لازماً معتوب ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک عالم عام طور پر اپنی زندگی میں مقبول نہیں ہو تا، صوفی ہوتا ہے۔ صوفی کو تجدید سے دلچسپی نہیں ہوتی۔ عالم اسی لیے عوامی تائید و حمایت سے بے نیاز ہوتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ وہ گمنامی کی زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہو جائے اور لوگ اسے موت کے بعد دریافت کریں۔ علامہ اقبال کا تصوف اور سیاسی خیالات کی مقبولیت انہیں بچا لے گئے۔ 'عالم‘ اقبال اگر لوگوں کے سامنے آتا تو معتوب ٹھہرتا۔ جتنا آیا، لوگ اس کو بھی قبول نہ کر سکے۔
سیاست دان کا معاملہ یہ نہیں ہوتا۔ وہ کسی کی ناراضی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اسے اپنا حلقہء اثر وسیع کرنا ہوتا ہے۔ جمہوری سماج میں تو یہ ناگزیر ہے کہ یہاں تبدیلی ووٹ سے آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک سیاست دان مذہب و سماج کے باب میں کوئی غیر مقبول تصور اپنانے سے گریز کرتا ہے۔ جماعت اسلامی ابتدا میں تجدید و احیائے دین کی ایک تحریک تھی۔ اس وجہ سے محدود رکنیت کے تصور پر قائم تھی۔ ایک سیاسی جماعت کے لیے یہ تنظیم خود اس کی مقبولیت، میں حائل ہے۔ جماعت اسلامی کی قیادت نے اس جوہری فرق کا ادراک کیے بغیر یہ کوشش کی کہ وہ اپنے ماضی کو ساتھ لے کر چلے اور ساتھ ہی جمہوری سماج میں اقتدار تک بھی پہنچے۔ یوں اس نے تجدیدِ دین اور عوامی سیاست کو جمع کر نے کی کوشش کی اور ان کے متضاد مطالبات میں الجھ کر رہ گئی۔ اس نے حیلوں بہانوں سے کوشش کی کہ اس سے نکل سکے۔ ایک حیلہ قاضی حسین احمد مرحوم نے کیا‘ جب اسلامک فرنٹ کی بنا رکھی۔ ایک حیلہ اب سراج الحق صاحب کر رہے کہ جماعت اسلامی کو شاہ عبدالقادر جیلانیؒ کے تصوف اور مولانا حسین احمد مدنی کی متحدہ قومیت کی روایت کا امانت دار ثابت کیا جائے۔ تطبیق کی اس کوشش کا آغاز مولانا مودودی کی زندگی ہی میں ہو گیا تھا۔ ان جیسی جلیل القدر شخصیت اگر اس تضاد کو نہیں نباہ سکی تو بعد کے لوگ کہاں کامیاب ہو پائیں گے؟ 
سراج الحق صاحب خود کو مخمصے اور مجھے اس الجھن سے نجات دلا سکتے ہیں اگر وہ اس فرق کو جان لیں۔ جماعت اسلامی کو اب فیصلہ کرنا ہے کہ وہ تجدید و احیائے دین کی تحریک ہوگی یا ایک سیاسی جماعت۔ پہلا کام مشکل ہے اور اس کے لیے مولانا مودودی جیسے عالم کی ضرورت ہے۔ جماعت اسلامی اب ایسی نعمتوں سے محروم ہو چکی۔ جماعت کیا، اب تو اس امت کے لیے بھی یہ نعمت ایسی ارزاں نہیں ہے۔ سیاسی جماعت البتہ وہ بن سکتی ہے۔ تحریکِ انصاف کے اخلاقی زوال کے بعد، پاکستان کو ایک اچھی سیاسی جماعت کی ضرورت ہے جو مضبوط اخلاقی بنیادوں پر کھڑی ہو۔ سراج صاحب اگر اس سمت میں پیش قدمی کریں گے تو یہ جماعت کی خدمت ہو گی اور پاکستان کی بھی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں